- پاکستان کے ڈیری سیکٹر کو مسلسل چیلنجوں کا سامنا، ماہرین
- کھانسی جان لیوا کب ثابت ہوتی ہے؟
- بغیر پروں کے پُر تعیش طیارے کا ڈیزائن پیش
- ازدواجی زندگی نے مجھے سیلز بزنس میں ماہر بنا دیا، امریکی شہری
- عامر 15سال بعد ٹی20 ورلڈکپ ٹائٹل کی تاریخ دہرانے کے خواہاں
- غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری رہی تو جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوگا، حماس
- اسٹیل ٹاؤن میں ڈکیتی مزاحمت پر شہری کا قتل معمہ بن گیا
- لاہور؛ ضلعی انتظامیہ اور تندور مالکان کے مذاکرات کامیاب، ہڑتال موخر
- وزیراعظم کا 9 مئی کو شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب کے انعقاد کا فیصلہ
- موبائل سموں کی بندش کے معاملے پر موبائل کمپنیز اور ایف بی آر میں ڈیڈ لاک
- 25 ارب کے ٹریک اینڈ ٹریس ٹیکس سسٹم کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین ہوگیا
- وزیر داخلہ کا ملتان کچہری چوک نادرا سینٹر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان
- بلوچستان کے مستقبل پر تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کرینگے، آصف زرداری
- وزیراعظم کا یو اے ای کے صدر سے ٹیلیفونک رابطہ، جلد ملاقات پر اتفاق
- انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی کمی کالجوں میں چار سالہ پروگرام میں رکاوٹ ہے، وائس چانسلرز
- توشہ خانہ کیس کی نئی انکوائری کیخلاف عمران خان اور بشری بی بی کی درخواستیں سماعت کیلیے مقرر
- فاسٹ ٹریک پاسپورٹ بنوانے کی فیس میں اضافہ
- پیوٹن نے مزید 6 سال کیلئے روس کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھالیا
- سعودی وفد کے سربراہ سے کابینہ کی تعریف سن کر دل باغ باغ ہوگیا، وزیر اعظم
- روس میں ایک فوجی اہلکار سمیت دو امریکی شہری گرفتار
مغرب اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا!
میں نے فرانسیسی میگزین CharlieHebdo پر حملے کے حوالے سے سابقہ بلاگ میں لکھا تھا کہ اگر اظہار رائے کی آزادی اسی سمت چلتی رہی اور اس کے سامنے بندھ نہ باندھے گئے تو قتل وغارت گری کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔
لیکن حالیہ حملوں اور پرتشدد واقعات میں 17 افراد کے مارے جانے کے باوجود چارلی ہیبڈو کی انتظامیہ باز نہ آئی اور اکثر مغربی ممالک کی سرپرستی میں ایک بار پھر پہلے سے بڑھ کر اپنی ہٹ دھرمی دکھا دی۔ بہت سے گستاخانہ خاکوں کو ایک بار پھر یکجا کر کے شایع کر دیا ہے۔ چند ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والا یہ میگزین اب لاکھوں کی تعداد میں شائع کرکے دنیا بھر میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر گستاخانہ خاکوں کے حق میں ہزاروں کی تعداد میں مضامین لکھ کراسلام دشمنی اور مسلم کشی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
یورپی و امریکی! اب بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کو دہشت گرد بتا رہے ہیں۔ ان ممالک کا میڈیا چارلی ہیبڈو پر حملوں کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کی مقدس ترین ہستی پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کی اب ماضی سے بڑی کر جسارت کر رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے کے نام مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کی اس باقاعدہ سازش کی مختلف ممالک سرپرستی کر رہے ہیں۔ ماضی میں جب بھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی مگر کسی مسلمان نے اس کے ردعمل میں کسی چرچ پرحملہ کیا نہ ہی عیسائی و یہودی مذاہب کی مقدس ہستیوں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام اور حضرت عذیرعلیہ اسلام کے خلاف کوئی ہرزہ سرائی کی۔ کیوں کہ مسلمان سیدنا عیسیٰ سمیت تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں۔
لیکن اہل مغرب جو آزادی اظہار اور انسانی آزادیوں کے علمبردار بنتے ہیں، انہیں دنیا کے واحد سچے دین کا یورپ و امریکہ میں فروغ ایک آنکھ نہیں بھارہا۔ اسلام کی پیشرفت کو روکنے کے لئے کبھی مسلم خواتین کو حجاب اور نقاب اوڑھنے سے روکا جا رہا ہے، کبھی مسجدوں کے میناروں اور کبھی خود مسجدوں کی تعمیر پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں اور اب تو مسجدیں جلانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ یہ سب اس جانب اشارہ ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف ہے۔
چارلی ہیبڈو کی جانب سے ایک بار پھر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں شدید غم و غصے پایا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر گزشتہ دو روز سے مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور ناموس کا دفاع کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر #WhoIsMuhammad دو دنوں سے دنیا بھر کے ٹاپ ٹریندز کی فہرست میں موجود ہے۔ جبکہ پاکستان میں یہ سرفہرست ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں ان گستاخانہ خاکوں کے خلاف مسلم عوام میں تو بے چینی پائی جا رہی ہے۔ لیکن حکمرانوں یا اسلامی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی موثر ردعمل سامنے نہیں آیا جو ان کی شایان شان ہو۔
حیرت تو اس بات پر ہو رہی ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان نے بھی فرانس حملوں کی مذمت کی مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی پر یہ سب خاموش ہیں۔ پاکستان میں مختلف سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے تو اسلام کو استعمال کر لیتی ہیں۔ مگر پیغمبر اسلام کی توہین پر سیاسی پارٹیوں کا رویہ ماضی میں بھی اور اب بھی مایوس کن ہے۔
بڑے افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ عالم اسلام کے حکمران اور ادارے اگر ماضی اور حالیہ واقعات پر سرد مہری کا مظاہرہ جاری رکھیں گے اور مغربی ممالک کی ناراضگی کے خوف سے چپ رہیں گے تو گستاخیوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پھر اس کے ردعمل میں پوری دنیا میں پرتشدد واقعات سامنے آنے کا بھی احتمال ہے۔
ماضی میں بھی جب کسی گستاخانہ عمل کے ردعمل میں کسی ملک کی املاک کو کوئی نقصان پہنچا، یا توہین کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تو اس عمل کو چند افراد کا ذاتی فعل قرار دے کر مغربی ممالک اپنی ریاست کو مطعون ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ اگر یہ افعال گستاخوں کے ذاتی ہوتے ہیں تو مغربی حکومتیں سرکاری سطح پر ان گستاخوں کو نوازتی اور پناہ کیوں دیتی ہیں؟
دور کیوں جائیں۔ گزشتہ دو برسوں میں Innocence of Muslims بنانے والے فلم ساز نیکولا باسلے کو اس اشتعال انگیز فلم پر کون سے سزا دی گئی ہے۔ جس کے ردعمل میں امریکہ نے لیبیا بن غازی میں ایک بہت بڑا نقصان اٹھایا تھا۔ اسی طرح علی الاعلان قرآن مجید کو نذآتش کرنے والے معلون پادری ٹیری جونز کو اب تک کون سی سزا دی گئی ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فرانس سمیت گستاخانہ خاکوں کی حمایت کرنے والے تمام ممالک کا سفارتی بائیکاٹ کیا جائے۔ مسلم حکمران یا تو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے ان گستاخوں کی پھانسی کا مطالبہ کریں اور اگر ان کی شنوائی نہیں ہوتی تو احتجاجاً ان عالمی فورمز سے باہر آجانا چاہیے۔تمام مسلمان ممالک کو متفقہ طور پر دنیا میں اپنا یہ مطالبہ رکھنا چاہیے کہ مغربی ممالک میں موجود مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ مسلم دنیا کے اسکالرز، میڈیا اور اہل قلم اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اہل مغرب کے اس منفی تاثر کو ختم کریں کہ اسلام دنیا میں دہشت گردی یا بدامنی کا سبب ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار اور شخصیت کا تو غیر مسلم مفکرین نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی جانوں سے بڑی کر تحفظ ناموس رسالت کے لیے کردار ادا کریں۔
اہل مغرب کو سوچ لینا چاہیے کہ ان قبیح حرکتوں سے نہ اسلام مٹ سکے گا نہ اس کے ماننے والے۔ ہاں اگر تم دنیا میں امن چاہتے ہو تو مسلمانوں کو انصاف دو تو دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔