شرطیہ نئے پرنٹوں والی پرانی فلم

طاہر سرور میر  پير 13 اگست 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

میں بچپن میں میجر راجہ عزیز بھٹی شہید سے بہت متاثر تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں تیسری یا چوتھی کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا اور پہروں معاشرتی علوم کی کتاب کھول کر راجہ شہید کی تصویر کو دیکھتا رہتا۔ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھاکہ جب جوان ہوں گا تو راجہ شہید کی طرح وطن پر اپنی جان نچھاور کر کے اپنا پاکستانی ہونے کا حق ادا کروں گا۔ ساتویں جماعت تک پہنچتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور4 اپریل 1979 کو جب جج جرنیل گٹھ جوڑ کے تحت بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا تو میں اپنے شہر گجرانوالہ میں احتجاج کرنے والوں میں شریک تھا۔

میری نسل کے پاکستانی بچوں کا مستقبل کیا ہو سکتا تھاجنہیں ان کے کھیلنے کودنے کے دنوں میں ہی شہر شہر احتجاج کے لیے ’’اولمپکس‘‘ کا اہتمام کر دیا گیا تھا۔ جو خواتین و حضرات آج 40 اور 50 کے پیٹے میں ہیں،انہیں اپنا لڑکپن یاد ہو گا کہ بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد کس طرح سے ہم پاکستانیوں نے ضیاء الحق کے جبر کا ایک طویل دور جھیلا۔ ذاتی طور پر مجھے تو جنرل ضیاء الحق کا دور اپنے کئی جنموں پہ بھاری لگا۔ ان دنوں میںاکثر سوچا کرتا تھا کہ کیا کبھی یہ دور ختم بھی ہو گا؟ اگر ہوگا تو کیا میں اس وقت دنیا میں ہوں گا؟

پھر وہ دن بھی آیا جب بہاولپور کے فوجی اڈے سے اڑنے والا سی ون تھرٹی’’ پاکستان ون‘‘ نامی جہاز اپنی پرواز کے کچھ دیر بعد ہی بستی لال کمال پر فنا کی گھاٹ اتر گیا۔ لیکن تب تک بڑی دیر ہو چکی تھی، ہمارے مقدر میںافغان جہاد کے نام پر ایک ایسی جنگ لکھ دی گئی تھی ’’ہاف ٹائم‘‘ کے بعد جس کا نام دھشت گردی کی جنگ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق صاحب جو فوجی انقلاب لائے تھے، وہ منتخب وزیراعظم بھٹو کی حکومت کے خلاف تھا اور وہ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین تھے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کی بیوہ نصرت بھٹو کو پارٹی کی چیئر پرسن اور بینظیر بھٹو کو شریک چیئر پرسن بنایاگیا۔

دونوں کی زندگیوں میں اس ملک میں ان پر کیا، کیا ظلم ڈھائے گئے یہ الگ، الگ طویل داستانیں ہیں، دونوں ماں بیٹیوںکی موت جس طرح ہوئی وہ الگ المیے ہیں۔ محترمہ کو اسی شہر (راولپنڈی) میںسر عام قتل کر دیا گیا جہاں ان کے والد کو پھانسی دی گئی۔ محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی میںان پر ریاستی اداروںنے بدترین تشدد کیا۔ شوہر اور دو بیٹوںکے قتل کے بعد وہ اپنے ہوش کھو بیٹھیں تو ان کی اس بیٹی کو بھی قتل کر دیا گیا جسے اس ملک کے عوام نے دومرتبہ وزیراعظم منتخب کیاتھا۔ عوام نے بھٹو اور اس کے بچوں کو ووٹ دیا اور مقتدر حلقے انہیں موت دیتے رہے۔ یہ کیسی دشمنی ہے؟ اس ملک کے غریب عوام بھٹو اور اس کے بچوں کو اپنا مسیحا سمجھتے رہے اورمقتدر حلقے انہیںموت کا فیصلہ سناتے رہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو دو مرتبہ اسٹبلشمنٹ نے سازشیں کر کے اٹھاون ٹو بی کی تلوار سے کاٹ ڈالا ۔ جنرل ضیاء کی موت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے میدان میںاتر آئے… جی ہاں… یہ وہی جنرل مرزا اسلم بیگ ہیں جنہوں نے چیف آف آرمی ہوتے ہوئے منتخب وزیراعظم کے خلاف آئی جے آئی قائم کی اور ’’قومی سلامتی ‘‘کے اس منصوبے میںانہیں اس ملک کے صدر اسحاق خان کی معاونت بھی حاصل تھی۔ ضیاء الحق نے پیپلزپارٹی کا کریاکرم (آخری رسومات) کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈہ آزمایا، وہ بھٹو کے ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی ’’ستی‘‘ کرنا چاہتے تھے مگر یہ زندہ رہی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے ضیاء الحق کے گیارہ سال میںپیپلز پارـٹی کے جھنڈے کے تین رنگ یعنی کالا،لال اورسبزپر غیر اعلانیہ پابندی تھی۔ یہ پابندی اس قدر شدید تھی کہ گلی محلے اور بازار کے رنگ ریز خواتین کے دوپٹے رنگتے ہوئے بھی یہ احتیاط کرتے تھے کہ مبادا یہ تین رنگ کسی دوپٹے میںیکجا ہو کر مارشل لا کے جاہ و جلال کو لکاریں۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد پیپلز پارٹی کو اس کے انجام تک پہنچانے کا ’’ٹرمینیٹر ۔ٹو ‘‘ مشن کئی ایک نے سنبھالا مگر کوئی بھی آج تک مکمل کامیابی حاصل نہیںکر سکا۔

لالہ سدھیر اور سلطان راہی کی طرح ہمارے اس وقت کے بعض ’’غیر جمہوری ہیروز‘‘ نے مرنے والے کی قبر کی قسم کھا کر جنرل ضیاء الحق کا مشن جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا مگر جلد ہی وہ جمہوری اسٹارز کہلانے لگے۔ لگ بھگ گذشتہ 43 سال سے غیر جمہوری قوتیں پیپلز پارٹی اور اس کے ووٹ کو پاکستان سے ختم کرنے کے مشن پر ’’تعینات‘‘ ہیںمگر اسے مکمل کامیابی حاصل نہیںہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے دشمنوں نے اس سیاسی جماعت کو اس کی نظریاتی اساس سے دور کر دیا ہے مگر اس جنگ میں چیئر مین بھٹو، بے نظیر بھٹو اور دو بیٹوں شاہ نواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی قبریں اس پارٹی کو عوام میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بھٹو، ان کی بیٹی اور بیٹوںکو قتل کیوں کیا گیا؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے اور یہ سوال بھی کہ ہمارے دیگر سیاستدانوں سمیت ہمارے تازہ اور غیر سیاسی ’’رہنما‘‘ سبھی اپنے بیٹوں کے تمام تر ’’کارناموں‘‘ سمیت اس ملک میں ’’انقلاب‘‘ لانے پر ’’ تعینات‘‘ ہیں مگر بھٹو اور ان کے بچوں کو قتل کر دیا گیا۔

کیا سینیٹر فیصل رضا عابدی کے بعد گورنر کھوسہ، بیرسٹر اعتزاز احسن اورعاصمہ جہانگیر کو بھی توہین عدالت کے الزام میں بلا لیا جائے گا؟ عاصمہ جہانگیر ایک بہترین ساکھ رکھنے والی وکیل ہیں جو حق بات کہنے کی عادی ہیں۔ اعتزاز احسن وہ کردار ہیںجو پاکستان میںآزادعدلیہ کی تحریک کے ’’ڈرائیور‘‘ تھے۔ زمرد خان جو اس وقت چیئر مین بیت المال ہیں،وہ بھی اس تحریک کے اہم کردار تھے۔ سردار لطیف کھوسہ وہ وکیل ہیںجن کا خون اس تحریک میں سب سے پہلے زمین پر گرا اور تو اور تحریک عدلیہ بحالی کے میڈیا سیل کے فرائض رضاکارانہ طور پر پیپلز پارٹی کے ذکریا بٹ سر انجام دے رہے تھے جو اس جماعت کے اطلاعات و نشریات کے سیکرٹری تھے۔

مجھے 12مئی 2007 کا وہ دن بھی یاد آ رہا ہے جب اعتزاز احسن کو ان کے رہنماوں کے ساتھ کراچی ائیر پورٹ پر روک کر50 سے زائد پاکستانیوں کا قتل عام کر دیا گیا تھا۔ عدلیہ کو آزاد کرانے کی تحریک کے دوران پیپلز پارٹی کے 16سے زائد کارکنوں نے اسلام آباد میںاپنی جانیں نچھاور کی تھیں۔ بھٹو اور ان کے بچوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا جو آج بھی کٹہرے میںکھڑی ہے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ 43 سال سے زیر عتاب ہے لہذا وطن عزیز میںکسی ’’نو آموز انقلاب‘‘ کا عملی مظاہرہ اگر اسی مرحومہ و مغفورہ سیاسی جماعت پر ہی دیکھنے کو ملے تو سوچا جا سکتا ہے کہ یہ ’’تازہ فلم‘‘ بھی اسی سیریز کا کوئی اگلا پارٹ ہے جسے شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ نمائش کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔خدا کرے میرے ملک میںایسے حالات پیدا ہوںکہ اس ملک کے بچے جن شخصیات کے رومان میںگرفتار ہوں وہ زندہ رہیںاورجنہیںوہ اپنا ہیرو مان لیںوہ اندر اورباہر سے اصل ہیرو بھی ہوں… آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔