ایک ہونے کا چلن، پُھوٹ پڑجانے کی ریت

عبداللطیف ابو شامل  پير 15 اپريل 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

مملکت خداداد پاکستان اپنی عمر عزیز کے نصف سے زاید سال آمریت کے تاریک سائے میں رہا ہے۔

ہر آمر نے ’’میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ سے اپنی بات کا آغاز کیا اور خود کو پاکستان کا حقیقی نجات دہندہ بتایا اور پھر عوام نے دیکھا کہ وہ کتنا بڑا ’’نجات دہندہ‘‘ تھا۔ جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ ہمارے عاقبت نا اندیش سیاسی راہ نماؤں نے بھی انہی آمروں کی چھتری تلے پناہ لی اور ہر جمہوری حکومت کے خلاف (اب یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ جمہوری حکومت بھی کسی قدر جمہوری اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتی تھی) آمروں سے مدد طلب کی۔ پاکستان کی تاریخ جمہوریت و آمریت کی آنکھ مچولی کا کھیل رہی ہے۔

اس طرح ہمارے ہاں انتخابات کے نام پر بھی عجیب کھیل جاری رہا۔ مختلف سیاسی جماعتیں اتحاد کی سیاست کرتی رہیں۔ مختلف نظریات و خیالات رکھنے والی جماعتیں باہم جمع ہوتی اور منتشر ہوتی رہیں۔ یہ کھیل اب تک جاری ہے۔ اب اس سیاسی اتحاد میں ایک نئی اصطلاح سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی جگہ پاچکی ہے۔ آئیے پاکستان میں بنتے ٹوٹتے بکھرتے اتحادوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

جگتو فرنٹ1954

وطن عزیز میں اتحادی سیاست کی ابتدا متحدہ پاکستان میں 1954 سے ہوئی۔ مشرقی پاکستان (حالیہ بنگلادیش) ابتدا ہی سے احساس محرومی کا شکار رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت سے شکایت رہی تھی کہ وہ انہیں برابر کا شہری اور حصہ دار تسلیم نہیں کرتے اور اپنے یک طرفہ فیصلے ان پر مسلط کرتے ہیں۔ اس میں کچھ حقیقت بھی تھی۔ مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور 1954 میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کے نام سے پہلا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ جگتو فرنٹ عوامی لیگ، کراشک سرامک پارٹی، نظام اسلامی پارٹی اور گنا تنتری دل پر مشتمل تھا۔

جگتو فرنٹ مسلم لیگ کے خلاف قائم ہوا تھا۔ جگتو فرنٹ میں شامل مولوی فضل حق نے جو مطالبات کیے تھے، ان میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دینا، نظام تعلیم کو تبدیل کرنا، مکمل صوبائی خودمختاری کا مطالبے کے ساتھ نیول ہیڈکوارٹر کو مشرقی پاکستان منتقل کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ جگتو فرنٹ کے راہ نماؤں نے 21فروری 1954 کو ’’یوم شہداء‘‘ منایا۔ یہ دن ان بنگالی مظاہرین کی یاد میں منایا گیا تھا جو بنگالی زبان کو سرکاری زبان قراردینے کی تحریک کے دوران مارے گئے تھے۔ اگر ہم ان حالات کا بغور جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بنگلادیش بنانے کی تحریک کا آغاز 1953ہی میں جگتو فرنٹ کے قیام سے ہوگیا تھا۔

جگتو فرنٹ نے 1954 کے صوبائی انتخابات میں بے مثال کام یابی حاصل کی۔ اس طرح جگتو فرنٹ حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا۔ لیکن بدقسمتی، عاقبت نااندیشی اور سیاسی مفادات کی بنا پر جگتو فرنٹ کی حکومت کو 30 مئی 1954 کو غیرجمہوری، غیرآئینی حربوں سے ختم کردیا گیا۔ اس وقت جگتو فرنٹ کو زمام اقتدار سنبھالے محض دو ماہ ہوئے تھے۔ حکومت ختم ہونے کے بعد فرنٹ میں شامل جماعتیں باہم دست بہ گریباں ہوگئیں۔ ایک دوسرے پر الزامات اور حق تلفی کی شکایات اس قدر بڑھ گئیں کہ جگتو فرنٹ کا شیرازہ بکھر گیا اور متحدہ پاکستان کا پہلا سیاسی اتحاد منتشر ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھا۔

فوٹو: فائل

قومی جمہوری محاذ (این۔ ڈی۔ ایف)1962

اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا اور قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ آزادی کے بعد پاکستان کو جن مشکلات کا سامنا رہا ان سے سب واقف ہیں۔ یہ نوزائدہ مملکت میں ابتدا ہی سے سیاسی مفادات حاصل کرنے کا کھیل کھیلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بعد کے حالات میں انہی کھوٹے سکوں نے وہ گل کھلائے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ 1958 میں وطن عزیز پر پہلے فوجی آمر خودساختہ فیلڈمارشل جنرل محمد ایوب خان قابض ہوکر ملک کی سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔

جمہوریت کا بیج کونپل نکالنے سے پہلے ہی بوٹوں سے مسل دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کو جمہوریت کے نام ہی سے چڑ تھی، لیکن اپنے دور اقتدار کو طول دینے کے لیے انہوں نے اپنی مرضی کی جمہوریت کو عملی جامہ پہنایا اور بنیادی جمہوریت کے نام سے اپنا نظام پیش کیا۔ ایوب خان نے اپنے مفادات کے لیے سیاست دانوں پر پابندی لگائی اور زمیں داروں اور جاگیرداروں کو خائف کرکے اپنی مُٹھی میں لینے کے لیے زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ ایوب خان کو اپنے بنیادی جمہوریت کے حوالے سے ہونے والے انتخابات میں 98 فیصد ووٹ ملے۔ 80 ہزار بی ڈی ممبروں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھا۔ایوب خان کو 80 ہزار میں سے 75283 ووٹ ملے۔ یہ انتخاب 15 فروری 1960 کو ہوا۔

اس طرح آمریت مشرف بہ جمہوریت ہوگئی۔ پہلے مارشل لا کے چار سال بعد 1962 میں فوجی آمریت کے خلاف سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے ’’قومی جمہوری محاذ‘‘ کے نام سے سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈالی، جس کا اعلان انہوں نے 6 اکتوبر 1962 کو کیا۔ قومی جمہوری محاذ میں سردار بہادر، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، ممتاز دولتانہ، غلام علی تالپور اور یوسف خٹک جیسے سیاست داں شامل ہوئے۔ اس اتحاد کا مقصد اور مطالبہ آمریت کی رخصتی اور جمہوریت کی بحالی تھا۔ قومی جمہوری محاذ بھی اپنی سیاسی جدوجہد کے ثمرات سے محروم رہ کر اس وقت ختم ہوگیا جب 1963 میں اتحاد کے روح رواں حسین شہید سہروردی انتقال فرما گئے۔

1964میں مشترکہ حزب اختلاف اتحاد کی تشکیل

ایوبی آمریت کے خلاف قومی جمہوری محاذ کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد 1964 میں ’’مشترکہ حزب اختلاف اتحاد‘‘ وجود میں آیا۔ 21 جولائی 1964 میں سابق وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی قیام گاہ پر اس اتحاد کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اس اتحاد میں عوامی لیگ ، نظام اسلامی پارٹی، جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ شامل تھی۔ نیشنل عوامی پارٹی بھی اس موقع پر شریک تھی۔ اس اتحاد نے ایوبی آمریت کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔ جنرل ایوب خان نے آمرانہ ہتھ کنڈوں سے صدارت اپنے نام کروالی۔

محترمہ فاطمہ جناح کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ صدارتی انتخاب کے بعد قومی اسمبلی کا انتخاب عمل میں آیا۔ جس میں اس اتحاد نے 15 نشستیں جب کہ ایوب خان کی مسلم لیگ 120 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی اس اتحاد نے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی۔ اتحاد نے ایوبی آمریت پر انتخابات میں بدترین دھاندلی اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے۔ جن میں حقیقت بھی تھی۔ انتخابات کے بعد یہ انتخابی اتحاد جماعتوں کے نظریاتی اختلافات کے باعث تحلیل ہوگیا۔ محترمہ فاطمہ جناح سیاست سے دست بردار ہوکر گوشہ نشین ہوگئیں۔

 1967پاکستان جمہوری اتحاد کا قیام

جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف تیسرا سیاسی اتحاد سن 1967 میں بنایا گیا۔ جس میں قومی جمہوری محاذ، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی شامل تھیں۔ آہستہ آہستہ جنرل ایوب خان کے خلاف عوامی غصہ بڑھنا شروع ہوا اور تحریک زور پکڑتی چلی گئی۔ 1969 اس تحریک کے عروج کا دور ثابت ہوا۔ اس کے ساتھ ہی اس تحریک میں پاکستان جمہوری اتحاد نے ’’جمہوری مجلس عمل‘‘ کی شکل اختیار کرلی۔ جمہوری مجلس عمل بھی سیاسی اتحاد تھا، جس میں 8 سیاسی جماعتیں شریک تھیں۔

نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان پیپلزپارٹی اس اتحاد کا حصہ نہیں بنیں۔ حالات اس قدر ابتر ہوگئے تھے کہ جنرل ایوب خان کو گول میز کانفرنس بلانی پڑی۔ اس گول میز کانفرنس میں جمہوری مجلس عمل کے علاوہ جنرل اعظم اور اصغر خان نے بھی شرکت کی۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا اور یوں یہ گول میز کانفرنس کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئی۔ جمہوری مجلس عمل نے اس کانفرنس کو ناکام اور بے ثمر کرنے کا الزام ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا عبدالحمید بھاشانی پر عاید کیا۔ بعدازاں عوام کا غم و غصہ لاوا بن کر پھوٹ پڑا اور لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ آخر کار جنرل ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک اور آمر جنرل یحییٰ خان ملک پر قابض ہوگیا۔ جمہوری مجلس عمل اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی اور تتر بتر ہوگئی۔

فوٹو: فائل

1973 متحدہ جمہوری محاذ کی تشکیل

1970 کے عام انتخابات کا انعقاد جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی راہ نما کے طور پر سامنے آئے۔ مرکز میں برسراقتدار پیپلز پارٹی نے صوبہ سرحد (حالیہ خیبرپختونخوا) میں قائم خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود کی مخلوط حکومت کے خلاف کارروائی کی، جس کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’متحدہ جمہوری محاذ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ متحدہ جمہوری محاذ میں پاکستان جمہوری پارٹی، کونسل مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علما اسلام شامل تھیں۔

23 مارچ1973 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اس اتحاد کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر جلسے پر فائرنگ کی گئی اور 17 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ نے 17 اگست 73 کو سول نافرمانی کا اعلان کردیا۔ لیکن یہ تحریک ناکام رہی۔ 10 فروری 1975 کو حکومت نے نیپ پر پابندی عاید کی جسے عدالت نے بھی 30 اکتوبر 1975 میں جائز قرار دے دیا۔ اس کے نتیجے میں نیپ کے مرکزی اور صوبائی قیادت کی اسمبلیوں کی رکنیت بھی ختم ہوگئی۔ بعدازاں متحدہ جمہوری محاذ منقسم ہوگیا۔

1977 پاکستان قومی اتحاد کا آغاز

1977 میں پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا۔ پاکستان قومی اتحاد 9 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھا، جن میں مسلم لیگ پگارا، جماعت اسلامی، تحریک استقلال، جمعیت علمائے پاکستان، جمعیت علمائے اسلام (ہزاروی)، جمعیت علماء اسلام (مفتی محمود)، این ڈی پی، خاکسار تحریک، پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس شامل تھیں۔ 7 جنوری 1977 کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 7 اور 10 مارچ کو عام انتخابات کا اعلان کیا۔ 10 جنوری 1977 کو پاکستان قومی اتحاد تشکیل پاگیا۔ 17 جنوری 1977 کو پاکستان قومی اتحاد کے دوسرے اجلاس میں اس اتحاد کے عہدے داروں کا انتخاب عمل میں آیا، جس میں مولانا مفتی محمود صدر، نواب زادہ نصراﷲ خان نائب صدر، رفیق احمد باجوہ سیکریٹری جنرل اور پیر پگارا کو چیئرمین مرکزی پارلیمانی بورڈ منتخب کیا گیا۔

اس اتحاد نے ایک انتخابی نشان پر انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کوئی نمایاں کام یابی حاصل کرنے سے محروم رہا۔ پاکستان قومی اتحاد نے پیپلزپارٹی کی حکومت پر دھاندلی کے الزامات عاید کیے اور تحریک شروع کردی۔ اس تحریک نے زور پکڑا تو 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 5 اگست 78 میں یہ اتحاد آمرانہ حکومت میں شامل ہوکر ختم ہوگیا۔

1981 ایم آرڈی کا قیام

جنرل ضیاء الحق نے 14 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی۔ بظاہر تو یہ سب کچھ عدالتی کارروائی کے نتیجے میں ہوا تھا، مگر یہ بات سب پر عیاں ہے کہ عدالتی فیصلے کے پیچھے کون تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جان بچانے کے لیے تمام اسلامی ممالک نے اپنی بھرپور کوششیں کی تھیں لیکن جنرل ضیاء الحق بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ 3 مارچ1979 ہی کو کرچکے تھے، جب انہوں نے ممتاز بھٹو کو پیغام بھجوایا تھا کہ بھٹو کو جس قبرستان میں دفن کرنا ہے انہیں وہ جگہ بتادی جائے۔ بھٹو کی پھانسی، جسے عدالتی قتل کا نام دیا گیا، کے بعد پیپلزپارٹی نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کی بھرپور کوشش کی، لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔

6 فروری 1981 کو ایم آرڈی (تحریک بحالی جمہوریت) کے نام سے نیا سیاسی اتحاد وجود میں آیا۔ ایک مرتبہ پھر آپس میں نظریاتی اختلاف رکھنے والی 9 جماعتیں اس اتحاد میں شامل تھیں، جن میں تحریک استقلال، پاکستان ری پبلکن پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، این ڈی پی، جمعیت علمائے پاکستان، مسلم لیگ ، مسلم کانفرنس، نیشنل لبریشن فرنٹ اور مزدور کسان پارٹی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس میں شمولیت اختیار کی اور 1984 میں عوامی تحریک بھی ایم آرڈی کا حصہ بن گئی۔ ایم آرڈی نے83 سے آئین کی بحالی، بلاتاخیر انتخابات کرانے کے لیے جنرل ضیاء الحق پر دباؤ بڑھانا شروع کیا۔ ایم آرڈی کی جدوجہد کا اصل مرکز صوبہ سندھ تھا۔

لیکن ضیاء آمریت کے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے سیاسی کارکنوں کا قتل، گرفتاریاں، کوڑوں کی سزاؤں کی وجہ سے ایم آرڈی کی تحریک کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کی وجہ سے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کروانے کا عندیہ دیا۔ 1985 میں غیرجماعتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ ایم آرڈی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ 1986 میں اصغر خان ایم آرڈی سے الگ ہوگئے۔ اور پھر رفتہ رفتہ سیاست دانوں کے باہمی اختلاف اور 1988 میں انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایم آرڈی میں پھوٹ پڑگئی اور یوں ایم آرڈی کا خاتمہ ہوگیا۔

1988 اسلامی جمہوری اتحاد

آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمید گل بارہا اسلامی جمہوری اتحاد کی داغ بیل ڈالنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اکتوبر 1988 میں اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام عمل میں آیا۔ اس انتخابی اتحاد میں مسلم لیگ (فدا گروپ) این پی پی (جتوئی)، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (درخواستی)، جمعیت اہل حدیث (لکھوی)، حزب جہاد، جمعیت مشائخ پاکستان، آزاد پارلیمانی گروپ، نظام مصطفی پارٹی، خاک سار تحریک اور مسلم لیگ (جونیجو) شامل ہوئیں۔ 8 اکتوبر 1988 کو ایک نیا انتخابی اتحاد ’’پاکستان عوامی اتحاد‘‘ کے نام سے وجود میں آیا، لیکن یہ قائم نہ رہ سکا۔

10 اکتوبر 1988 کو نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے نام سے ایک نیا اتحاد وجود میں آگیا۔ اس نئے اتحاد میں مسلم لیگ (زہری)، پاکستان مسلم محاذ، تحریک تعمیر پاکستان، پاکستان لبرل پارٹی اور جیوے پاکستان پارٹی شامل تھیں۔ انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی زیر قیادت پاکستان پیپلز پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے کام یاب ہوگئی۔ اس اتحاد کے مدمقابل اسلامی جمہوری اتحاد صرف55 نشستیں حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

فوٹو: فائل

کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی

نواب زادہ نصر اﷲ خان نے مذکورہ نیا سیاسی اتحاد پاکستان پیپلز پارٹی جس کی قیادت بے نظیر بھٹو کر رہی تھیں کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ اس اتحاد میں اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔ 6 اگست 1990 کو بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد غلام مصطفی جتوئی نگراں وزیر اعظم بنائے گئے اور یہ اتحاد ختم ہوگیا۔

1990 اسلامی جمہوری اتحاد‘ پیپلز ڈیموکریٹک الائنس

پیپلز ڈیموکریٹک الائنس پیپلزپارٹی کا مرہون منت تھا۔ اس اتحاد کے مدمقابل اسلامی جمہوری اتحاد تھا۔ پی ڈی اے میں پیپلزپارٹی، تحریک استقلال، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور مسلم لیگ (قاسم گروپ) شامل تھا۔ چوںکہ متحدہ اپوزیشن کے سابق سربراہ اور نگراں وزیراعظم غلام مصطفی جتوئی کے زیرسایہ کئی شخصیات انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا ۔ آئی جے آئی نے 106 نشستیں حاصل کی تھیں۔ انتخابات کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے ترجمان خورشید محمود قصوری نے الزام عاید کیا کہ 90 کے انتخابات میں 70 نشستوں پر بدترین دھاندلی کی گئی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ آئی جے آئی کی کام یابی کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک الائنس تحلیل ہوگیا۔ اصغر خان علیحدہ ہوگئے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بننے کے بعد شدید ترین اختلافات کا شکار ہوگیا اور جماعت اسلامی نے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ اس طرح اسلامی جمہوری اتحاد کا قصہ تمام ہوگیا۔

1993 میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کا دوبارہ ظہور

10 ستمبر 1990 کو پیپلز ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آیا تھا۔ 1990 میں اس اتحاد نے صرف 44 نشستیں حاصل کی تھیں، لیکن 1993 کے انتخابات میں پی ڈی اے 86 نشستیں حاصل کرکے حکومت تشکیل دینے میں کام یاب ہوگیا۔ 1993 میں نواز حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس طرح مسلم لیگ (نواز) اور مسلم لیگ (جونیجو) وجود میں آئیں۔

1998 پاکستان عوامی اتحاد کا قیام

3 فروری1997 کے انتخابات میں نوازشریف کی مسلم لیگ نے پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت کی حیثیت حاصل کرلی۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادی صرف 18 نشستیں حاصل کرسکے۔ 11 مارچ 1998 کو نواز حکومت کے خلاف نیا اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے نام سے وجود میں آگیا۔ پاکستان عوامی اتحاد میں 15 جماعتیں شامل تھیں اور ان کا یک نکاتی ایجنڈا نواز حکومت کا خاتمہ تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری اس اتحاد کے صدر تھے۔ اس اتحاد میں پاکستان پیپلزپارٹی بھی شامل تھی۔ طاہرالقادری نے پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں سے اختلاف کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور نواب زادہ نصراللہ خان پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بن گئے۔

گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس

7 ستمبر 1999 کو نواز حکومت کے خلاف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا قیام عمل میں آیا۔ اس اتحاد میں عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ پاکستان عوامی تحریک اور عمران خان کی تحریک انصاف بھی شامل تھی۔ نواز حکومت کے جبری خاتمے اور پرویز مشرف کی فوجی آمریت کے قیام کے خلاف اکتوبر 2000 کو عوامی اتحاد بھی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا حصہ بن گیا۔

2000، بحالی جمہوریت اتحاد اے۔آر۔ڈی

3 دسمبر 2000 کو جنرل مشرف کی آمرانہ حکومت کے خلاف پاکستان مسلم لیگ نواز نے وسیع تر اتحاد میں شمولیت اختیار کی اور اسے ’’اتحاد برائے بحالی جمہوریت‘‘ اے آر ڈی کی شکل اور نام دیا گیا۔

2002 متحدہ مجلس عمل کی تشکیل

جنوری 2002 میں مذہبی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک انتخابی اتحاد تشکیل دیا۔ ان مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے اسلام (س)، جمعیت علماء پاکستان، جمعیت اہل حدیث (ساجد میر)، تحریک جعفریہ پاکستان اور جماعت اسلامی شامل تھیں۔ جمعیت اہل حدیث اختلاف کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل سے نکل گئی۔ متحدہ مجلس عمل سیاسی اتحاد سے انتخابی اتحاد میں تبدیل ہوگیا، جو 2008 کے انتخابات میں اپنے اثرات اور مقاصد کھو بیٹھا تھا۔ لیکن مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا۔

نیشنل الائنس 2002

6 مئی 2002 میں جنرل پرویز مشرف کی حمایتی جماعتوں نے نیشنل الائنس کی بنیاد ڈالی۔ اس اتحاد میں پاکستان عوامی تحریک، فاروق لغاری کی ملت پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، سندھ ڈیموکریٹک الائنس، نیشنل پیپلزپارٹی اور سندھ نیشنل فرنٹ شامل تھیں۔ اس اتحاد کے چیئرمین غلام مصطفی جتوئی اور جماعت اسلامی کی تشکیل کردہ پاسبان کے سابق راہ نما اور بعدازاں ملت پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے محمد علی درانی مرکزی سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ بعدازاں پاکستان عوامی تحریک نے نیشنل الائنس سے اپنا دامن چھڑالیا۔

دفاع پاکستان کونسل

2011ء میں مختلف مذہبی قوتوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے اور نیٹو رسد کی بحالی روکنے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (س) کے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں اتحاد کیا۔ جس کی دیگر جماعتوں میں جماعت الدعوۃ، جماعت اسلامی، اہلسنت والجماعت، انصار الامہ، جمعیت علمائے پاکستان، عوامی مسلم لیگ کے علاوہ اعجازالحق اور جنرل (ر) حمید گل شامل تھے۔ اس اتحاد نے افغانستان کے لیے نیٹو رسد کے خلاف ملک بھر میں جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم نیٹو رسد بحال ہونے کے بعد غیراعلانیہ طور پر یہ اتحاد غیر فعال ہوگیا۔

متحدہ دینی محاذ

2013ء کے انتخابات میں مشترکہ امیدواروں کے لیے مختلف مذہبی جماعتوں نے ’’متحدہ دینی محاذ‘‘ نامی اتحاد قائم کیا ہے، جو ایک انتخابی نشان پر انتخاب لڑ رہا ہے۔ اس اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام (س)، جمعیت علمائے اسلام (نظریاتی)، اہل سنت و الجماعت، جمعیت علمائے پاکستان (سواد اعظم) اور جمعیت اہل حدیث شامل ہیں۔

دس جماعتی اتحاد

سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں سے دو بہ دو مقابلے کی خاطر دس جماعتوں کی جانب سے مختلف نشستوں پر ہم آہنگی کے لیے ’’دس جماعتی اتحاد ‘‘ تشکیل دیا گیا ہے، جس میں مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (فنکشنل)، نیشنل پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جمعیت علمائے پاکستان، سنی تحریک، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، قومی عوامی تحریک اور سندھ ترقی پسند پارٹی شامل ہیں۔ یہ اتحاد مارچ 2013ء میں بنایا گیا۔ یہ جماعتیں اپنے اپنے انتخابی نشان پر انتخاب لڑ رہی ہیں۔ تاہم مختلف نشستوں پر ایک امیدوار کی حمایت کی جا رہی ہے۔

سندھ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ

سندھ میں61قومی اور 130صوبائی حلقے ہیں ۔ گذشتہ3دہائیوں سے سندھ کا ووٹ بنک پی پی پی اور ایم کیو ایم کے پاس ہے۔ دونوں جماعتیں2008کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی وفاقی اور صوبائی حکومت میں ایک دوسرے کی اتحادی رہی ہیں۔ ان انتخابات میں پی پی قومی اسمبلی کی 124 نشستوں کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی کی93 نشستیں جیت کر ملک اور صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی، جب کہ ایم کیو ایم نے قومی کی25اور سندھ اسمبلی کی51 سیٹوں پر کام یابی حاصل کی تھی، اے این پی نے دو صوبائی نشستیں اور مسلم لیگ فنکشنل کو8نشستں ملی تھیں۔

سندھ کے دیہی علاقوں میں قوم پرست اتحاد، مسلم لیگ فنکشنل اور کراچی میں جماعت اسلامی مذاکرات میں مصروف ہے۔ ایک اور اتحاد جس میں جے یو آئی (ف)، جے یو پی، مسلم لیگ ن، سنی تحریک اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نمایاں ہیں، اے این پی اور پیپلزامن کمیٹی بھی اس اتحاد کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔1997میں مسلم لیگ ن ، 2002میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے کراچی میں کچھ اہم نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی۔ گذشتہ ہفتے جماعت اسلامی کے کراچی مرکز ادارہ نور حق میں کئی گھنٹوں تک مذکورہ سیاسی جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے اجلاس ہوا لیکن بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگیا۔

خیبر پختونخوا میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ

خیبرپختونخوا قومی اسمبلی کی35اور صوبائی اسمبلی کی99نشستوں کے ساتھ تیسرا بڑا صوبہ ہے، جہاں ایک طرف اے این پی جیسی سیکولر جماعت پانچ سال اقتدار میں رہی ہے وہیں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی صورت میں ایک بڑی اکثریت مذہبی ووٹرز کی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سمیت دوسری پارٹیاں آئندہ انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذکورہ پارٹیوں سے مذاکرات کررہی ہیں۔

مختلف تجزیوں اور سرویز کے مطابق صوبے میں تحریک انصاف کا بہت بڑا ووٹ بینک بن چکا ہے، چناں چہ وہ بھی صوبے میں کام یابی کے لیے جماعت اسلامی سے جوڑ توڑ میں مصروف ہے، لیکن تادم تحریر دونوں جماعتوں میں اتحاد کی کوئی صورت نہیں بن سکی ہے، کیوںکہ بعض خبروں کے مطابق جماعت اسلامی صوبائی اسمبلی کے99میں سے نصف حلقوں پر اپنے امیدوار لانا چاہتی ہے اور جماعت اسلامی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے رجوع کرنے والی ہر پارٹی اس شرط کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

مسلم لیگ ن بھی جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے مسلسل رابطے میں ہے، لیکن دونوں جماعتوں کی طرف سے پنجاب میں اپنے حصے کا تقاضا نواز لیگ کو قبول نہیں، یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی کے چاہنے کے باوجود مسلم لیگ ن اور جے یو آئی میں انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ دوسری طرف اے این پی بھی جے یو آئی کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے اور اس سلسلے میں اندرون خانہ بات چیت بھی جاری ہے۔ اے این پی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے پی پی کی نسبت جے یو آئی کو فوقیت دے رہی ہے۔

پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ

پنجاب میں قومی اسمبلی کی148اور صوبائی کی297 نشستیں ہیں۔ پنجاب سے اکثریت سے منتخب ہونے والی پارٹی کے لیے حکومت بنانا زیادہ مشکل نہیں، یہی وجہ ہے کہ ساری بڑی پارٹیاں پنجاب پر توجہ دے رہی ہیں۔

2008کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز169صوبائی نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی، جب کہ پیپلزپارٹی107صوبائی نشستوں کے ساتھ دوسرے اور ق لیگ84نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی، جب کہ پی پی، ن لیگ اور ق لیگ نے بالترتیب124،91اور54قومی اسمبلی کی نشستیں جیتی تھیں۔

لیکن اب تحریک انصاف ایک اہم پارٹی بن کر سامنے آئی ہے۔ دونوں جماعتیں (پی پی اور ق لیگ) اس لحاظ سے کافی مطمئن ہیں کہ تحریک انصاف نواز لیگ کے ووٹ بینک کو متاثر کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں سب سے بڑی سیٹ ایڈجسٹمنٹ انہی دونوں جماعتوں کے درمیان ہورہی ہے، پنجاب میں100قومی اسمبلی کی نشستوں پر دونوں جماعتوں میں اتفاق ہوچکا ہے، اسی تناسب سے صوبائی نشستوں پر بھی دونوں جماعتوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوچکی ہے۔

جے یو آئی اور جماعت اسلامی سیٹ ایڈجسمنٹ کے لیے کوشاں ہیں، لیکن نواز لیگ اور تحریک انصاف کے مطابق جماعت اسلامی اپنے حصے سے زیادہ طلب کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔

بلوچستان میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ

بلوچستان میں قومی اسمبلی کی14اور صوبائی کی 51نشستیں ہیں، بلوچستان واضح طورپر پشتون اور بلوچ بیلٹ میں تقسیم ہے۔

صوبے میں امن وامان کی صورت حال بہت عرصہ سے خراب ہے اور خیال کیا جارہا تھا کہ شاید ماضی کی طرح اب بھی سیاسی قوتیں انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں، لیکن بلوچستان میں قوم پرست بلوچ جماعتوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کے بعد یہ خدشات دم توڑچکے ہیں۔ اختر مینگل نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ بی ایل اے جیسی علیحدگی پسند تنظیمیں پارلیمانی سیاست کا راستہ روکنے میں مصروف ہیں۔ بلوچستان میں2008کے انتخابات میں پی پی پی نے صوبائی اسمبلی کی12نشتیں حاصل کی تھیں اور مسلم لیگ ق19نشستوں کے ساتھ سر فہرست تھی۔ جے یو آئی نے10نشستیں، بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)7اور نیشنل پارٹی صرف 1نشست پر کام یابی حاصل کرسکی تھیں، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے4نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی۔

بلوچستان کی تقریباً تمام نشستیں آج بھی موروثی ہیں، جن میں اکثر نوابوں اور سرداروں کی ہیں، بلوچستان میں دور دور تک کسی سیاسی اپ سیٹ کا امکان نہیں ہے۔ چند نشستوں پر تبدیلی کے بعد وہی چہرے جو کبھی پی پی اور کبھی ق لیگ کے نام پر اسمبلی میں تھے، آئندہ مسلم لیگ ن یا کسی اور جماعت کے نام پر دوبارہ منظر عام پر ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کے نواب ثناء اﷲ زہری کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے ان کی جماعت کی جے یو آئی، پشتون خوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، اور دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت جلد مکمل ہوجائے گی، جب کہ پی پی پی اور مسلم لیگ ق کے درمیان بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فارمولا طے پانے کی اطلاعات ہیں۔

2008 کے انتخابات میں ووٹوں کا تناسب

2008کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی32نشستیں2ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی گئیں، جب کہ60نشستیں6ہزار اور97نشستیں10ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتی گئیں۔ ان97نشستوں میں سے66نشستیں پنجاب میں ہیں۔ اس لیے پنجاب میں ہونے والی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سب سے اہم ہوگی، مسلم لیگ نواز کو جہاں ایک طرف پی پی پی اور مسلم لیگ ق کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے خطرہ ہے، وہیں تحریک انصاف بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات میں مصروف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔