آرٹیکل 62 غیرمسلموں پر بھی قابل اطلاق بن گیا

حسنات ملک  ہفتہ 14 اپريل 2018
 ترمیم نہ ہوئی توسیاستدان نااہل ہوتے رہیںگے،رکن پاکستان بارراحیل کامران۔ فوٹو:فائل

 ترمیم نہ ہوئی توسیاستدان نااہل ہوتے رہیںگے،رکن پاکستان بارراحیل کامران۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آرٹیکل 62 (1) ایف کے فیصلے کے تحت شرائط مسلمان امیدواروں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں پربھی قابل اطلاق بن گئیں۔

سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) ایف کے تحت تاحیات نااہلی کے فیصلے میں عدالتی معاونین منیراے ملک اورعلی ظفر کی رائے، عاصمہ جہانگیر مرحوم،سکندربشیر مہمند،سرداراسلم ،کامران مرتضیٰ کے دلائل سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ فیصلے میں تحریک انصاف کے دو وکلاء بابراعوان اور چوہدری فیصل حسین کے دلائل کوتسلیم کیا گیا ہے۔

تاحیات نااہلی کافیصلہ سابق وزیراعظم نوازشریف کیلئے ایک اوردھچکا ہے ۔گزشتہ برس وہ بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار پائے تھے اور بعدازاں پارٹی سربراہ کے طور پربھی نااہل قرار دیا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کا آرٹیکل62 (1) ایف رکن پارلیمنٹ بننے کیلئے اسلامی اخلاقی شرائط نافذ کرتا ہے لیکن یہ شرائط مسلمان امیدواروں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں پربھی قابلاطلاق بن گئی ہیں۔

قانونی ماہرین مختلف وجوہات کی بنا پر فیصلے کو تنقیدی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ پہلے نمبر پراس اہم مقدمہ کی سماعت کیلئے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کیا جا رہاہے۔پانچ جج صاحبان میں سے چار کا تعلق پنجاب سے ہے۔ان میں سے زیادہ تر جج صاحبان پاناماگیٹ،الیکشن ایکٹ 2017،حنیف عباسی کیس سمیت کئی اہم مقدمات کا فیصلہ سنانے والے بنچوں کا حصہ رہے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات فل کورٹ یا لارجر بنچوں میںسنے جانے چاہئیں جن میںکسی بھی منفی تاثرسے بچنے کیلئے ہر صوبے کے جج کی نمائندگی ہونی چاہیے ۔

مسلم لیگ ن کے وکلاء نے بھی فیصلے پر تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس سے مختلف فیصلوں میں موجود ابہام دور نہیں ہوا ۔مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے حیرت کااظہارکرتے ہوئے کہ چیف جسٹس نے خود سابق ایم پی اے حاجی ناصر کوبلدیاتی الیکشن لڑنے کی اجازت دی حالانکہ وہ آرٹیکل62 (1) ایف کے تحت نااہل ہوئے تھے۔

انہوں نے اجمل آصف اورظفر ڈھانڈلہ کا بھی حوالہ دیا جنہیں سپریم کورٹ نے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔پاکستان بارکونسل کے رکن راحیل کامران شیخ نے کہا کہ فیصلہ نے بتادیا ہے کہ پاکستان مذہبی ریاست ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔