بروقت انتخابات کیلئے تمام اداروں اور سیاسی طاقتوں کو مل کر چیلنجز سے نمٹنا ہوگا

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 16 جولائی 2018
دہشت گردی کی حالیہ لہر انتخابی ماحول خراب کرنے کی سازش ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

دہشت گردی کی حالیہ لہر انتخابی ماحول خراب کرنے کی سازش ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

انتخابات 2018ء کے قریب آتے ہی ملک میں اچانک دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آگئی ہے اور الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کا ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔

جمعہ کی صبح خیبرپختونخوا کے شہر بنوں میں جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنوں پر بم حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔ادھر بلوچستان کے علاقے مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار سراج رئیسانی کے قافلے پر خودکش حملے میں سراج رئیسانی سمیت 130 سے زائد افراد شہید جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ چند روز قبل خیبرپختونخوا کے سب سے بڑے شہر پشاور کے علاقے یکہ توت میں عوامی نیشنل پارٹی کی انتخابی مہم کے دوران خودکش حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں اے این پی کے شہید رہنما بشیر بلور کے صاحبزادے اور انتخابی امیدوار ہارون بلور سمیت 22 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

ہارون بلور کارنر میٹنگ کے لئے جارہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا جبکہ جے یو آئی (ف) کے قافلے پر بھی اس وقت بم سے حملہ کیا گیا جب شرکائے قافلہ انتخابی مہم کے سلسلے میں ایک جلسے میں شرکت کرنے کے لئے حوید کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ انتخابات سے چند دن قبل انتخابی مہمات اور امیدواروں پر قاتلانہ حملے ظاہر کر رہے ہیں کہ شرپسند عناصر ملک میں پرامن انتخابات کی راہ میں رکاوٹ اور عوام میں ابہام و انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ایک طرف دہشت گردی کے واقعات ہیں جبکہ دوسری جانب میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی وطن واپسی، گرفتاری، جیل منتقلی اور مسلم لیگ (ن) کی استقبالی ریلی نے ملکی سیاسی ماحول گرمائے رکھا۔ اس سارے منظر نامے کو دیکھتے ہوئے ’’عام انتخابات اور امن و امان کی صورتحال‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیاجس میں مختلف ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر فاروق حسنات (سیاسی تجزیہ نگار و ماہر امور خارجہ)

گزشتہ چند ماہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر تھی۔ فوج نے انتہائی کامیاب آپریشن کے ذریعے طالبان اور القاعدہ کی کمر توڑ دی تھی اور شمالی وزیرستان میں حالات پر کافی مشکل لڑائی کے بعد قابو پالیا تھا۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ داعش ان بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے جو افغانستان میںموجود ہے۔ داعش نے دو بڑی کارروائیاں کی ہیں جو دوردراز علاقوں میں ہوئیں اور ان کے بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ اب یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بڑا امتحان ہے کہ وہ اس کا لنک نکالیں اور اگر کہیں داعش کا نیٹ ورک بن رہا ہے تو اسے ختم کریں۔ امید ہے کہ ہماری قابل انٹیلی جنس ایجنسیاں ان پر قابو پالیں گی اور معاملات بہتر ہوجائیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انتخابات ہوسکیں گے یا نہیں؟ ابھی تک تو ایسا نظر آرہا ہے کہ انتخابات 25 جولائی کو ہی ہوں گے مگر اگر سکیورٹی کے حالات خراب ہوئے اور بم دھماکوں کی لہر چل پڑی تو پھر انتخابات ملتوی ہونے کا خدشہ ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے میں کسی اندرونی سازش کو نہیں مانتا۔یہ بات ہم خود ہی کرتے ہیں اور کسی معاملے کی سمجھ نہ آئے تودوسروں پر الزام تراشی شروع کردیتے ہیں۔ بیرونی طاقتوں کے حوالے سے دو سوال ہیں کہ وہ مداخلت کیوں کریں گی اور کیوں نہیں؟ وہ ہماری دشمن ہیں اور یہ ہمارے لیے چیلنج ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں اور کتنی فعال ہیں؟ بات صرف کامیاب وزیرستان آپریشن پر ختم نہیں ہوتی بلکہ دیگر مسائل بھی موجود ہیں اور افغانستان کے عدم استحکام کا اثر بھی ہم پڑے گا۔ امید ہے انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوں کے خاتمے میں ضرور کامیاب ہوں گی۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں بشمول پاکستان مسلم لیگ (ن) مل کر انتخابات کا انعقاد یقینی بنائیں کیونکہ ملک کو خاص سمت میں چلانے کا راستہ انتخابات ہیں تاکہ نئی حکومت آئے اور جمہوری عمل مکمل ہو۔ یہ جمہوریت کے تسلسل کا تیسراالیکشن ہے ، اب تیسری سیاسی حکومت آئے گی کیونکہ ہم سیاسی ڈگر پر چل نکلے ہیں اور اب سیاسی جماعتوں میں بھی مزید پختگی آئے گی۔ یوں تو سارے ہی انتخابات اہم ہوتے ہیں مگر 2018ء کا الیکشن ہماری ملکی تاریخ کے اہم ترین ہے۔ اس میں خاص بات یہ ہے کہ 3 مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا، پھر انہیں اور ان کی بیٹی کو احتساب عدالت نے سزا دیکر مجرم ڈکلیئر کردیا۔ یہ ایسا عمل ہے جس سے پاکستان کے سیاسی عمل نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے اور اس کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں ایک نئی جماعت ہے، 2013ء کے انتخابات میںا س نے کم نشستیں حاصل کی تھیں مگر اب ان دونوں جماعتوں کے درمیان پنجاب میں سخت مقابلہ ہوگا اور کہا جاتا ہے کہ جو جماعت پنجاب میں حکومت قائم کرتی ہے، مرکز میں بھی اس کی ہی حکومت بنتی ہے۔ پیپلز پارٹی قومی جماعت ہے مگر اب وہ صرف اندرون سندھ تک محدود وکر رہ گئی ہے جبکہ کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بھی اب دیکھنا یہ ہے کہ وہاں کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نشانہ بنائے جانے کے الزامات لگا رہی ہے مگر نواز شریف کے معاملے پر (ن) لیگ میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اس جماعت کے جو امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنی نشستیں جیتتے ہیں اور اس جماعت کا مستقبل کیا ہوتاہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار علاقائی جماعتیں بھی ہیں مگر قومی جماعتوں کا موجود ہونا ایک مثبت نشان ہوتا ہے۔عام انتخابات کے بعد ایک مخلوط حکومت بنے گی جو اچنبے کی بات نہیں ہے کیونکہ ایسی حکومتیں پہلے بھی بنتی رہی ہیں۔ ایسی حکومتوں کو صوبائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر چلنا پڑتا ہے جس سے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے تاہم قومی جماعتوں کا ملکی سیاست میں کردار لازمی ہونا چاہیے ۔ یہ جمہوریت کے لیے مثبت ہوگا کہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی، تینوں سیاسی میدان میں موجود رہیں۔ اگرچہ مذہبی جماعتیں بھی قومی سطح پر موجود ہیں مگر ان کا سیاست میں کوئی بڑا کردار نہیں ہے کیونکہ یہاں نمبر گیم ہوتی ہے اور زیادہ نشستیں جیتنے والا ہی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

عام انتخابات بروقت ہونے چائیں تاکہ سیاسی ابتری کا خاتمہ ہوسکے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہے مگر اب اچانک سے خیبرپختونخوا ور بلوچستان میں باقاعدہ حملے شروع ہوگئے ہیں جن کا مقصد عبوری حکومت کو کمزور کرنا ہے۔ یہ حکومت صرف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہیں بنائی جاتی ہے اور اس میں حکومت چلانے والے تجربہ کار لوگ نہیں ہوتے لہٰذا انہیں کمزور کرکے الیکشن ملتوی کرانے کی سازش کی گئی ہے تاکہ یہاں مجبوراََ ایک ایسا سیٹ اپ آجائے جو اندرونی و بیرونی طاقتوں کو قبول نہ ہو، پھر یہ الزام لگایا جائے کہ انتخابات ملتوی کرانے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے اور پاکستان ابتری کا شکارہو جائے۔ اسرائیل، امریکا اور بھارت کا گٹھ جوڑ ہے، وہ پاکستان کو ابتری کا شکار بناکر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ داعش افغانستان میں نئی نہیں ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف جب پہلی مرتبہ امریکا کے دورے پر گئے تو وہاں انہوں نے داعش کے حوالے سے ایک بیان دیا جس پر ہماری حکومت نے غور نہیں کیا اور میڈیا نے اس کا ٹھیک طریقے سے جائزہ نہیں لیا۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے کہا تھا کہ ہم داعش کو اس خطے میں قدم جمانے نہیں دیں گے۔ اس وقت کسی نے بھی اس خطے میں داعش کی بات نہیں کی تھی اور دنیا کو ان کی بات عجیب لگی۔ اس بیان کی وجہ یہ تھی کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو نظر آرہا تھا کہ امریکی افواج، نیٹو اور افغان فورسز طالبان کے سامنے دم توڑ چکی ہیں، وہ ان کا مقابلہ نہیں کرپارہیں لہٰذا طالبان کی طاقت کو کم کرنے اور ان سے لڑنے کیلئے داعش کو کھڑا کیا جارہا ہے۔ طالبان وہاں پر مضبوط ہیں اور افغانستان کی صورتحال کا نقصان پاکستان کو بھی ہورہا ہے۔ تورا بورا کا مقام انتہائی اہم ہے اور وہاں داعش آکر بیٹھ گئی۔ یہ ایک حیران کن بات ہے کیونکہ وہ ایسی جگہ ہے کہ اگر وہاں کسی کا قبضہ ہو تو اس سے جگہ لینا انتہائی مشکل ہے، غور طلب بات یہ ہے کہ طالبان سے علاقہ لے کر داعش کیسے وہاں آگئی؟ اسی قسم کاسلسلہ افغانستان کی مشرقی سرحد کے علاقوں میں بھی ہے۔ حامد کرزئی کا ایک بیان بھی موجود ہے کہ ڈنمارک کے ہیلی کاپٹرز لوگوں کو لے کر آئے اور انہیں مدد فراہم کی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ڈنمارک کے ہیلی کاپٹرز وہاں کیسے آئے ،کس کی سپورٹ سے آئے اور کس کے لیے آئے؟ افغانستان میں ایک گندا کھیل کھیلا گیا ہے جس کا نقصان پاکستان کو بھی ہورہا ہے۔ ایک ہفتہ قبل پاکستان میں 4ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان، ایران، روس اور چین کے انٹیلی جنس سربراہان شریک ہوئے۔ اس میں خطے کی صورتحال پر تفصیلی بات ہوئی اور داعش کا کردار بھی زیر بحث لایا گیا۔ اب اس کے بعد سے یہاں بم دھماکوں میں تیزی آگئی ہے۔ انتخابات کے قریب اس طرح کی تخریب کاری کا مقصد پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنا اور ابتری پیدا کرنا ہے۔ تمام اداروں اور سیاسی طاقتوں کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس چیلنج سے نمٹنا ہوگا۔ نواز شریف کی گرفتاری کے لیے وطن واپسی پر لاہور میں جو کچھ ہوا، اگر وہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوجاتا تو دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتا۔ نواز شریف کی واپسی پر پنجاب حکومت نے جو اقدامات کیے میں نے اس پر ٹویٹ کیا تھا کہ حکومت نے “Over react” کیا ہے، میں اس فورم کے ذریعے ان سے معذرت کرنا چاہتا ہوں کیونکہ انہوں نے دہشت گردی کے پیش نظر معاملات کو بہتر طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی تاکہ دشمن اپنے ٹارگٹ میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس وقت سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ عبوری حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کریں تاکہ پر امن، صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہو اور ملک آگے بڑھ سکے ۔میں نہیں سمجھتاکہ 3مرتبہ وزیراعظم منتخب ہونے والے نوازشریف ایسا جان بوجھ کر کررہے ہیں لیکن اگر وہاں کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوجاتا تو دشمن کو افراتفری پھیلانے کا ایک اور موقع مل جاتا۔ اگر الیکشن ملتوی ہوجاتے ہیں یا نہیں ہوتے تواس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئیں گے کہ یہ سب کچھ انہیں ہٹانے کیلئے اور ایک نمائندہ حکومت کو اقتدار میں لانے کیلئے کیا۔ میرے نزدیک حالات کی ذمہ داری کسی نہ کسی طرح نواز شریف پر بھی آتی ہے کہ ان کا بیانیہ اس سے لنک کرتا ہے۔ جہاں تک الیکشن میں حصہ لینے کی بات ہے تو شخصیت کے بجائے جماعت کے حوالے سے سوچیں کیونکہ نواز شریف ایک شخص ہے مسلم لیگ (ن) نہیں ہے ۔ ان کی جماعت کو الیکشن لڑنے سے کسی نے نہیں روکا، ملک بھر سے ان کے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے جو امیدوار کسی دوسری جماعت میں گئے ہیں وہ پہلے بھی ادھر ادھر جاتے رہے ہیں، انہیں کسی کے کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو الزامات لگائے جارہے ہیں ان کا ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ مسلم لیگ (ن) کو الیکشن نہیں لڑنے دیا جارہا میرے نزدیک انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف پر جرم ثابت ہوچکا، وہ جیل جاچکے ہیں مگر اس سزا کو سیاسی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اس کا نقصان ان کی جماعت کو ہورہا ہے۔ نواز شریف کو چاہیے کہ خود کو جماعت سے الگ کرلیں اور جماعت کو منظم ہونے دیں۔

بیرسٹر محمد علی گیلانی (چیئرمین ہیومن سیفٹی کمیشن آف پاکستان)

اس وقت کا ہاٹ ایشو نواز شریف ہیں جہاں سے شاخیں نکل رہی ہیں۔ نواز شریف پاکستان کے طاقتور شخص ہیں جو اس وقت قانون کے نرغے میں ہیں۔ انہیں جس دن سے عام آدمی کی طرح کیس کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسی دن سے ملک میں ہلچل ہے۔ وہ عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنارہے ہیں اور ان کے مخالف بیانیے کو فروغ دے رہے ہیں۔نواز شریف ثابت نہیں کرپائے کہ 3 ہزار کروڑ روپے کہاں سے آئے اور اس پر عدالت نے انہیں سزا دی۔ نوازشریف کے عالمی سطح پر تعلقات ہیں اور ان کی جڑیں امریکا، بھارت اور افغانستان میں بھی ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں خواجہ آصف کے ذریعے حالات خراب کرنے اور عالمی طاقتوں کی سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ملک کو نقصان ہوا۔ میرے نزدیک حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے بھی کسی نہ کسی طرح نواز شریف کے معاملے سے ملتے ہیں۔ نواز شریف عالمی طاقتوں کے منظور نظر ہیں۔ بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات سب کے سامنے ہیں اور مودی کا ان کے گھر بغیر پروٹوکول اور اطلاع کے آنا معمولی نہیں ہے۔ کلبھوشن یادیو نے گرفتاری کے بعد بتایا کہ یہاں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘ کا نیٹ ورک موجود ہے۔ اگرچہ ہماری قابل انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے مگر افغانستان میں ’’را‘‘کا مضبوط نیٹ ورک موجود ہے۔ میرے نزدیک نواز شریف کوبچانے کیلئے پریشر ڈالا جارہا ہے کہ اگر انہیں سزا ہوئی تو دہشت گردی کی لہر پھیل سکتی ہے۔ بم دھماکوں میں ہائی پروفائل لیڈر مارے جارہے ہیں، اس کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا اور انتخابات ملتوی کرانا ہے۔ ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ ہمارے سکیورٹی ادارے مضبوط ہیں اور اس طرح کی سازشوں کو روکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ آخری حملہ تھا اب اس کے بعد دہشت گردوں کو کامیابی نہیں مل سکے گی۔ امریکا کی جانب سے بھی دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ نواز شریف کو محفوظ راستہ دیا جائے مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس ملک میں احتساب کی ہوا چل چکی ہے، اب احتساب کا بول بالا ہوگا اور کوئی بھی کرپٹ شخص قانون سے نہیں بچ سکے گا۔ نواز شریف پیسہ بیرون ملک منتقل کررہے تھے اور اس ملک کو غربت میں دھکیل رہے تھے، اب ایسا نہیں ہوگا اور ملکی دولت کسی کو لوٹنے نہیں دی جائے گی بلکہ لوٹی ہوئی دولت بھی واپس لائی جائے گی۔ نواز شریف ایک مجرم کی حیثیت سے ملک واپس آئے مگر انہیں ہیرو بنانے کی کوشش کی گئی۔ وہ 3 مرتبہ وزیراعظم رہے اور اب بھی اقتدار کے لالچ میں واپس آئے ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں نوازشریف کو ’’این آر او‘‘ مل گیا اور بعدازاں وہ وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف بہادر نہیں ہیںبلکہ وہ عالمی طاقتوں سے گارنٹی لیکر آئے ہیں کہ وہ انہیں ریلیف دلوائیں گی ورنہ وہ 10 برس کی سزا کاٹنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ نواز شریف کی واپسی پر عبوری حکومت نے جو سکیورٹی انتظامات کیے وہ بہترین تھے، ن لیگ کی جانب سے حالات خراب کرنے کی کوشش کی مگر لوگ گھروں سے نہیں نکلے اور ان کی سازش کامیاب نہیں ہوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔