میرے ہاتھ میں بھی ریموٹ ہو گا

نصرت جاوید  جمعـء 20 جولائی 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پاکستان میں 24/7 چینلز کی بھر مارنے یقیناً لوگوں کے ذہنوں کو وسعت بخشی ہے۔ ایک عام آدمی کو احساس دلایا ہے کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں۔ حکمرانوں سے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں ۔آئین محض ایک کتاب ہی نہیں ہوتا، ہماری روزمرہّ زندگی میں اس کی شقوں کو عمل پیرا ہوتا بھی نظر آنا چاہیے۔ مگر ان فوائد کے ساتھ ساتھ بے شمار نقصانات بھی ہوئے ہیں۔ جن میں سے چند آیند ہ کچھ مہینوں میں اپنے بھیانک اثرات کے ساتھ دھماکے کی صورت میں ہمارے سامنے آسکتے ہیں۔

سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم اور اس کے بارے میں رپورٹنگ کرنے پر تقریباََ ساری زندگی صرف کر دینے کے بعد مجھے سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہورہی ہے کہ آہستہ آہستہ 24/7 چینلوں پر چلنے والے ٹاک شوز عملی سیاست کے ٹھوس تقاضوں کا متبادل بن رہے ہیں۔ اپنے مطالبات کے لیے سڑک پر آکر جدوجہد کرنے کے بجائے ہمارے سوچنے سمجھنے والے لوگ دن بھر کے کام کاج نمٹانے کے بعد گھر لوٹ کر ہاتھوں میں ریموٹ پکڑ لیتے ہیں۔ ایک چینل سے دوسرے چینل پر آتے جاتے ان نوحہ گر اینکروں کو ڈھونڈتے ہیں جو ان کے دلوںمیں برسوں سے جمع بھڑاس کو نکالنے کا ذریعہ نظر آئے۔

ارسطونے جب فن ڈرامے پر غور کیا تو دریافت ہوا کہ مختلف اساطیری کرداروں کے درمیان چپقلش پر مبنی کہانیوں کو لفظوں اور بدنی حرکات کے ذریعے بتاتے ہوئے اداکار تماشائیوں کے دل میں جمع جذبات کی بھڑاس نکالنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس سارے عمل کا نام Catharsis رکھا گیا۔

برصغیر پاک وہند میں ڈرامے کی روایت تو زیادہ نہ پنپ پائی۔ مگر فلمیں بناتے ہوئے ہمارے فن کاروں نے ارسطو کی بتائی روایتوں پر بھرپور عمل کیا۔ اپنے عروج کے دنوں میں دلیپ کمار جب ’’پارو‘‘ کو اپنی ماں کے مرجانے کی خبرسناتا تھا تو تماشائیوں کو اپنے دُکھ یاد آ جایا کرتے تھے۔ ’’آن‘‘ کی نک چڑھی ہیروئین کو ’’اوقات میں لاتے ہوئے‘‘ وہ ہر مرد کی دبی خواہشات کا اظہار کرتا نظر آتا۔

بھارت میں بہت سارے لکھاریوں نے مختلف مضامین کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ امیتابھ بچن اندراگاندھی کی ایمرجنسی کے بعد بھارتی سیاست میں اپنی جگہ بناتے نچلی ذات کے لوگوں اور غریبوں کا صدیوں سے مقدر بنے غم وغصے کی ترجمانی کرتے ہوئے سپراسٹار بنا۔ شاہ رخ خان کی ازلی بے چینی اس کا جدید ورژن ہے۔

بجائے فلموں میں اُلجھ جانے کہ میں اس وقت فوراََ اس بات پر پہنچنا چاہتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے دنوں میں جرمنی سے ایک ڈرامہ نگار اُبھرا۔ بریخت اس کا نام تھا۔ وہ اپنے معاشرے میں ہٹلر کے مسلسل عروج کے عمل سے بہت پریشان اور خوفزدہ تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے ہٹلر کے عروج کو کسی طرح روک پائے۔ اپنے مقصد میں تو وہ ناکام رہا۔ بلکہ جان بچانے کے لیے جنگ کے دنوں میں امریکا جابسا۔ مگر دل اس کا جرمنی میں اٹکا رہا۔ جب ہٹلر نہ رہا تو وہ اپنے ملک واپس آ گیا اور برلن تھیٹر میں شامل ہو کر ڈرامے کی ایک نئی قسم کو تراشنے میں جت گیا۔

ڈرامے کی ایک نئی قسم کو دریافت کرنے کے عمل میں بریخت نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ ارسطو کے بنائے اصولوں کے مطابق ڈرامے لکھنا عوام کو افیون کھانے کی لت میں مبتلا کرنے کی کوشش ہوا کرتی ہے۔ تماشائی نام نہاد’’حقیقت پسند‘‘ڈرامہ دیکھتے ہوئے اس کے کسی نہ کسی کردار سے یگانگت (Identification) پیدا کرلیتے ہیں۔

اپنے ذاتی دُکھوں کو ہیرو کے دُکھوں میں مدغم کر دیتے ہیں اور جب ڈرامے کے اختتام پر ہیرو اپنے تمام دُشمنوں کو زیر کر لیتا ہے تو تماشائی تالیاں بجاتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان کی بھڑاس نکل جاتی ہے اور دوسرے دن کی صبح وہ ایک بار پھر اپنے رزق سے جُڑی مُشقت کو سہنے اور زورآوروں کے ہاتھوں ذلت کو برداشت کرنے کے لیے گویا ’’تازہ دم‘‘ ہو جاتے ہیں۔ بریخت نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کا ڈرامہ دیکھنے کے بعد تماشائی اپنی بھڑاس نکلتی محسوس نہ کرے۔ اس کا اپنے اِردگرد پھیلی جہالت، تعصب اور ظلم کے خلاف جمع ہوتا غصہ شدید تر ہوکر نا قابل برداشت ہو جائے تا کہ وہ حقیقی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے ٹھوس کردار ادا کر سکے۔

ارسطو اور بریخت کا تقابل کرتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے 24/7 چینلوں کے ٹاک شوز پاکستان کے شہریوں کو اسی طرح کی افیون کھلارہے ہیں جو اساطیری ڈراموں کے کتھارسس والے نسخے میں موجود ہوتی تھی۔ ان ہی ٹاک شوز کے ایک بہت زیادہ ریٹنگ لانے والے کردار پر توجہ دیجیے ۔ موصوف لال ٹوپی تو نہیں پہنتے لال حویلی میں رہتے ہیں۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی اسکرین پر بڑے پھنے خان اینکروں کے ساتھ اکیلے بیٹھے قوم کو جھنجوڑ رہے ہوتے ہیں۔ اپنے منہ سے کف نکالتے ہوئے وہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے ’’ستّوپی رکھے ہیں۔‘‘ عوام کو چاہیے کہ سڑکوں پر آ کر اپنے ہاتھوں سے اس ملک پر مسلط ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لے آئیں۔

مجھے اور آپ کو روزانہ بے غیرتی کے طعنے دیتے یہی لال حویلی کے مکین ایک ’‘’دفاع پاکستان کونسل‘‘ نامی تنظیم کے بنیادی رکن بھی ہوا کرتے ہیں۔ یہ کونسل پاکستان کو امریکی غلامی سے آزاد کروانا چاہتی ہے اور بڑی شدت سے سمجھتی ہے کہ اگر نیٹو افواج کے لیے افغانستان کو پاکستانی راستوں سے جانے والی سپلائی بحال ہوگئی تو ہماری غلامی کے دن طویل تر ہوجائیں گے۔ گزشتہ ہفتے اسی سپلائی کی بحالی کے عمل کو روکنے کے لیے ’’دفاع پاکستان کونسل‘‘ نے کوئٹہ سے چمن تک مارچ کیا۔ لال حویلی والے صاحب مگر راولپنڈی میں ہی براجمان رہے۔ پیر کے دن مجاہدین اسلام کا ا یک اور قافلہ پشاور سے باب ِ خیبر تک بھی گیا۔ جرنیلوں کو ’’ستوِّ پینے‘‘ کے طعنے دینے والے وہاں بھی نہ گئے۔ اسلام آباد میں اینکر پرسنوں کے ساتھ بیٹھے ہماری غیرت کو جگاتے اور ریٹنگ لیتے اور دلاتے رہے۔

جس صبح میرا یہ کالم چھپے گا اس روز ملتان میں ہونے والے ایک ضمنی انتخاب کا نتیجہ بھی آ چکا ہو گا۔ جہاں انتخاب ہوا ہے وہاں کی نشست یوسف رضاگیلانی کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نا اہلی کے بعد خالی ہوئی تھی۔ موصوف نے اب اپنے بیٹے کو کھڑا کیا۔ ان کے مقابلے میں ایک بوسن صاحب نے الیکشن لڑا۔ ان کے بھائی تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں۔ تحریک کی طرف سے اس ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔ جس بُچّہ کو نواز شریف سے ٹکٹ کی اُمید تھی۔ وہ پیپلز پارٹی میں چلے گئے ہیں۔ مقابلہ براہِ راست گیلانی کے بیٹے اور ’’آزاد امیدوار‘‘ بوسن میں ہواہے۔ مگر یہ ایسا ’’آزاد امیدوار‘‘ ہے جو اپنے بِل بورڈوں پر عمران خان اور نواز شریف کی بڑی بڑی تصویریں لگاکر ووٹ مانگتارہا ہے۔

عمران خان اور نواز شریف نے ابھی تک یہ تردد بھی نہیں کیا کہ قطعیت کے ساتھ ملتان کے لوگوں کو بتا دیں کہ اگر انھوں نے بوسن کو ووٹ دیا تو اس کا مطلب تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو ووٹ دینا نہیں ہوگا۔ اس معاملے پر قطعی طور پر منافقانہ خاموشی اختیار کر لی گئی ہے۔ ہاں اگر بوسن جیت گئے تو دونوں یہ دعویٰ کرتے ضرور پائے جائیں گے کہ ملتان کے عوام نے گیلانیوں کو حقارت سے رد کر دیا ہے۔ عبدالقادر گیلانی جیت گئے تو وہ کیا کہیں گے؟ مجھے علم نہیں۔ میں بھی آپ کی طرح ہاتھ میں ریموٹ پکڑ کر جاننے کی کوشش کروں گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔