چلو یہ عقدہ تو کھلا

قدسیہ ممتاز  جمعرات 19 مارچ 2015

خدا گواہ ہے ان بے شمار نیوز چینلوں کی آمد سے پہلے راوی کم سے کم ہماری حد تک نہ صرف چین ہی چین لکھ رہا تھا بلکہ گاہے ہنس بھی لیتا تھا اور دیگر حوائج ضروریہ سے بھی فارغ ہو جاتا تھا یعنی ایک نارمل زندگی گزار رہا تھا۔ اب تو ان رنگ برنگے نیوز چینلوں کے نہ رکنے والے لال پیلے ٹکر مسلسل ایسی خبریں نشر کرتے ہیں جن کے مطابق ہر بری خبر کا منبع پاکستان ہوتا ہے۔ اس سے پہلے ہم ابلیس کو ہر برائی کا ذمے دار سمجھتے تھے۔ اب تو  یہ حال ہو گیا ہے کہ کوئی بھولا بھٹکا طیارہ بحر اوقیانوس میں گر کر غرق ہو جائے تو احساس جرم کے مارے پاکستانی اپنی جیبیں ٹٹولنے لگتے ہیں اور وہاں نہ پا کر پہلے حیران اور پھر شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ اب خوامخواہ کسی معصوم پہ الزام آئے گا۔

ایسا کیوں ہے کہ دنیا میں کہیں کوئی بھی برا واقعہ پیش آئے تو ہماری قوم خود کو مجرم محسوس کرنے لگتی ہے اور بعد ازاں ثابت بھی ہو جاتی ہے۔ کیا ہم ہمیشہ سے ایسے ہی بے اعتبار، اپنی ہی نظروں سے گرے ہوئے، نفسیاتی طور پہ الجھی ہوئی قوم تھے؟ یا ایک مسلسل اور غیر محسوس عمل کے ذریعے ہمیں ایسا بنا دیا گیا ہے؟

Alexandrovich Bezmenov سوویت یونین میں KGB کا ایجنٹ رہا۔ یہ وہی صاحب ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں اعتراف نما انکشاف کیا کہ سقوط ڈھاکہ میں سوویت یونین، امریکا اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا کیا کردار تھا۔ وہ خود 1969ء میں ایک ہپی کے بھیس میں بھارت میں مقیم رہا۔ اس نے 1985ء میں معروف صحافی Edward Griffin کو ایک مزیدار انٹرویو دیا جس میں اس نے یہ راز کہ کسی بھی قوم کو کس طرح بغیر جنگ کیے فتح کیا جاتا ہے، بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بیان کیا۔

اسی بیزمانوف نے ایک بڑی دلچسپ کتاب ٹامس شومین کے نام سے A love letter to America لکھی۔ اس کتاب میں اسی حکمت عملی کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی بھی قوم کو پہلے نفسیاتی اعتبار سے مغلوب کیا جاتا ہے۔ اس پورے عمل کے چار مراحل ہوتے ہیں جس کے بعد وہ قوم پکے ہوئے پھل کی طرح آپ کی جھولی میں آ گرتی ہے۔ یہ چار مراحلDemoralization, Destabilization, Insurgency, Normalization پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ یہ سارا عمل نظریاتی انقلاب کہلاتا ہے جس پہ خفیہ ایجنسیوں کے کل بجٹ کا 85 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ باقی جاسوسی وغیرہ وہ فی سبیل اللہ کر لیتی ہیں۔

اس کا کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کو ڈیمورالائز کرنے میں ۱۵ سے ۲۰ سال لگتے ہیں۔ اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ اس دوران ایک پوری متاثرہ نسل تیار ہو جاتی ہے۔ اس نسل کو براہ راست اس کی نظریاتی اساس پہ ضرب لگائے بغیر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ کتنی بیکار، جاہل اور دقیانوسی ہے۔ ایک بار یہ زہر ایک نسل کی خون میں بھر دیا جائے تو اگلی کئی نسلوں تک وہ اسے خود منتقل کرتی ہے۔ K.G.B نے ایسے لوگ تلاش کیے جو عوام کی رائے پہ اثر انداز ہو سکتے تھے۔

ان میں صحافی، سیاستدان، پبلشرز، ماہرین تعلیم حتی کہ اداکار تک شامل تھے۔ انھیں استعمال کیا بعد ازاں قتل کر دیا۔ یہ وہ کارآمد احمق تھے جو سچ مچ سمجھنے لگے تھے کہ کمیونزم ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ Bezmenov کے بقول ایسے لوگ دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ واقف حال ہوتے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ وہ تخیل پرست بائیں بازو کے دانشوروں کے مقابلے میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے روایتی میڈیا میں ایسے لوگوں کو ترجیح دیتا تھا جو نرگیسیت کے مارے، خود پسند اور توجہ درکار ہے کا کھلا اشتہار ہوں۔ ان میں یونیورسٹی کے پروفیسرز اور سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کے علمبردار نفیس دکھائی دینے والے لوگ سر فہرست تھے۔ جب ان کا کام ختم ہو گیا تو یہ بھی ختم کر دیے گئے۔ نکاراگوا، گریناڈا اور افغانستان میں ترہ کئی کا امین اور امین کا ببرک کے ہاتھوں قتل اس کی مثالیں ہیں۔

اپنی کتاب A love letter to America میں وہ لکھتا ہے کہ کسی بھی قوم کو اس بات پہ آمادہ کرنا کہ وہ اپنے ہی خلاف کیسے کام کرے اور اس پہ عوامی حمایت کا ٹھپہ کیسے لگایا جائے، demoralization کا اہم ترین اصول ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کس طرح جمہوری حکومتیں، عوامی امنگوں کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔

500 سال قبل مسیح ایک چینی حربی ماہر Sun Tzu کسی قوم کو بغیراسلحہ فتح کرنے کے جو گر سکھاتا ہے اس میں سر فہرست یہ ہے کہ اس قوم میں رائج مذہبی اور اخلاقی اقدار کا مذاق بنا دیا جائے۔ پھر اس قوم کے لیڈروں کو مشتبہ اور متنازعہ بنا دیا جائے۔ اس سلسلے میں کسی چھوٹی سے چھوٹی مد کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ عوام میں منافرت پیدا کی جائے۔ نئی نسل کو پرانی نسل کے خلاف کھڑا کر دیا جائے۔ وعدے اور امداد دل کھول کر کیے جائیں۔

تقریبا یہی اصول 2500 سال بعد کمیونسٹ انٹرنیشنل نے اپنے نوجوان انقلابیوں کے لیے وضع کیے۔ مخالف قوم کے نوجوانوں کو جنس کا دلدادہ۔ مذہب سے بیزار اور چھچھورا بنا دیا جائے۔ لوگوں کو مسلسل نان ایشوز پہ ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار رکھا جائے۔ بانیان قوم کے بارے میں کنفیوژن پھیلایا جائے حتی کہ ان کا مذاق اڑایا جائے۔ ہمیشہ جمہوریت کا پرچار کیا جائے لیکن طاقت کا مرکز اپنے ہاتھ میں رکھا جائے۔ معاشی بدحالی اور مہنگائی پیدا کی جائے۔

ہڑتالیں، دھرنے اور جلوس کا سلسلہ بند نہ ہونے پائے۔ اخلاقیات اور مذہب کو دقیانوسی رسم و رواج قرار دے کے کھڈے لائن لگا دیا جائے۔ ڈی مورالائزیشن کے پہلے اسٹیج کا ہدف مفعول قوم کا نظریہ ہے۔ چونکہ کمیونزم خود ایک نظریہ تھا اس لیے وہ اس کی اہمیت جانتے تھے۔ انھیں علم تھا کہ کوئی بھی قوم نظرئیے کے بغیر یتیم ہے۔ امریکی نقاد George Steiner کے مطابق لوگ نظرئیے کے لیے جان دیتے ہیں، مادی اشیا یا سائنسی تصورات کے لیے نہیں۔ کسی دوسری شے میں وہ قوت نہیں جو ایک پوری قوم کو متحرک کر سکے۔ اگر یہ نظریہ مذہب سے متعلق ہے تو مذہب کو کمرشلائز کرنا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

مذہب کسی بھی قوم کی نفسیات کو قابو میں رکھتا ہے اس لیے اس کو خاص طور پہ نشانہ ہونا چاہیے۔ اس خلا کو بھرنے کے لیے جو مذہب کی بتدریج عدم موجودگی سے پیدا ہو گا، کلچر استعمال کیا جائے گا۔ ایک کینیڈین کالم نگار Gregory Clark لکھتا ہے کہ اگر میں امریکا میں ایک کمیونسٹ ایجنٹ ہوتا تو سرکاری راز خریدنے میں پیسہ ضایع کرنے کی بجائے نوجوان نسل کو پرانی نسل اور تمام نظم و ضبط سکھانے والی اتھارٹیز جن میں مذہب بھی شامل ہے، سے دوری پیدا کرنے میں خرچ کرتا۔

دوسری اسٹیج میں قومی اداروں کو ایک دوسرے سے بھڑوانا اور تیسری اسٹیج میں فیملی سسٹم کی جڑ کاٹنا شامل ہیں۔ جو بچہ اپنے خاندان سے وفادار نہ ہو وہ صرف ایک ایسی اسٹیٹ سے وفادار ہو سکتا ہے جو زندہ رہنے کی جدو جہد میں اس کا ساتھ دے۔ ایک فلاحی ریاست جو نظریہ اور مذہب کی قید سے خود بھی آزاد ہو اور نوجوانوں کے ذہن و اخلاق پہ بھی ناروا بوجھ نہ ڈالے۔ اس سارے عمل کے لیے بہتر ہے کہ میڈیا اور افراد اظہار رائے کے لیے آزاد ہوں۔ یعنی جمہوریت بہترین انتقام ہے۔

اب سمجھ آیا کہ جب ملک بھر کا میڈیا کسی بدترین واقعہ کا متلاشی کیوں ہوتا ہے، نہ ملے تو پیدا کیسے کرتا ہے۔ ایک کالم نگار کو پاکستان میں اتنے کیڑے کیوں نظر آتے ہیں جتنے کسی بسیار خور کے پیٹ میں بھی نہیں ہوتے۔ ایک دانشور کیوں پنجاب ہاسٹل کے ناسٹلجیا سے نہیں نکلتے اور قوم کو ماضی پرستی کے طعنے دیتے ہیں۔

ایک انگریزی کالم نگار کیوں دن چڑھتے ہی، جام نہ چڑھا لیں تو اقبال انھیں منافق نظر آنے لگتا ہے۔ کیوں کچھ بزعم خود دانشوروں نے نظریہ پاکستان کو مسلسل ہدف بنایا ہوا ہے۔

کیوں موبائل کمپنیوں کے نائٹ پیکیج روٹی سے بھی سستے ہو جاتے ہیں۔ کیسے این جی اوز کو آشنا کے ساتھ فرار ہونے والی ہر ناعاقبت اندیش لڑکی سوہنی لگتی ہے۔ کس طرح مذہب سے جڑی ہر علامت کو دہشت کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ کیسے ماضی قریب میں گورڈن براون کے ہاتھ میں دس ملین یورو اور دل میں ان پاکستانی بچیوں کا درد جاگتا ہے جن کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے اور ہم انھیں ’’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘ والا طعنہ بھی نہیں دے سکتے کہ اس تکلف سے وہ کب کے آزاد ہو چکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔