عہدِ خلفائے راشدینؓ میں امن و رواداری

مولانا رضوان اللہ پشاوری  جمعـء 5 جنوری 2018
مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی شہادت اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ فوٹو: فائل

مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی شہادت اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ فوٹو: فائل

اسلام ظلم کو کسی حالت میں اور کسی بھی نام اور عنوان سے برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے پیروکاروں کو جان، مال، مذہب، عقیدہ، وطن، مذہبی مقدسات، شعائر دین، مساجد و معابد وغیرہ کی حفاظت، ان کے دفاع اور کسی بھی طرح کی تعدی سے ان کے بچاؤ کی تدبیر کرنے کا ناگزیر حکم دیتا ہے اور ان ساری سازشوں کو ناکام بنا دینے کا انہیں پابند بناتا ہے جو خود ان کے خلاف کی جائیں یا انسانیت کے خلاف رو بہ عمل لائی جائیں۔

اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، امت مسلمہ نے ان اخلاقی اور قانونی ہدایات اور عہد رسالتؐ کے علمی نمونوں کو ہر دور میں پوری اہمیت دی اور روئے زمین پر ایک پُرامن قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔ مسلمانوں نے اس مقصد کے لیے غیرمسلموں کے ساتھ بھی فراخ دلانہ رویہ اختیار کیا، ان کے حقوق و جذبات کی رعایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح قیام امن کا عمل متاثر نہ ہو، خواہ اس کے لیے ان کو کتنی بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ مسلمانوں کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی صدیوں پرانی تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات اور خون ریز ہنگاموں کا دُور دُور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی شہادت کیا ہوسکتی ہے؟

اسلامی عہد حکومت کے مختلف ادوار سے بعض نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔

عہد صدیق اکبرؓ :عہد رسالتؐ کے بعد تاریخ اسلامی کا سب سے سنہرا عہد، عہدِ صدیقی ہے۔ اس عہد کا ابتدائی حصہ اگر چہ ہنگامی حالات سے لبریز ہے مگر اس کا زیادہ تر تعلق خارجی ہے۔ داخلی طور پر ملک میں کوئی بدامنی نہیں تھی اور بالخصوص غیرمسلموں کے ساتھ پوری رواداری اور فراخ دلی کا ماحول قائم تھا۔ چناں چہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے، وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا۔ حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجا گھر منہدم نہیں کیے جائیں گے۔

ان کا وہ قصر نہیں گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ان کے ناقوس اور گھنٹے بجانے پر پابندی نہ ہوگی، تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے پر ممانعت نہیں ہوگی۔ اسی معاہدے میں یہ بھی تھا کہ یہاں کے ذمّیوں کو فوجی لباس کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی بہ شرطے کہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔

آپؓ کے عہد خلافت میں ایک غیرمسلم عورت کا ہاتھ ایک مسلمان افسر نے صرف اس جرم میں کٹوا دیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی ہجو میں اشعار گاتی تھی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس افسر کو تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ عورت مسلمان تھی تو کوئی معمولی سزا دینی چاہیے تھی اور اگر ذمی تھی تو جب ہم نے اس کے کفر و شرک سے درگذر کیا تو یہ تو اس سے فروتر چیز تھی۔

عہد فاروقِ اعظمؓ :حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا عہد پوری دنیائے حکم رانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ ملک کی ترقی و خوش حالی، امن و امان کی بحالی، داخلی سلامتی، خارجی سیاست، پیداوار میں اضافہ، ایجادات و اکتشافات اور علمی تحقیقات کے لحاظ سے یہ عہد اپنی مثال آپ ہے۔ حضرت فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد چشم فلک نے اس سرزمین پر اتنا خوب صورت عہد حکومت دوبارہ نہیں دیکھا جس میں ہر شخص اپنے کو محفوظ اور خوش حال سمجھتا تھا اور مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلم اقلیتوں کے ساتھ بھی مکمل رواداری ملحوظ رکھی جاتی تھی۔

آپؓ کے عہد میں بیت المقدس فتح ہوا تو خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودی میں وہاں کے لوگوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ : ’’ یہ وہ فرمان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا کہ ان کا مال، گرجا، صلیب، تن درست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہیں۔ اس طرح کہ ان کے کلیساؤں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے۔

نہ ان کو اور نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ہی ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا، ایلیا والوں میں سے جو شخص اپنی جان و مال لے کر یونانیوں کے ساتھ منتقل ہونا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں اور صلیبوں کو امن ہے، یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائے اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا، رسولؐ کا، خلفاء کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے بہ شرطے کہ وہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔‘‘ (الفاروق)

ایک مرتبہ غسان کا نصرانی بادشاہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے آیا تو اتفاقا ایک اعرابی نے نادانستہ اسے دھکا دیا اس پر بادشاہ نے خفا ہوکر اسے مارا۔ اعرابی کی نالش پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ وہ بادشاہ کو مارے اس پر بادشاہ نے کہا: اے امیرالمومنینؓ ! کہیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص بادشاہ کو ہاتھ لگائے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: اسلام کا قانون یہی ہے۔ انصاف کے باب میں اسلام کے نزدیک امیر و غریب، بادشاہ اور رعایا سب برابر ہیں۔  ( بہ حوالہ: اسلام کا نظام امن)

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہی کے عہد خلافت کا واقعہ ہے کہ جب ملک شام کے ایک بڑے حصے پر مسلمان قابض ہوگئے تو وہاں کے لوگوں نے انطاقیہ کے حکم راں ہرقل کو ایک زبردست فوج لے کر حمص کی طرف بڑھنے پر آمادہ کیا، جہاں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیمہ زن تھے۔

حضرت ابوعبیدہ رضی اللہتعالی عنہ کو غنیم کے لشکر کی خبر ملی تو انھوں نے مجلس مشاورت منعقد کی جس میں یہ طے پایا کہ حمص کو خالی کرکے دمشق کو محاذ بنایا جائے مگر حمص چھوڑنے سے پہلے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ حکم جاری کیا کہ اب وہ اس کے باشندوں کو دشمنوں سے بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ان سے جزیہ یا خراج کے نام پرجو کچھ لیا گیا تھا وہ انہیں واپس کردیا جائے، کیوں کہ یہ جزیہ حفاظت کی خاطر وصول کیا جاتا ہے۔ چناں چہ اہل حمص کو ان کی پوری رقم واپس کردی گئی۔ اس رقم کی واپسی سے اہل حمص بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ : ہم مسلمانوں کی فوجوں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر ہرقل کی فوج سے آخری دم تک لڑیں گے۔ یہودیوں نے بھی توارۃ کی قسم کھاکر یہی بات کہی۔ اہل حمص نے مسلمانوں کو دعائیں دیں کہ خدا تمہیں دوبارہ فتح عطا کرے اور یہاں واپس لائے ۔ آج تمہاری جگہ اگر رومی ہوتے تو وہ کچھ بھی واپس نہ کرتے بل کہ ہماری باقی ماندہ چیزیں بھی لوٹ لیتے۔ ( بہ حوالہ: فتوح البلدان)

عہد عثمان غنیؓ :حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا عہد بھی امن و امان کی بحالی، مختلف قوموں کے ساتھ رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و خوش حالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ متعدد ممالک کی داخلی صورت حال سے باخبر رہنے کے لیے آپؓ سرکاری وفود بھیجا کرتے تھے۔ جمعے کے دن منبر پر پہنچ کر اطراف کی خبریں پوچھتے اور عام اعلان کرتے کہ : اگر کسی کو کسی سرکاری افسر سے شکایت ہو تو حج کے موقع پر آکر بیان کرے۔ اس موقع پر تمام افسروں کو بھی فوری طور پر طلب کرلیتے تھے، تاکہ شکایتوں کی تحقیقات ہوسکے۔ ( بہ حوالہ: مسند احمد بن حنبل)

آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں نجران کے عیسائیوں کو بعض مسلمانوں سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں تو آپؓ نے فوراً ان کی طرف توجہ کی۔ حاکم نجران ولید بن عتبہ کے نام خصوصی مکتوب تحریر فرمایا اور امن و امان کی صورت حال بگڑنے نہ دی۔( بہ حوالہ: کتاب الخراج لابی یوسف)

عہد علی المرتضیؓ :حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا عہد بہ ظاہر سخت انتشار و خلفشار سے پُر ہے۔  دشمنان دین کی سازشوں کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو فرصت نہ مل سکی، مگر اس کے باوجود غیرمسلم اقلیتوں، اسی طرح غیر جانب دار طبقات کی سلامتی کے باب میں کسی جز پر انگلی اٹھانے کی گنجائش نہیں ہے۔ آپؓ کے عہد میں ایک گورنر کی سخت مزاجی کی بعض شکایات آپؓ کو ملیں تو آپؓ نے فوراً اس کے ازالے کی طرف توجہ فرمائی۔ اسی طرح غیرمسلموں کی آب پاشی کی ایک نہر پَٹ گئی تھی، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے وہاں کے گورنر طرفہ بن کعب کو لکھا کہ : اس نہر کو آباد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ میری عمر کی قسم! مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ پسند ہے۔ (تاریخ اسلام)

دنیا میں اتنی طویل المدتی اسلامی حکومتیں اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ انھوں نے ظلم و ستم کے بہ جائے انصاف اور عدل کو اپنا شعار بنایا۔ مسلمانوں ہی کے ذریعے آج پھر اس دنیا میں امن و امان پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام اپنے حسن اخلاق اور اپنے ہمہ گیر نظام امن سے دنیا کو پھر امن سے بھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور امیر، غریب، کم زور اور قوی کو اپنا گرویدہ بنانے کی خصوصیت رکھتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں امن کا تصور اظہر من الشمس ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔