واٹر ڈرینیج پروجیکٹ تکمیل کا منتظر

رحیم بخش جمالی  جمعرات 13 جون 2013
3 سالہ منصوبہ پانچ سال بعد بھی انتظامیہ کی راہ تک رہا ہے۔ فوٹو: فائل

3 سالہ منصوبہ پانچ سال بعد بھی انتظامیہ کی راہ تک رہا ہے۔ فوٹو: فائل

شکارپور: شکار پور میں نکاسی آب کا مسئلہ کافی پُرانا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا اور مختلف فورمز پر بولا جاتا رہا ہے، لیکن یہ مسئلہ آج تک جوں کا توں ہے۔

ایک طویل عرصے بعد 2007ء میں امتیاز احمد شیخ نے حکومت سندھ کے تعاون سے 38 کروڑ روپے کی لاگت سے ماسٹر ڈرینیج میگا پراجیک منظور کروایا تھا تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر مذکورہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔ ماسٹر ڈرینیج پروجیکٹ منصوبے کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف رکھتے ہیں اور بات کرتے ہیں اُن نالوں کی جو اس منصوبے کے لیے کھودے گئے ہیں۔ یہ خونی نالے اب تک 2 بچوں سمیت 6 افراد کی جان لے چکے ہیں مگر انسانی جانیں ضائع ہونے کے باوجود حکومت اور ضلع انتظامیہ ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

2007ء میں ماسٹر ڈرینیج پروجیکٹ کا جب باقاعدہ آغاز ہونے جا رہا تھا تو ڈسٹرکٹ کونسل میں اس حوالے سے ایک تقریب رکھی گئی تھی جس میں ماسٹر پروگرام کے کنسلٹنٹ شفیع محمد لاکھو نے بریفنگ دی تھی۔ انہوں نے اس موقع پر بتایا تھا کہ ماسٹر ڈرینج پروگرام کا منصوبہ تین سال میں مکمل کیا جائے گا اور اس کی گارنٹی30 سال ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے کنٹریکٹ باہر کی کسی کمپنی کو دیا جائے گا، جب کہ میٹریل میں سلفیٹ سیمنٹ، رحیم یار خان اور ملتان کی اینٹیں جب کہ ریتی، سوئی اور کولاپور کی استعمال کی جائے گی۔ ابتدائی بریفنگ کے دوران شہر کے معززین، تاجر، سیاسی و سماجی رہنمائوں کے علاوہ سابق وفاقی وزیر غوث بخش مہر، سابق ضلع ناظم محمد عارف خان مہر، سابق صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ نے بھی شرکت کی تھی۔

بعد ازاں جب منصوبہ شروع کرنے کا وقت آیا تو شفیع محمد لاکھو کی بریفنگ بریفنگ ہی رہ گئی اور عملی طور پر ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ مذکورہ پراجیکٹ سیاست کی نظر ہو گیا۔ ٹینڈر کے دوران باہر کی کسی کمپنی نے حصہ نہیں لیا۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ باہر کی کمپنیوں کے ریٹس زیادہ تھے جس کی وجہ سے ان کو کام نہیں دیا گیا۔ اس موقع پر مقامی ٹھیکے داروں نے ٹینڈر میں حصہ لیا۔ رحیم یار خان اور ملتان کی اینٹوں کے بجائے ٹھیکے داروں نے لوکل اینٹیں استعمال کیں جب کہ سوئی اور کولاپور کی ریتی بھی استعمال نہیں کی گئی۔

پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور ٹھیکے داروں کی ملی بھگت سے زیر تعمیر اس منصوبے میں ناقص مٹیریل کا استعمال کیا گیا۔ بتایا گیا کہ ابتدائی طور پر سندھ حکومت نے مذکورہ پراجیکٹ کی فزیبلٹی رپورٹ کے لیے 25 لاکھ روپے مختص کیے تھے، جس پر 15 لاکھ روپے خرچ کیے گئے اور باقی رقم رشوت خور افسروں کے ہتھے چڑھ گئی۔ آج تک مذکورہ کرپشن کی تحقیقات نہیں کرائی جا سکیں۔

ایک جانب جاری منصوبے کے باعث انسانی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے تو دوسری طرف ثقافتی ورثہ جمانی ہال جو اس وقت میونسپل کمیٹی کے دفتر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے کو نالے کی کھدائی کے دوران نقصان پہنچا ہے لیکن ٹھیکے دار با اثر ہونے کی وجہ سے انتظامیہ نے اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ پراجیکٹ کا نقشہ ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے تبدیل کیا گیا جس سے کئی افراد نے فائدہ اُٹھایا۔

اطلاعات کے مطابق لکھیدر، رستم موڑ، ہاتھی در، ہزاری در، کڑی نواب خان، گول مارکیٹ سمیت 12 مقامات سے نقشہ تبدیل کیا گیا۔ مذکورہ پراجیکٹ کے خلاف سیاسی محاذ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ سیمینارز ہوئے، اجتماعی ریلیاں نکالی گئیں۔ سابق صوبائی وزیر آغا تیمور خان پٹھان، سابق ایم این اے آفتاب شعبان میرانی نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی۔ انہوں نے معیاری کام نہ ہونے پر انکوائری کرانے کا بھی کہا تھا جب کہ سابق ایم این اے آفتاب شعبان میرانی نے جاری منصوبے کو مکمل کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن  پی پی حکومت کے پانچ سالہ دور میں بھی یہ زیر تعمیر پراجیکٹ مکمل نہیں ہوسکا اور نہ ہی مٹیریل کے استعمال کی انکوائری ہوسکی۔

5 مئی2007ء کو محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ شکارپور نے منصوبے پر کام شروع کرایا جو 2010 ء میں مکمل ہونا تھا۔ محکمہ پبلک ہیلتھ کے ذمے دار افسر کے مطابق فنڈز کم ہونے کے باعث مذکورہ کام تین سال میں مکمل نہیں ہوسکا جب کہ 6 جون 2012ء تک سندھ حکومت نے منصوبے کو مکمل کرانے کے لیے 26 کروڑ 50 لاکھ روپے کی ادائیگی کی تھی۔ اس افسر کے مطابق نساسک کے آنے کے بعد مذکورہ پراجیکٹ اب پبلک ہیلتھ کے بجائے نساسک انتظامیہ کے پاس جا چکا ہے اور اس پر بقایا کام اب وہی کرائے گی۔ پبلک ہیلتھ کے بعد نساسک انتظامیہ کے حوالے ہونے پر8 ماہ گزر جانے کے باوجود تاحال پراجیکٹ کا کام شروع نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے عوام شدید اذیت کا شکار ہیں۔ وقت پر کام نہ ہونے کے باعث 2012ء میں ہونے والی طوفانی بارشوں سے شہر کی مین شاہ راہوں اور گلی کوچوں میں بارش کا پانی جمع ہونے سے عوام کو کافی نقصان اُٹھانا پڑا تھا۔

شہر کا گندا پانی باہر نکلوانے کے لیے ضلع انتظامیہ کو زمین خرید کر انتظامیہ کے حوالے کرنا تھی۔ اس حوالے سے بتایا گیا کہ ابتداء میں ایک پرائیوٹ ایجنسی سے گندے پانی کے تالاب کے لیے زمین خریدنے کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے میں سودا طے پایا تھا، مگر تاحال اس پر عمل نہیں ہو سکا جب کہ شاہی باغ اور سی اینڈ ایس ڈگری کالج کے سامنے 2 ڈسپوزل تعمیر کیے گئے ہیں لیکن آج تک مشینری مہیا نہیں کی گئی۔ نساسک انتظامیہ نے ایس ایس پی آفس سے شاہی باغ کے مقام تک نالا بنوا کر دینا تھا، اس پر بھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ سیاست کی بھینٹ چڑھا ہوا میگا پراجیکٹ کب مکمل ہوگا یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے لیکن حالیہ انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یاب ہونے والے امتیاز احمد شیخ سے شکارپور کے عوام توقع کر سکتے ہیں کہ وہ مذکورہ پراجیکٹ کو مکمل کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔