مردم شماری

جاوید قاضی  ہفتہ 6 فروری 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

دیرآید درست آیدکی طرح بالآخر 17 سال بعد ہم نے مردم شماری کرانے کی جرأت کر ہی لی، یقینا کسی بھی سول حکومت کے لیے یہ جرأت کسی اعزاز سے کم نہیں ورنہ ہمیشہ سوائے 1951 کی مردم شماری کے باقی مردم شماریاں فوجی ادوار میں ہوئیں۔ 1998 والی مردم شماری بھی میاں صاحب کی کاوشوں کا ثمر تھا۔ رہا سوال 2011 کی مردم شماری کا جو زرداری صاحب کے دور میں ایک کوشش تھی جو پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی۔

دراصل مردم شماری بنیادی طور پر ہمارے وفاق ہونے کی روح میں جاتی ہے۔ ایک ایسی حقیقت جس کے انکار سے ہمیں 1971 کا سانحہ دیکھنا پڑا اور اب بھی یہ ریاست اس توازن کوکھو بیٹھنے کی پاداش میں صحیح معنوں میں سنبھل نہیں پائی۔ آئین کا آرٹیکل5) 51(قومی اسمبلی میں نشستوں کا تعین مردم شماری سے منسلک کرنا ہے تو خود آرٹیکل 60(2)، این ایف سی ایوارڈ وغیرہ کو بھی مردم شماری سے ملے ہوئے حقائق سے جوڑتا ہے۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق مشرقی پاکستان کی آبادی چار کروڑ بیس لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی تین کروڑ ستر لاکھ تھی اور بالآخر مشرقی پاکستان کی ایسی حقیقتوں کے انکار سے ہم نے 1971 کا سانحہ پایا۔

مردم شماری کے اور بہت سارے حقائق سے سب سے بڑا اور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ یہ مردم شماری ہر دس سال کے بعد ہونی چاہیے اور دوسرا نقطہ یہ ہے کہ یہ شفاف انداز میں ہونی چاہیے اور اگر مردم شماری ہر دس سال بعد نہیں ہوتی تو خود یہ وفاق روح کو مجروح کرنے کے مترادف اور ساتھ ساتھ غیر آئینی بھی ہے۔

متحدہ ہندوستان میں سب سے پہلے مردم شماری 1881 میں ہوئی تھی اور یہ ترتیب ہر دہائی بعد ہوتے ہوئے آخری مردم شماری 1941 میں ہوئی تھی۔ یہ وہ روایت تھی ہندوستان وپاکستان نے آزادی کے بعد 1951 مردم شماری کروا کے تسلسل کو اسی انداز سے دائم رکھا۔پھر 1991 کو اسی تسلسل سے مردم شماری نہ کروا کے ہم نے جو نئی رسم شروع کی تو ایک مردم شماری 16 سال بعد تو دوسری مردم شماری 17 سال بعد کروا رہے ہیں۔

ہمارے آئین کی روح مردم شماری کو “Decnnial Census”کے حیثیت سے دیکھتی ہے جس کو ’’دس سالا‘‘ مردم شماری کہا جائے گا۔ یہ آپ کی مرضی کا کام نہیں ہے جب چاہا کیا اور جب چاہا نہ کیا۔ ہندوستان نے اسی “Decnnial Census”برطانوی راج سے ملی ہوئی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ،ساتویں مردم شماری 2011 میں کروائی۔ مردم شماری سے ہمیں بہت سے زاویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کا انحصار آپ کے اس فارم سے ہے جس میں آپ پوچھے ہوئے سوالوں کو ترتیب سے ڈالتے ہیں۔ تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کس جگہ افزائش نسل زیادہ ہے۔ کہاں کون سی بیماریاں زیادہ ہیں اور کدھر زیادہ Demographic تبدیلیاں آرہی ہیں اور پھر ایسی معلومات کو آیندہ کی پلاننگ کو ترتیب دینے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اب اگر آپ کو پتہ نہیں دنیا کو پتا ہے کہ آپ کی آبادی اس وقت کتنی ہے۔ یہ کام دنیا یا اقوام متحدہ کے ادارے سیٹلائٹ کے ذریعے اور دوسری تکنیک کے ذریعے حاصل کرلیتے ہیں۔

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے

باغ تو سارا جانے ہے

دنیا میں بالخصوص مغرب میں دس سالوں میں آبادی 20% تک بڑھتی ہے۔ لیکن ان کے یہاں پیدائش افزائش (Birth Rate) ایک اعشاریہ پانچ (1.5%)کے تناسب سے بڑھتا ہے۔

پاکستان میں پیدائش افزائش دنیا میں سب سے زیادہ لگ بھگ 2.5%۔ 2011 میں Times of India نے رپورٹ شایع کی تھی کہ پاکستان میں پچھلی مردم شماری کی نسبت ان تیرہ سالوں میں 46.4 آبادی بڑھی ہے۔ دنیا میں یہ مانی ہوئی بات ہے کہ 2050 تک پاکستان آبادی کے حساب سے چھٹا بڑا ملک ہونے کے زینے سے بڑھ کر چوتھا بڑا ملک ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان سترہ سالوں میں پاکستان کی آبادی 70 فیصد تک بڑھی ہے۔ یعنی یہ ملک جو 1998 کے اعداد و شمار سے 18 کروڑ کی آبادی رکھتا تھا اب 30 کروڑ آبادی رکھتا ہے۔

سب سے زیادہ ہجرت کے اعتبار سے اب بھی دو پسندیدہ علاقے ہیں۔ ایک سندھ اور دوسرا بلوچستان یعنی ان دو صوبوں کے اندر Demography بھی تبدیل ہو رہی ہے اور شہر کے اعتبار سے سب سے زیادہ Demography اگر تبدیل ہو رہی ہے تو وہ کراچی ہے۔

ایک صرف تو سندھ کے لیے یہ نوید کہ آبادی کے تناسب سے اس کا NFCایوارڈ میں حصہ تو بڑھے گا اور قومی اسمبلی میں نشستیں تو وفاقی سرکار میں نوکریوں کے کوٹا میں تناسب تو بڑھے گا مگر یہاں کے مقامی لوگ ٹھکرائے جا رہے ہیں۔

سندھ سے زیادہ اس بات کی فکر بلوچستان کو ہوگی۔ جس تیزی سے اب CPEC کی وجہ سے جو نئی معاشی حقیقتیں سامنے آئیں گی اس نے بلوچستان کو اقلیت میں تبدیل کردینا ہے۔ ساتھ ساتھ خود پاکستان ان حقیقتوں کے ساتھ اور وفاق کے رنگوں سے اپنے وجود میں سمائے گا اور مضبوط ہوگا اگر مردم شماری کی اس ساری کارروائی کو شفاف بنایا جائے۔

17 مارچ 2017 کو کونسل آف کامن انٹرسٹ کے (مشترکہ مفادات) کی کونسل سے اس 2016 میں مردم شماری کروانے کی منظوری لی گئی اور ساتھ یہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں کروانے کی بھی منظوری لی گئی۔ لگ بھگ دو لاکھ سے زائد ہماری افواج اس کام پر 20 مارچ پر مامور ہوگی اور یہ کارروائی 19 دن تک جاری رہے گی۔ چودہ ارب روپے مردم شماری کروانے پر خرچ ہوں گے جس میں سے سات ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔

مردم شماری کروانے کے سب کام اب اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ مردم شماری کسی بھی لحاظ سے 2011 والی مردم شماری کے سانحے سے نہ گزرے اور اگر ایسی کوشش کہیں سے بھی حکومت نے کرنے کی کوشش کی تو یقینا محب وطن دوست سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔