وفاقی ادارہ انشورنس محتسب کے قیام سے بیمہ پالیسی کے رجحان میں اضافہ ہوا

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 2 اپريل 2018
انشورنس کمپنیوں کی ریگولیشن کیلئے ’’ایس ای سی پی‘‘ کا کام قابل تعریف ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

انشورنس کمپنیوں کی ریگولیشن کیلئے ’’ایس ای سی پی‘‘ کا کام قابل تعریف ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور وفاقی ادارہ انشورنس محتسب کے زیر اہتمام یونائیٹڈ انشورنس کمپنی آف پاکستان لمیٹڈ اور پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے اشتراک سے ’’گڈ گورننس اور انشورنس انڈسٹری کی ترقی‘‘ کے موضوع پر لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں گزشتہ دنوں ایک سیمینار منعقد کیا گیاجس میں گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ مہمان خصوصی تھے۔

سیمینار کی صدارت وفاقی انشورنس محتسب رئیس الدین پراچہ نے کی جب کہ  مہمانان گرامی میں انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین و یونائیٹڈ انشورنس کمپنی آف پاکستان لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹیو راحت صادق ، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر چودھری عرفان یوسف اورپاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ کے ریجنل ڈائریکٹر طارق چودھری شامل تھے۔

سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیاجس کی سعادت حافظ نبیل نے حاصل کی جبکہ سیمینار کے ابتدائی کلمات وفاقی ادارہ انشورنس محتسب کے ڈی جی مبشر صدیقی نے ادا کیے۔ سیمینار میں بزنس کمیونٹی اور انشورنس انڈسٹری کے نمائندوں سمیت خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ تمام مقررین نے اس اہم موضوع پر سیمینار منعقد کروانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ملک محمد رفیق رجوانہ (گورنر پنجاب)

انشورنس اعتماد کا نام ہے جس میں پالیسی خریدنے والے کو کہا جاتا ہے کہ پریمیم دے دیں ، جب آپ کو تکلیف ہوگی تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن جب مشکل آتی ہے اور پالیسی ہولڈر پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو انشورنس کرنے والا کھڑا ہی نہیں ہوتا۔ انشورنس محتسب کے پاس اس طرح کی بے شمار شکایات آتی ہوں گی۔ قرض لینے والے نے تو بینک کو ہر حال میں قرض واپس کرنا ہوتا ہے، اگر اس کی فیکٹری یا کارخانہ کو آگ لگ جائے یا قدرتی آفت کی وجہ سے نقصان ہوجائے تو انشورنس کلیم کی رقم ملنے میں 10 سال لگ جاتے ہیں، ان 10 برسوں میں قرض پر سود کی شرح اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے مقابلے میں انشورنس کی رقم کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور پھر وہ فیکٹری یا کارخانہ بک جاتا ہے۔

ایسا عمومی طور پر نہیں ہوتا بلکہ میں صرف چند مخصوص کیسز کے حوالے سے بات کر رہا ہوں۔ بعض اوقات ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوائے چند کرسیوں اور میزکے، انشورنس کمپنی کا کوئی اثاثہ نہیں ہوتا، ایسی صورتحال میں پالیسی ہولڈر اپنی رقم کس سے لے؟اس صورتحال کو دیکھنے کیلئے ایس ای سی پی ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جوانشورنس کمپنیوں کی ریگولیشن کے حوالے سے بہتر کام کر رہا ہے۔ انشورنس کمپنیاں لوگوں کی امانتوں کی امین ہیں۔ پالیسی ہولڈر اعتماد کرتے ہوئے پریمیم کی صورت میں اپنی امانت رکھواتاہے لہٰذا اگر حادثے کی صورت میں اسے رقم نہ دی جائے تو یہ امانت میں خیانت ہوگی اور اس طرح کی بددیانتی سے انشورنس کا کاروبار بھی متاثر ہوگا۔

انشورنس انڈسٹری کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں لیکن ہر چیلنج میں ایک موقع چھپا ہوتا ہے۔ پاکستان میں انشورنس کا کاروبار بہت وسیع ہے۔ نان لائف انشورنس کا بزنس 70فیصد ہے جو 4سے 5 کمپنیوں کے پاس ہے جبکہ لائف انشورنس کا 30 فیصد بزنس ہے جس میں سے 50 فیصد سٹیٹ لائف انشورنس جبکہ 20فیصد بزنس دیگر لائف انشورنس کمپنیاں کر رہی ہیں۔ اب انشورنس کی اقسام میں اضافہ بھی ہورہا ہے جن میں لائیو سٹاک،صحت و دیگر شامل ہیں۔ یہ انشورنس کمپنیوں پر لوگوں کے بڑھتے ہوئے اعتماد کی نشانی ہے۔ اسلامی بینکنگ اور تکافل کو ملا کر دیکھیں تو اسلامی لحاظ سے بہترین تصور ہے اور اس مارکیٹ میں بزنس کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔

پاکستان ایمرجنگ مارکیٹ ہے، سی پیک منصوبے سے نیابزنس آئے گا اور اس میں انشورنس انڈسٹری کیلئے بھی بہت سارے مواقع ہیں، لہٰذا تمام سٹیک ہولڈرز کو اس حوالے سے مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ انشورنس کمپنیاں اپنے اپنے ادارے میں گورننس بہتر کریں، لوگوں میں اعتماد قائم کریں تاکہ کاروبار میں اضافہ ہو ۔ انشورنس کے حوالے سے لوگوں میں آگہی کا فقدان ہے۔ انشورنس کے نظام میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جسے سودی نظام کہا جائے۔حلال اور حرام کی تمیز کیلئے لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ سکلڈ ہیومن ریسورس پر توجہ دینی چاہیے، اس حوالے سے ہیومن ریسورس منیجرز کو کام کرنا ہوگا۔

انشورنس انڈسٹری میں ریٹس کا مسئلہ بھی عام ہے کہ پالیسی بیچتے وقت جوریٹ بتایا جاتا حقیقت میں وہ نہیں ملتا جس سے بداعتمادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ میرے نزدیک وفاقی محتسب کا دفترلوگوں کے لیے نعمت ہے۔ میں صوبائی محتسب کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں سنتا ہوں۔ کوئی بھی متاثرہ شخص سادہ کاغذ پر صوبائی محتسب کو کسی بھی ادارے کے خلاف شکایت کرتا ہے تو اس کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح گھر کی دہلیز پر لوگوں کو سستا انصاف فراہم کیا جارہا ہے۔ اگر اس نظام کو مزید موثر کیا جائے تو معاملات بہتر ہوسکتے ہیں مگر میرے نزدیک اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ادارے اپنی گورننس بہتر کریں کیونکہ اگر محکمے اپنا کام ایمانداری سے کریں گے اور گورننس بہتر ہوگی تو محتسب کے پاس کوئی کیس نہیں جائے گا۔

افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں لوگوں کو انصاف ملنے میں دیر ہوجاتی ہے۔ “Justice delayed is justice denied” ۔ 90 برس بعد ایک شخص کی چوتھی پشت کی باری آتی ہے تو کیس کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ایک ملزم 14سال کال کوٹھری میں بند رہتا ہے اور پھر بری ہوجاتا ہے۔ اس کی 14 سال کی روزانہ کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا حساب کون دے گا؟ یہ معاشرہ دے گا، جس نے جھوٹا مقدمہ درج کرایا ؟ پولیس دے گی جس نے جھوٹے کا ساتھ دیا؟ یا پھر وہ عدالتیں دے گی جنہوں نے غلط فیصلہ دیا؟ بعض اوقات بندہ رہا تو ہوجاتا ہے مگر درحقیقت وہ پھانسی لگ چکا ہوتا ہے مگر کہتے ہیں باعزت بری ہوگیا۔ مسائل زیادہ ہیں لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور پورے جذبے کے ساتھ ان کے حل کیلئے کام کرنا چاہیے۔

غریب عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں اور ہم نے اس حوالے سے جواب بھی دینا ہے۔ بات بڑھتی جارہی ہے، بڑھ گئی تو کام خراب ہوجائے گا اور مجھے حقیقت سے اور پردے اٹھانے پڑ جائیں گے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محتسب کوہمت دے اور اسی طرح لوگوں کو سستا انصاف ملتا رہے۔ ایک غلطی پر محتسب نے فیصلہ دے دیا تو پھر اس طرح کی شکایت کسی اور کیس میں سامنے نہیں آنی چاہیے لیکن اگر وہ شکایت دوبارہ آتی ہے تو پھر آپ کی اصلاح نہیں ہوئی، یہ بیڈ گورننس کی بدترین مثال ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو بھاری جرمانہ کیا جائے۔ ۔پاکستان پائندہ باد!!

رئیس الدین پراچہ (وفاقی انشورنس محتسب)

5 فیصد سے کم آبادی کو انشورنس محتسب کے بارے میں علم ہے۔ میں نے جب اس ادارے کا چارج سنبھالا تو صدر مملکت نے مجھے ہدایت کی کہ لوگوں کو اس حوالے سے آگاہی دیں۔ یہ ایک چھوٹا ادارہ ہے، ہمارے پاس بجٹ بھی کم ہے لہٰذا ہم نے تشہیر کے لیے سرکار سے مدد لی، پیمرا نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور پبلک سروس میسج کے طور پر پیغامات چلائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے کچھ سیمینار کروائے اور اخبارات کو انٹرویو کے ذریعے بھی لوگوں تک پیغام پہنچانے کی کوشش کی جس سے فائدہ ہوا ہے۔ ابھی کہا گیا کہ شکایات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے ، میرے نزدیک یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں انشورنس انڈسٹری میں 25سے 35 ہزار کلیم ہر سال مسترد ہوتے ہیں جو بہت بڑی تعداد ہے۔ ان میں سے 10فیصد سے کم لوگ محتسب، عدالت یا کسی دوسرے فورم سے رجوع کرتے ہیں جبکہ باقی تعداد اپنے حق سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہم لوگوں کو آگہی دینے کے مشن پر کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں انشورنس کی سرائیت جی ڈی پی کے 1 فیصد سے بھی کم ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں 5 سے 6 فیصد ہے جبکہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا بھی ہم سے بہت آگے ہیں۔

لوگوں میں انشورنس کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب لائف انشورنس کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی انشورنس کی شرح بڑھ رہی ہے جن میں موبائل فون، زرعی فصل، کاروبار، امپورٹ / ایکسپورٹ کا مال ودیگر شامل ہیں۔ پی آئی اے کے ایک پائلٹ نے جہاز اڑانے کی صلاحیت پر کروڑوں روپے کی انشورنس کروائی۔اس کے علاوہ ڈاکٹر ، گلوکار ودیگر لوگ اپنے ہنر کی انشورنس کرواتے ہیںا وراس میں مزید اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ شرح ابھی بہت کم ہے۔ ہم یہ شکایت تو کرتے ہیں کہ انشورنس کی گروتھ نہیں ہورہی مگر اس کے اسباب پر بات نہیں کی جاتی ۔

انشورنس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر کو چاہیے کہ اس حوالے سے تمام انشورنس کمپنیوں کے نمائندوں سے مل کر بہتر حکمت عملی تیار کرکے عوام سے رابطہ بڑھائیں۔ تکافل ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کاروبار کی بہت گنجائش موجود ہے۔ معاشرے کی ایک بڑی تعداد انشورنس کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق درست نہ سمجھتے ہوئے انشورنس نہیں کرواتی۔ تکافل، انشورنس کا عین اسلامی ماڈل ہے لہٰذا اسلامی بینکاری کے لاکھوں کی تعداد میں اکاؤنٹ ہولڈرز اس کے ممکنہ خریدار ہیں، ان کو ٹارگٹ کرنے کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ انہیں انشورنس نیٹ میں لایا جاسکے۔ پالیسی نہ خریدنے کی ایک بڑی وجہ انشورنس کمپنیوں پر عدم اعتماد ہے۔ بعض اوقات پالیسی ہولڈر کی جانب سے بھی فراڈ ہوتا ہے مگر اس کی شرح 2 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

کمپنیوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر حق دار کو اس کا حق نہیں ملے گا تو کاروبار میں نقصان ہوگا۔ کلیم کی پروسیسنگ چند ماہ تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ برسوں چلتی رہے تو مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ تمام کمپنیوں کو چاہیے کہ پاکستان میں انشورنس انڈسٹری کی گروتھ کیلئے عدم اعتماد کی فضا کو ختم کریں، لوگوں کے ساتھ رابطہ بڑھائیں اور پالیسی ہولڈرز کو کلیم کی رقم کی فراہمی یقینی بنائیں۔ موجودہ دور آئی ٹی اور تیز رفتار پراسیسنگ کا دور ہے لہٰذا الیکٹرانک پراسیسنگ کا میکانزم بنایا جائے کہ ایک کروڑ روپے سے کم کلیم اگلے ہی روز ادا کردیا جائے۔

راحت صادق صاحب نے جو چیزیں بتائی ہیں، اگر ان خطوط پر کمپنیاں کام کریں تو گڈ گورننس ہوگی ، کوئی شکایت نہیں آئے گی اور انشورنس محتسب کو اپنا ادارہ بند کرنا پڑے گا ۔ میں نے نومبر 2015ء میں جب اس ادارے کا چارج سنبھالا تو ہمارا ہیڈ آفس صرف کراچی میں تھا اور کوئی ریجنل دفتر نہیں تھا۔ اب اسلام آباد اور لاہور میں ہمارے ریجنل آفس قائم ہیں جبکہ عنقریب ملتان اور پشاور میں دفاتر قائم کیے جائیں گے تاکہ عوام کو ریلیف دیا جائے۔ ہم شکایت موصول ہونے کے 60 دن کے اندر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں۔ اس کی کوئی فیس نہیں ہے، سادہ کاغذ پر شکایت موصول ہوتی ہے اور اس پر کارروائی کی ہے۔ ادارہ وفاقی محتسب عدالت نہیں ہے۔

ہماری پہلی کوشش ہوتی ہے کہ شکایت کنندہ اور متعلقہ کمپنی کے مابین درمیانی راستہ نکالا جائے، ہم تمام کیسز کا فیصلہ قانون کے مطابق کرتے ہیں اور لوگوں کو سستا انصاف فراہم کررہے ہیں۔ ہم انشورنس کمپنیوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہم ایس ای سی پی کو بھی سفارشات دیتے ہیں۔ چند برس قبل ہم نے ایس ای سی پی کو کہا کہ فارم میں لکھائی بہت چھوٹی اور صرف انگریزی زبان میں ہوتی ہے لہٰذا اس کو بہتر کیا جائے۔ اس کے بعد سے اب فارم اردو میں بھی مل رہے ہیں۔ لوگوں کو علم نہیں تھا کہ وہ مسئلے کے حل کیلئے کس سے رجوع کریں لہٰذا اب ہماری سفارش پر ایس ای سی پی نے ہر کمپنی کو پابند کیا جس کے بعد ہر پالیسی میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ شکایت کی صورت میں انشورنس محتسب یا انشورنس ٹربیونل سے رابطہ کیا جائے۔

سی پیک کے ذریعے ملک میں ترقی آرہی ہے، نئے منصوبے اور نئے معاہدے ہورہے ہیں لہٰذااس کا اثر انشورنس انڈسٹری پر بھی پڑے گا۔ تمام کاروباری معاہدوں میں انشورنس لازمی امر ہے لیکن میں نے ابھی تک ایسا نہیں دیکھا کہ انشورنس انڈسٹری اس حوالے سے کوئی تیاری کررہی ہے کہ اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے۔ میری تجویز ہے کہ چیمبرز کے ساتھ میٹنگ کے ذریعے معاملات آگے بڑھائے جائیں۔

ہمارے جو فیصلے ہوتے ہیں ، ان کے حوالے سے ہمارے پاس نظر ثانی کی درخواست دی جاسکتی ہے جبکہ صدر پاکستان کو بھی اپیل کی جاسکتی ہے۔ 100 میں سے ایک کیس صدر پاکستان تک پہنچتا ہے، اس سے ہماری کارکردگی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارہ ادارہ فریقین کو مطمئن کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتاہے۔انشورنس محتسب کا ادارہ انشورنس کمپنیوں کو بند کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ ایک نعمت ہے، اس سے انشورنس اندسٹری کی گروتھ ریٹ میں اضافہ ہوا ہے۔

راحت صادق (چیئرمین انشونس ایسوسی ایشن آف پاکستان و چیئرمین یونائیٹڈ انشورنس کمپنی آف پاکستان لمیٹڈ)

ایس ای سی پی اور وزارت کامرس و خزانہ نے انشورنس کمپنیوں کے تعاون سے انشورنس رولز، انشورنس آرڈیننس اور دیگر منسلک قوانین کو اپ ڈیٹ کیا ہے۔ ڈائریکٹر کی تقرری کیلئے اس کی تعلیم اور قابلیت پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ سی ای او، سی ایف او ، ہیڈ آف انٹرنل آڈٹ و دیگر سٹاف کی تعلیم کا معیار طے ہوا ہے، اس سے بہت بہتری آئی ہے۔ انشورنس کمپنیوں کی فنانشل رپورٹنگ کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے۔ کمپنیوں میں انشورنس، رسک مینجمنٹ و دیگر کمیٹیاں ہوتی ہیں جن میں کمپنی میں کام کرنے والے ہر سطح کے ملازمین شامل ہوتے ہیں جو کمپنی کی بہتری کیلئے سفارشات دینے کے ساتھ ساتھ کام بھی کرتے ہیں۔

آڈٹ کے حوالے سے حکومت نے بینکنگ اور انشورنس کمپنیوں کے لیے ایک فہرست تیار کی کہ وہ ان کمپنیوں سے آڈٹ کرواسکتی ہیں۔ جنرل انشورنس کمپنیوں میں ایکچوری بھی ہوتے ہیں جو بیلنس شیٹ کے صحیح رزلٹ میں مدد دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔شکایات کا شعبہ کمپنیوں میں نیا ہے جو کسٹمر کی شکایت کا ازالہ کرتا ہے۔ پاکستان میں انشورنس سیکٹر موثر طریقے سے کام کررہا ہے جو ملک کی اکنامک اور سوشل ڈویلپمنٹ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں انشورنس سیکٹر سست رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 70ء کی دہائی میں انشورنس انڈسٹری کو نیشنلائز کر دیا گیا جس سے انشورنس کمپنیوں کو نقصان پہنچا۔

90ء کے بعد انشورنس کمپنیوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں سرکاری بزنس کی انشورنس اور پرائیویٹ کمپنیوں کی لائف انشورنس کا اختیار دیا جائے۔ جس کے بعد یہ طے کیا گیا کہ پرائیویٹ سیکٹر لائف انشورنس لے سکتا ہے مگر اس کے لیے ایک الگ لائسنس لازمی قرار دیا گیا اورمخلوط کے بجائے جنرل انشورنس اور لائف انشورنس کمپنیوں کو الگ کردیا گیا لیکن سرکاری بزنس کی انشورنس کو پرائیویٹ کمپنیوں کے لیے اوپن نہیں کیا گیا۔

رئیس الدین پراچہ 2015ء میں وفاقی محتسب بنے، ان کی کارکردگی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے انتہائی قلیل مدت میں ریجنل دفاتر قائم کیے ہیں۔ ان کے چارج سنبھالنے سے قبل شکایات کی شرح کم تھی مگراب لوگوں کو آگاہی ملی ہے اور شکایات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے انشورنس کمپنیوں کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ ان کے بزنس میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ اب لوگوں کا انشورنس سیکٹر پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔

چودھری عرفان یوسف (نائب صدر و ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی پنجاب)

پاکستان اس وقت مسائل کا شکار ہے جن کا حل صرف گڈ گورننس میں ہے لہٰذا شفاف، جامع، طویل العیاد اور قابل عمل معاشی پالیسیوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازاداروں اور کاروباری تنظیموں کے درمیان تعاون کو مضبوط کرنا اور مشاورت سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے بیرونی قرضوں کا سلسلہ بند اور خود انحصاری کی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمارا ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے تاہم توانائی کا بحران ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت نے میگا پراجیکٹس کا آغاز کیا ہے۔

انڈسٹری کو مزید بحرانوں سے نکالنے کیلئے حکومت اچھی پالیسیاں مرتب کر رہی ہے۔ اگر ٹیکس اصلاحات لائی جائیں تو ملکی معیشت مضبوط ہوگی جس سے کاروبار میں اضافہ ہوگا اور یقینا اس کا اثر انشورنس انڈسٹری پر پڑے گا۔ میرے نزدیک حکومت کو بزنس فنانسنگ اداروں اور انشورنس اداروں کو فعال کرنا ہوگا۔ انفرادی طور پر ہمیں انشورنس انڈسٹری کی ترقی کیلئے کام کرناچاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنی انشورنس کروائیں۔

طارق چودھری (ریجنل ڈائریکٹر پاک قطر فیملی تکافل لمیٹڈ)

پاکستان میں تکافل کے معاملات چلانے کیلئے ایس ای سی پی تمام قوانین مرتب کرتا ہے اور ان پر عملدرآمد یقینی بناتا ہے۔ انشورنس کمپنیوں کی گورننس کو مزید بہتر کرنے کیلئے ایس ای سی پی نے 2016ء میں code of corporate governance for insurance  جاری کیا اور اس پر عملدرآمد یقینی بنایا۔ اگر ایس ای سی پی، تکافل آپریٹر کی ذمہ داریوں کا تعین کررہا ہے تو وفاقی انشورنس محتسب ان پرعملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں سائلین کی شکایات کا ازالہ کررہا ہے۔

وفاقی انشورنس محتسب کا کردار اس سسٹم میں بہت اہم ہے جوبغیر فیس کے قلیل مدت میں لوگوں کو انصاف مہیا کر رہا ہے۔ پاکستان کی انشورنس انڈسٹری کیلئے 1995ء، ایک سنگ میل ثابت ہوا کیونکہ اس سال بہت ساری پرائیویٹ کمپنیوں کو بزنس کرنے کی اجازت ملی۔ اس کے بعد سے آج تک ایس ای سی پی کا کردار مثبت رہا جس کی وجہ سے اس سیکٹر کی کارکردگی بہتر ہورہی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیں تو گزشتہ 5برسوں میں انشورنس سیکٹر نے 13فیصد کے حساب سے ترقی کی ہے۔ 2016ء کے دوران انشورنس انڈسٹری کا مجموعی حجم 265 بلین ، لائف انشورنس کی ترقی 11 فیصد جبکہ ٹوٹل پریمیم 180بلین رہا۔

ایس ای سی پی کی اصلاحات اس بات کا مظہر ہیں کہ ادارے چاہتے ہیں کہ اس فیلڈ میں پروفیشنل لوگ آئیں تاکہ انشورنس اور تکافل کا معیار مزید بہتر کیا جاسکے۔ پاکستان میں تکافل کے بزنس کا بہت پوٹینشل موجود ہے۔ گزشتہ 10 برس میں تکافل کی مقبولیت اس بات کا مظہر ہے کہ اس ماڈل میں ممبر کے لیے زیادہ فائدہ بھی ہے اور یہ انشورنس کا جائز متبادل بھی ہے۔ الحمداللہ! تمام بڑی انشورنس کمپنیاں بھی ونڈو تکافل کے ذریعے اس مشن میں شامل ہورہی ہیں۔ تکافل کے معاہدے کے قانونی پہلو ہی اس کے اخلاقی و مذہبی پہلو ہیں۔

یہ ایک معاہدہ ہے جس کی تکمیل تکافل آپریٹر پر لازمی ہے کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ جس کا عہد نہیں اس کا ایمان نہیں۔اس عہد کی مختلف جہتیں ہیں۔ سب سے پہلے پالیسی بیچنے والے کاخود کے ساتھ عہد کہ میں رزق حلال کماؤں گا۔ دوسرا عہد اپنی کمپنی کے ساتھ کہ میں سچ بول کر اور پالیسی کے تمام فوائد اور قوائد بتا کر پالیسی بیچوں گا۔ تکافل کمپنی کا عہد کہ ہم تمام تفصیلات بتا کر اپنے ایجنٹوں کی اچھی تربیت کرکے پالیسی بیچیں گے۔ پھر تکافل آپریٹر کا عہد حکومتی اداروں کے ساتھ کہ ہم تمام ملکی قوانین کی پاسداری کریں گے۔ اگر ان تمام وعدوں کی پاسداری کی جائے تو یہ شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔

ریاستی اداروں کا کام قوانین مرتب کرنااوران پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے لیکن اخلاقی قوانین کی پابندی کمپنیوں کی اپنی ذمہ داری ہے۔ پاک قطر فیملی تکافل کے ویژن اور مشن سٹیٹمنٹ میں شامل ہے کہ اللہ کی شریعت اور زمین کے قانون کی پاسداری کرنی ہے۔ جب تک ہم اپنے اداروں کے اندر اخلاص، نیک نیتی، ایمانداری اور سچ کا کلچر ڈویلپ نہیں کریں گے تب تک گڈ گورننس کے مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے۔ اس ہال میں 10 فیصد لوگ بھی ایسے نہیں ہوں گے جن کی اپنی پالیسی ہوگی۔ درمیانے طبقے کے لوگوں کیلئے تکافل کی پالیسی بہت بڑی نعمت ہے لہٰذا سب کو یہ پالیسی لینی چاہیے۔ پاکستان زندہ باد!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔