سینیٹ کے انتخابات اور صوبائی مساوات

عبدالرحمان منگریو  پير 19 فروری 2018

سال 2018ملک میں عام انتخابات کا سال ہے ۔ ملک میں آیندہ عام انتخابات کی صورتحال کیا ہوتی ہے ؟ انتخابات وقت پر ، قبل از وقت یا تاخیر سے ہوں گے ؟ ۔کچھ وقت پہلے تک ہونے والی ان چہ مگوئیوں میں قدرے کمی آگئی ہے اور اس کمی کی وجہ عام انتخابات سے قبل ہونے والے سینیٹ کے انتخابات ہیں ۔

سینیٹ میں مجموعی طور پر 104اراکین ہوتے ہیں جو کہ صوبائی اسمبلیوں سے یکساں تعداد میں منتخب ہوکر آتے ہیں جن کی میعاد 3سال ہوتی ہے ۔ سینیٹ کی صورتحال قومی اسمبلی سے قدرے مختلف ہے ۔ یہ ایوان مکمل طور پر تحلیل نہیں ہوتا اوراس کے تمام اراکین کی میعاد ایک ساتھ ختم نہیں ہوتی بلکہ آدھے اراکین کا انتخاب ایک مرحلے میں اور باقی آدھے اراکین دوسرے مرحلے میں منتخب ہوتے ہیں ۔ یوں جن کے تین سال پورے ہوجاتے ہیں ان کی خالی کردہ نشستوں کے لیے انتخابات ہوتے ہیں اور اس سال مارچ میں سینیٹ کے نصف اراکین یعنی 52اراکین ریٹائر ہو رہے ہیں جن کی نشستوں پر 3مارچ کو انتخابات ہوں گے ۔

سینیٹ کو ایوان ِ بالا یا ملک کا سب سے Superior پلیٹ فارم بھی کہا جاتا ہے اس میں ملک کی تمام اکائیوں (صوبوں) کے برابر اراکین ہونے کی وجہ سے اُنہیںرائے دہی میں مساوی حیثیت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس ایوان کے فیصلوں کو ملک بھر کا متفقہ فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے ، اس لیے ایوان کے اراکین کا انتخاب بھی ان اکائیوں (صوبوں) کی اسمبلیاں کرتی ہیں۔

یہی وہ پلیٹ فارم ہے جس کی قائمہ اسٹینڈنگ کمیٹیاں ملکی و حکومتی اُمور کی نگرانی کے علاوہ قوموں کے بنیادی عوامی حقوق بالخصوص سماجی ، سیاسی ، ثقافتی، معاشی و معاشرتی اور انتظامی حقوق کے لیے قانون سازی کی تیاری میں اہم و بنیادی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ رائج قوانین پر نظر ثانی میں بھی فعال کردار ادا کرتی ہیں۔

جیسے ماضی قریب میں نظر آتا ہے کہ ملک کی 70سالہ تاریخ میں پہلی بار ملک کی اکائیوں (سندھ، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان) کی زبانوں کو قومی زبانیں بنانے کا درجہ دینے کے بل کو سینیٹ کے ایوان میں قانون سازی کے لیے پیش کرنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے اس بل کے تکنیکی پہلوؤں کے معائنے کے بعد منظور کرلیاگیا ،جو کہ سینیٹ میں پیش ہونا اور پاس ہونا ابھی باقی ہے (یہ وہ مطالبہ ہے جو قیام پاکستان سے ہی متضاد بنا ہوا تھا )۔ اس ایوان ِ بالا کی اہمیت یوں بھی زیادہ ہے کہ اس کے اراکین صوبائی اسمبلیاں منتخب کرتی ہیں اس لیے اس کے فیصلوں کو بالواسطہ طور پر تمام صوبائی اسمبلیوں (ملکی اکائیوں) کا تعاون حاصل ہوتا ہے۔

اس مرتبہ 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات یوں بھی غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس وقت ملک و خطے میں بڑے پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں (جیسے سی پیک کے تحت روس سمیت پڑوسی ممالک سے تجارتی تعلقات ،افغانستان سے نیٹو فورسز کا انخلاء وغیرہ) اور اُن کے پس منظر میں بنائے جانے والی پالیسیوں کے لیے کی جانے والی قانون سازی میں سینیٹ اور اُس کی قائمہ کمیٹیوں کا نہایت اہم اور فیصلہ کن کردار ہوگا ، جس وجہ سے ملک کی ہر پارٹی ملک ، خطے اور عالمی سطح کی اس صورتحال کے اس پاور شیئر میں خود کوشامل رکھنے کی خواہشمند ہے اور اس کے لیے عام انتخابات کے ساتھ ساتھ سینیٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنا چاہتی ہے ۔

اس وقت سینیٹ میں ایوان کے چیئرمین سمیت پیپلز پارٹی کواراکین کی تعداد میں برتری حاصل ہے اور آیندہ بھی وہ اپنی اس حیثیت کو بحال رکھنے بلکہ اپنی نشستوں میں اضافے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہی ہے ،صوبائی اسمبلیوں کی صورتحال دیکھتے ہوئے اس کے امکانات نظر نہیں آرہے اسی لیے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری تمام صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے ملاقاتیں کررہے ہیں تاکہ وہ سندھ(جہاں پی پی پی کی پوزیشن مضبوط ہے) کے علاوہ ان صوبوں سے بھی اپنے امیدواران منتخب کراسکیں جہاں اُن کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے ، جیسے بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں اُن کے رکن نہ ہونے کے باوجود انھوں نے کراچی میں بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو عشائیہ دیا۔

اسی طرح کے پی کے اور پنجاب میں بھی وہ اپنی مفاہمتی جادو کی چھڑی گھمانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ حالانکہ حکومت میں ہونے اور پنجاب اسمبلی میں اکثریت میں ہونے کی وجہ سے ن لیگ کی پوزیشن مضبوط ہے ۔ اس کے پس منظر میں تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ سینیٹ کے یہ انتخابات ملکی انتخابی تاریخ کی سب سے بڑی ہارس ٹریڈنگ کا نمونہ ثابت ہوں گے۔

پاکستان کے قیام کے وقت قوموں سے برابری اور خودمختاری کا جو وعدہ کیا گیا تھا (جس کا ذکر قائد اعظم کے 14نکات میں واضح نظر آتا ہے ) اُسے پورا کرنے کا اہم اور واحد پلیٹ فارم سینیٹ ہے جس کے اراکین کا انتخاب آبادی کے تناسب سے نہیں بلکہ ملکی اکائیوں کی مساوی نمایندگی کی بنیاد پر یکساں تعداد سے ہوتا ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے 1973کے ’’متفقہ‘‘ آئین کے تحت ہی سینیٹ کو محدود رکھ کر قومی اسمبلی کو برتر کردار کا حامل بنایا گیا ہے جس سے ملکی اکائیوں کے درمیان برابری و سراسری اختیارات کا توازن مساوی نہیں رہا بلکہ بڑے صوبہ (پنجاب) کا پلڑہ اتنا بھاری ہوگیا ہے کہ باقی صوبے مل کر بھی اُ س کے ہم پلہ نہیں ہوسکتے ۔ اُس کے باوجود چھوٹے صوبوں کو جو حقوق /اختیارات حاصل ہیں یا جو تھوڑی بہت برابری حاصل ہے اُس کا سہر ابھی اسی ایوان ِ بالا (سینیٹ ) کے سر ہے۔

اس ساری صورتحال کے تناظر میں اِس وقت سینیٹ کے انتخابات چھوٹے صوبوں بالخصوص سندھ کے لیے انتہائی اہم ہیں کیونکہ سندھ جو مالی وسائل میں باقی صوبوں پر برتری رکھتا ہے لیکن اُنہی وسائل پر اُسے اختیار نہیں اور نہ ہی وہ اپنے وسائل سے مناسب طور پر مستفیض ہورہا ہے ۔ اول تووفاق کی جانب سے سندھ سے نکلنے والی گیس ، تیل اور دیگر معدنی ذخائر و تجارتی مواقع سے اِس صوبے کی ترقی و تعمیر اولین ترجیح نہیں بلکہ مجموعی پول کے تحت خیرات کی طرح ملنے والی گرانٹ سے مشروط ہے۔

دوئم قیام ِ پاکستان کے وقت جو اختیارات (جیسے محصولات ، بندرگاہیں )اور امتیاز سندھ کو اپنی زبان ، ثقافت ، جغرافیائی ،معاشی ، معاشرتی ، سیاسی و انتظامی طور پر حاصل تھے وہ اب نہیں ہیں اور اُن کے حصول کے لیے سندھ 70سال سے جدوجہد کرتا رہا ہے ۔ جس میں سے سندھی زبان کو (بمعہ پنجابی ، پشتو اور بلوچی) قومی زبان کا درجہ دینے کی تحریک بڑی مشکل سے اس سطح پر پہنچی ہے کہ اب سینیٹ کی قائمہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے ایک بل کی صورت دیکر سینیٹ کے سیشن میں پیش کرنے اور پاس کرانے کی منظوری دی گئی۔

اس بل کو پاس کرانے کے لیے ضروری ہے کہ سسئی پلیجو ، عاجز دھامراہ (اس بل کے تیار کنندہ اور منظور کرانے کی وکالت کرنے والے )جیسی سوچ کے مالک اور متحرک کردار سندھ سے سینیٹ کے رُکن بنیں اور ساتھ میں پانی کی دستیابی اور منصفانہ تقسیم جس میں سالانہ سمندری ضروریات اور کراچی میں بسنے والے دیگر صوبوں کے لوگوں کے بوجھ کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت ِ آب سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسلام آباد کوٹہ کی طرح مشترکہ پول میں سے کراچی کوٹہ مقرر کرنا اور دیگر صوبوں سے آنے والے زہریلے و نکاسی ِ آب کی وجہ سے ہونے والی تباہی جیسے مسائل کو پیش کرنے کے لیے سینیٹ میں سندھ کی نمایندگی کرنے والے اراکین کا منتخب ہونا ضروری ہے جس کے لیے پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ سندھ اسمبلی سے ماضی کی طرح دیگر صوبوں کے لوگوں کو سندھ کی سیٹوں پر سینیٹر نہ بنائے تاکہ سندھ کے حقوق بالخصوص متذکرہ بالا حقوق کو غصب ہونے سے بچانے کے لیے سینیٹ میں مؤثر آواز موجود ہو۔

اسی طرح بلوچستان میں پھیلی محرومی کے خاتمیاور سیاسی و انتظامی اُمور میں بلوچستان کی مقامی آبادی کی رائے کو اہمیت دینے کے لیے بلوچستان کے مفادات کے حامی لوگوں کو ہی سینیٹ کا رُکن بننے کا ماحول ہونا چاہیے ۔ پھر کے پی کے کو ڈیموں سے بننے والی بجلی کی رائلٹی و دیگر معاملات کے حل کے لیے بھی اپنے صوبے کے مفادات کو مد نظر رکھنے والے امیدواران کو سینیٹ رکنیت ملنی چاہیے رہی بات پنجاب کی تو اُسے اپنے حق سے کہیں زیادہ پہلے ہی مل رہا ہے لیکن باوجود اس کے وہاں سے بھی پنجاب بھر کے مفادات کا خیال رکھنے والے افراد کو ہی سینیٹ کی رکنیت ملے تو شاید سرائیکی اور پوٹوہار آبادیوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے۔

سینیٹ ملکی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن مقدس ایوان ہے ، اُس کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ (یعنی گھوڑوں کی خرید و فروخت ) جیسی فضا پید اکرنا اس ایوان اور 21کروڑ عوام کی رائے دہی کے تقدس کو تار تار اور سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے ۔ جس کے لیے اس ادارے کے تقدس کے تحفظ کے لیے مخلص (حاضر و سابقہ )اراکین ِ سینیٹ اور سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ چھوٹے صوبوں کے قانونی و آئینی حقوق کے تحفظ کا ضامن یہ ادارہ صاف وشفاف ماحول کا حامل اوراپنے صوبے کے حقوق کے تحفظ پر کاربندو اصول پسند اراکین کی آماجگاہ بن کر ملکی مضبوطی و استحکام میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔ کیونکہ یہی وہ پلیٹ فارم ہے جہاں قوموں کو برابری کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے مسائل سن کر حل کرنے کے مواقع میسر ہیں خدا نہ خواستہ اگر کہیں اس ادارے کا کردار داغدار ہوتا ہے تو یہ ملکی انتشار کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ قوموں کو اگر برابری کا تاثر نہیں رہتا تو سقوط ڈھاکہ جیسے سانحے برپا ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔