آزادی اظہار رائے کا فساد

محمد نعیم  جمعرات 8 جنوری 2015
فرانس میں ہونے والے واقعات اگر کوئی سازش نہیں اور توہین آمیز خاکوں کا ردعمل ہیں تو سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ اِس تنازعے کی شروعات کس نے کی؟۔ فوٹو: اے ایف پی

فرانس میں ہونے والے واقعات اگر کوئی سازش نہیں اور توہین آمیز خاکوں کا ردعمل ہیں تو سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ اِس تنازعے کی شروعات کس نے کی؟۔ فوٹو: اے ایف پی

اگر عالمی سطح پر پہلے ہی اس عمل کی حوصلہ شکنی اور مرتکب افراد کو سزا دی جاتی تو یہ ردعمل سامنے نہ آتا فرانسیسی جریدے CharlieHebdo پر حملے کے فوراً  بعد ہی اس کو توہین رسالت پر مبنی کارٹونز کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ اس حملے کے بعد پوری دنیا میں اسلام کو موضوع بحث بنایا جائے گا اور ہرکوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑے گا۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان حملوں کے بعد یہ سوچے یا یہ کہے کہ آخر اس کی نوبت آئی کیوں۔

اگر یہ کوئی سازش نہیں اور حقیقت میں یہ حملے توہین آمیز خاکوں کے ردعمل میں ہی کیے گئے ہیں تو اس تنازعے کی شروعات کس نے کیں؟۔ نفرت کی یہ چنگاری کہاں سے نکلی اور اب تک یہ کیا کچھ بھسم کر چکی ہے۔

شائد کسی شاعر نے اسی طرح کے واقعات کا تجربہ کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ کوئی ایک دم نہیں ہوتا

آئیے پہلے چند سال قبل کے چند واقعات کا تذکرہ ہو جائے۔ یہ ستمبر 2005ء کی بات ہے، براعظم یورپ کے ملک ڈنمارک کے ایک اخبار ’جیلنڈ پوسٹن‘ نے نبی آخر الزمان محمد رسول اللہﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے خاکے بنانے کا مقابلہ کرایا۔ ڈنمارک کے کئی لوگوں نے خاکے بنائے، جن میں سے 12خاکوں کو اخبار نے30ستمبر 2005ء کو شائع کر دیا۔ جیلنڈ پوسٹن ڈنمارک کا کوئی بڑا، معروف یا اچھی شہرت والا اخبار نہیں، جب اس  حرکت پر کہیں ردعمل سامنے نہ آیا تو اخبار نے اسے اپنی کامیابی قرار دے کر اس پر بے پناہ اظہار مسرت کیا، صورتحال کو بھانپتے ہوئے 15اکتوبر 2005ء کو ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں مذکورہ اخبار کے دفتر کے باہر 5ہزار سے زائد مسلمانوں نے زبردست لیکن مکمل پرامن مظاہرہ کیا۔ جس کے بعد خاکہ نویسوں کو جان بچانے کے لئے چھپ کر زندگی گزارنے کا مشورہ دیا گیا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔ 19اکتوبر 2005ء کو 10مسلم ممالک کے سفیروں نے ڈینش وزیراعظم ایندرس فاگ راسموسن سے اپنی اور امت مسلمہ کی تشویش سے آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن وزیراعظم نے ملنے ہی سے انکار کر دیا۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا، مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تو یورپ کے کئی ممالک نے ڈنمارک کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خاکے چھاپے۔ مسلمانوں کا احتجاج عالمی سطح پر پھیل گیا۔ افغانستان میں احتجاج کرنے والوں پر اتحادی افواج نے فائرنگ کر کے 90سے زائد شہری شہید کئے۔

مسلمانوں کے ردعمل کے باعث یہ سلسلہ عارضی طور پر روک دیا گیا لیکن 2009ء اور 2010ء میں یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا۔ کئی ممالک میں نئے خاکے شائع ہوئے اور فیس بک ویب سائٹ پر عالمی مقابلے کا انعقاد کر دیا گیا۔ اس پر بھی عالمی سطح پر احتجاج ہوا۔

دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں کہ جس کی چاہی عزت خاک میں ملادی اور جس کاچاہا دل کے پرخچے اڑا دیئے۔ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں حقائق تک کو بیان کرنے کے لئے بھی حدود وقیود پائی جاتی ہیں۔ سارے یورپ کو اس بات کا بخوبی علم تھا اور ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت مسلمانوں کے لئے انتہائی ناقابل برداشت اور تکلیف دہ ہے ۔تعجب اس بات پر کہ  ایسے خاکے شایع کرنے والے ممالک اور حقوق انسانی کے عالمی اداروں کو کروڑوں مسلمانوں کا احتجاج موصول ہوا۔ مگر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا اور نہ ہی کسی حکومت نے ایسے کسی جریدے یا ویب سائٹ پر پابندی لگائی اور نہ ہی ایسے کارٹون بنانے والے کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کی گئی ہے بلکہ ہر جگہ ان کی حمایت و حفاظت کی گئی۔

ہر ملک میں اظہار رئے کے لئے حدود متعین ہیں اس لئے گستاخاں یورپ کو مسلمانوں کی دل آزاری کے اقدامات پر اس بہانے کو استعمال کرنا ایک طرح کی واضح دہشت گردی ہے۔

اب پوری دنیا اس حوالے سے سوچے کے کہ کیا نفرت پھیلانے، دوسروں کی دل آزاری اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا نام ہی آزادی اظہار رائے رہ گیا ہے۔ میں یہاں بات مسلمانوں کی کروں گا۔ بلا شبہ فرانس میں ہونے والے واقعے کی ہرکوئی مذمت کرے گا۔ لیکن کیا دنیا کا کوئی ملک یا ادارہ یہ پوچھنے کی جسارت کرے گا کہ ماضی میں آزادی اظہار رائے کے نام  پر اشتعال انگیزی اور نفرت کے لیے جو کام کیے گئے کیا ان کے خلاف کوئی مناسب کارروائی کی گئی؟۔

یا بڑی عالمی طاقتوں کے حامل ملکوں میں جو کچھ بھی کیا جائے وہ ان کی آزادی ہے۔ ایسا کرنا ان کا حق ہے۔ اس پر نہ کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے اور نہ کوئی ان اقدامات کو سنگین جرم قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر سکتا ہے۔ اگر ناانصافی اور دہرے معیار کا یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر مستقبل میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

اظہار رائے کی اس نوعیت کی آزادی فساد کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر اظہار رائے کی آزادی اسی سمت چلتی رہی اور اس کے سامنے بندھ نہ باندھے گئے تو قتل وغارت گری کی راہ بھی کھل سکتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔