پرسکون نیند کے لیے دفتر کا کام دفتر میں ہی چھوڑ آئیں

ویب ڈیسک  منگل 24 اپريل 2018
اگر آپ پرسکون نیند چاہتے ہیں تو دفتر کا کام گھر پر کرنے کی عادت کو خیرباد کہ دیں (فوٹو: فائل)

اگر آپ پرسکون نیند چاہتے ہیں تو دفتر کا کام گھر پر کرنے کی عادت کو خیرباد کہ دیں (فوٹو: فائل)

نیویارک: اگرآپ دفتر کا کام گھر لانے کے عادی ہیں تو آپ اس بوجھ کو لارہے ہیں جس میں وہ ذہنی تناؤ پوشیدہ ہے جو آپ کو چین سے سونے بھی نہیں دے گا۔

اپنی نیند اور خوشگوار زندگی کے لیے دفتر کا کام گھر پر کرنے سے گریز کریں کیونکہ گھر پر کام لانے کے عادی افراد ملازمت کا سوئچ آف نہیں کرتے اور یوں وہ گھر میں بھی دباؤ کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

اب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گھر پر دفتری امور نمٹانے کی عادت کے برے اثرات کئی برس تک برقرار رہتے ہیں۔ امریکا میں واقع اوکلینڈ اور پورٹ لینڈ یونیورسٹی نے امریکی محکمہ زراعت کے تعاون سے ایک اہم سروے کیا ہے جس کی تفصیل ’جرنل آف آکیوپیشنل ہیلتھ سائیکالوجی‘ میں شائع ہوئی ہے۔

سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ جو ملازم اور افسران دفتری اوقات کا کام گھروں میں کرتے ہیں وہ فوری طور پر بے خوابی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ تحقیقی سروے کی مرکزی سائنس داں کیٹلن ڈیمسکی کہتی ہیں کہ خراب نیند اگلے دن کام کے معمولات، کارکردگی اور رویے پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر آپ گھر پر دفتری کام کرکے سوتے ہیں تو بہت آسانی سے اسے اپنی فکر سے الگ نہیں کرپاتے اور یوں اسی کو سوچتے ہوئے بستر تک جاتے ہیں۔ لیکن سروے میں ایک اور پہلو پر بھی غور کیا گیا جو ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

دفتر کی تلخ باتوں کو بھی چھوڑ آئیں

اس سروے میں امریکی محکمہ زراعت و جنگلات کے 699 افراد کو شامل کیا گیا اور ان سے کام کے معمولات اور نیند کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ سروے میں واضح طور پر یہ بات سامنے آئی کہ جن افراد کو دفتر میں ماتحت نے جھڑکا یا ساتھی نے کسی بات پر کچھ منفی بات کی تو اس کا اثر نیند پر ہوا۔ وہ اچھی طرح سونے سے قاصر رہے یا رات کو باربار سوتے سے جاگنا پڑا۔

اس اہم تحقیق سے معلوم ہوا کہ گھر میں دفتر کا کام اور اس کا منفی ماحول دونوں ہی نیند اور صحت کے لیے برے ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک جانب تو دفاتر کو دفتری آداب اور ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اگر یہ ممکن نہیں تو بطور ایک ملازم ہم خود پر اتنا تو رحم کرسکتے ہیں کہ آفس کا کام وہیں رہنے دیں اور اسے گھر لے جانے سے گریز کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔