نظریاتی کینسر

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 6 مارچ 2015
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

کینسر کا علاج کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کینسر کی تشخیص مرض کے آغاز ہی میں ہو جائے تو اس موذی مرض کا علاج ممکن ہوتا ہے اگر اس کی تشخیص میں دیر کر دی جائے اور یہ مرض جسم میں پھیل جائے تو پھر اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔

ہماری قومی زندگی میں بھی ایسی مہلک بیماریاں پیدا ہوتی رہتی ہیں جن کی تشخیص ابتدا ہی میں نہ ہو اور وہ بڑھتی پھیلتی رہیں تو ایک مرحلہ ایسا آ جاتا ہے کہ یہ بیماریاں لا علاج  ہوجاتی ہیں۔ دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی بھی ہمارے قومی جسم میں ایک ایسا کینسر بن رہی ہے جس کا علاج گزرتے وقت کے ساتھ مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اس مرض کے شروع ہونے کے ساتھ ہی بعض حلقوں کی جانب سے انتباہ دیا جاتا رہا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کو اس مرحلے پر نہ روکا گیا تو پھر اس کا علاج ممکن نہ ہو گا۔ لیکن ان حلقوں کی بات اور انتباہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جب یہ بیماری پھیلتے پھیلتے کراچی تک آ گئی تو بعض سیاست دانوں نے، جن میں الطاف حسین سر فہرست ہیں، حکومتوں کی توجہ اس کی طرف دلائی کہ یہ مرض قومی جسم کے دل تک آ گیا ہے اسے روکا جائے لیکن حکمرانوں نے  نشاندہی پر توجہ نہیں دی بلکہ اس کا مذاق اڑایا اس حماقت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرض اب قابو سے باہر ہو گیا ہے۔

قومی جسم میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی تشخیص اور علاج کی ذمے داری حکومتوں، سیاست دانوں کی ہوتی ہے لیکن ہماری حکومتیں اور ہمارے سیاست دان اپنی ’’غیر نصابی‘‘ سرگرمیوں میں اس قدر مصروف رہے کہ اس مہلک بیماری کے علاج کا انھیں نہ وقت ملا نہ ضرورت محسوس ہوئی۔ پانی جب سر سے اونچا ہونے لگا تو ہماری غیر سیاسی اور جمہوری حکومتوں کی ماتحت فوج کو احساس ہوا کہ اگر اس بڑھتی پھیلتی بیماری کا اب بھی علاج نہ کیا گیا تو یہ بیماری لا علاج ہو جائے گی۔

سو فوج نے ضرب عضب کی گولیوں سے اس کا علاج شروع کیا۔ فوج شمالی وزیرستان کے علاقے میں تو اس بیماری کو روکنے میں کامیاب ہو رہی ہے اور سوات میں تو اس بیماری کو جڑ سے نکالنے میں کامیاب ہو چکی ہے لیکن چونکہ یہ بیماری حکومتوں کی نا اہلی سے سارے جسم میں پھیل چکی ہے لہٰذا اس کا علاج مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے۔

ہماری حکومت نے بعد از خرابیٔ بسیار جاگ کر پورے ملک میں پھیلی ہوئی اس بیماری کا علاج قومی ایکشن پلان کے کاڑے سے شروع کرنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن اس یونانی کاڑے سے اس مہلک بیماری کو افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، ہمارے سیاست دان خود شکایت کر رہے ہیں کہ قومی ایکشن پلان کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ چونکہ اس مرض کی ہلاکت افرینی کا اندازہ خواص کو ہی نہیں بلکہ عوام کو بھی ہو رہا ہے لہٰذا پورے ملک میں ایک شدید تشویش کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوا کا استعمال درست طریقے سے ہو رہا ہے یا پھر علاج میں سنجیدگی نہیں دکھائی جا رہی ہے؟ جس طرح قومی مسائل محض دھواں دار بیانوں، پریس کانفرنسوں سے حل نہیں ہوتے اسی طرح دہشت گردی بھی محض بیان بازیوں سے ختم نہیں ہو سکتی اس کے خاتمے کے لیے ایسے تیر بہ ہدف علاج کی ضرورت ہے جو بیماری کو جڑ سے نکال پھینکے۔ کیا اس علاج کی ہمارے جمہوری اور سیاسی ڈاکٹروں میں صلاحیت ہے؟

دہشت گردی آج بھی اپنی ممکنہ شدت کے ساتھ جاری ہے دہشت گرد جہاں چاہتے ہیں جب چاہتے ہیں دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں ہمارا کام اب تک یہ رہ گیا ہے کہ وقوعہ کے مقام کو گھیرے میں لے لیں۔ مرنے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال پہنچائیں،  سانحے کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیں۔

آخری دہشت گرد کے خاتمے جیسے بیان جاری کریں، شہید و زخمی ہونے والوں کے لواحقین کی امداد کا اعلان کریں اور چیک تقسیم کرنے کا فوٹو سیشن کریں اﷲ اﷲ خیر صلا۔ جب یہ صورت حال ہو اور  پولیس کو دلائی جانے والی بکتر بند 5 کروڑ کی گاڑی 17 کروڑ میں خریدی جا رہی ہو تو دہشت گردی کا خاتمہ کس طرح ہو گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس بیماری کے علاج میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کرپشن ہمارے قومی جسم میں اینٹی باڈیز کی طرح پھیل چکی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کی ذمے داری سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔ شمالی وزیرستان میں ہماری مسلح افواج دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں بڑی جانی قربانیاں بھی پیش کر رہی ہیں لیکن فوج شہروں کے گلی کوچوں، محلوں، بستیوں میں چھپے دہشت گردوں سے کیسے لڑ سکتی ہے۔ یہ کام تو پولیس اور رینجرز کے لیے بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف کراچی میں 9 لاکھ افغانی آبسے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد ان دہشت گردوں کی ہے جو افغان مہاجرین کی شکل میں پاکستان کے ہر علاقے میں آباد ہو گئے ہیں۔

رشوت کے ذریعے شناختی کارڈ بنوا لیے ہیں، پاسپورٹ حاصل کر چکے ہیں ڈومیسائل اور پی آر سی جیسی قانونی دستاویزات بھاری رشوت کے ذریعے حاصل کر چکے ہیں، ان میں وہ مالدار لوگ جن کے پاس منشیات وغیرہ کی بھاری کمائی موجود ہے شہروں میں جائیدادیں خرید چکے ہیں، دھڑلے سے کاروبار کر رہے ہیں بلکہ کاروبار پر قابض ہو رہے ہیں۔ ان کا خاتمہ یا انھیں اب ملک سے نکالنا ممکن رہا  ہے؟

لکھاریوں کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اور سیاست دان بار بار مطالبہ کر رہے ہیں کہ عوام کے سمندر میں مدغم ہونے والے دہشت گردوں کے خاتمے کا ایک موثر علاج یہ ہے کہ ہر بستی میں محلہ کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان محلہ کمیٹیوں کو با اختیار بنایا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں گھرگھر کے مکینوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ باہر سے آنے والے کون ہیں۔

ان کے گزر بسر کا ذریعہ کیا ہے یہ کمیٹیاں کسی مرکزی نیٹ ورک سے منسلک ہوں اور ان کی رپورٹوں پر فوری کارروائی کرنے کا ایک سسٹم بنایا جائے نئے لوگوں کی آمد رہائش اور سر گرمیوں کا پتہ لگانے کی بڑی ذمے داری خفیہ اہلکاروں اور ایجنسیوں کی ہوتی ہے اور یہ ادارے اس قدر بیکار ہو گئے ہیں کہ دہشت گرد عوام کی بستیوں ہی میں اطمینان سے رہ رہے ہیں بم اور بارودی گاڑیاں تیار کر رہے ہیں اور ان ہی آبادیوں سے نکل کر بے گناہ عوام پر حملے کر رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں ہم صرف انھیں دیکھ رہے ہیں۔

کیا یہ خفیہ ایجنسیوں اور خفیہ اہلکاروں کی نا اہلی ہے یا کوئی اور سیاسی وجوہات ہیں اس کا پتہ لگانا حکومت کا کام ہے اگر کراچی کی ڈیڑھ کروڑ کی آبادی اور ہزاروں کچی پکی بستیوں کی دیکھ بھال اور خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لیے چند سو اہلکار ہوں تو وہ بھلا اتنے بڑے، اتنے پھیلے ہوئے شہر میں دہشت گردوں کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں۔

اس کے لیے خفیہ اہلکاروں کی ایک فوج درکار ہے جو ہر بستی، ہر محلے میں دن رات کام کر کے دہشت گردوں، ان کے محافظوں، ان کے حمایتیوں، ان کی سرگرمیوں کا پتہ چلا سکیں، تب جا کر گلی گلی، محلے محلے، پھیلی ہوئی دہشت گردی کا گند صاف کیا جا سکتا ہے یہ کام نہ پولیس تنہا کر سکتی ہے نہ رینجرز، خفیہ اہلکاروں کا تعاون اور معلومات کے بغیر پولیس، رینجرز ہی نہیں فوج بھی کچھ نہیں کر سکتی۔

ملک کے مختلف حلقوں کی طرف سے مدرسوں کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ظاہر ہے تمام مدرسے دہشت گردوں کے اڈے نہیں ہو سکتے لیکن افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے چونکہ امریکا نے مدرسوں ہی میں دہشت گردوں کی کاشت کی تھی ہو سکتا ہے مدارس کے منتظمین کا تعلق دہشت گردوں سے نہ ہو لیکن دہشت گرد منتظمین اور ان کی قیادت ان مدرسوں میں اپنے لوگوں کو طالب علموں کی روپ میں داخل کرائے جہاں وہ محفوظ  اور مستحکم ہو سکتے ہیں۔

اس مسئلے کا ایک قابل قبول حل مدرسوں کی انتظامیہ کو اعتماد میں لے کر نکالنا ضروری ہے۔ اسی طرح پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کیا جا سکتا ہے جو ہمارے قومی جسم میں کینسر کی طرح پھیلتی جا رہی ہے، اس نظریاتی کینسر کو جس قدر جلدی ہو سکے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔