سرمایہ دارانہ جمہوریت کو بدلنے کی ضرورت
اب جمہوریت کو عوام خصوصاً کچلے ہوئے غریب عوام کے مفادات کے مطابق ترتیب دیا جائے۔
جمہوریت کے نام پر دنیا بھر خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں جو کامیاب ڈرامے چل رہے ہیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومتوں اور اپوزیشن میں ایسا تعاون اور بھائی چارہ ہے کہ کسی مرحلے پر دونوں کے مفادات میں کوئی تضاد نہیں آتا۔
پارلیمنٹ میںفریقین کی ایک دوسرے کے خلاف جو دھواں دھار تقاریر ہوتی ہیں انھیں دیکھ کر عام آدمی ہی نہیں پڑھے لکھے معقول آدمی کو بھی یہ گمان ہوجاتا ہے کہ فریقین میں کتنا تضاد ہے؟ اس غلط فہمی یا خوش فہمی کی وجہ یہ تھی کہ میڈیا میں ایک دوسرے کے خلاف ایسی ایسی مخالفانہ تقاریر چھپتی ہیں کہ پڑھنے والے اس مصنوعی اور طے کردہ مخالفت کو جو دشمنی کی حدوں کو پار کرلیتی ہے اپنی سادگی اور بورژوا سیاست کے اسرار کو سمجھ نہیں پاتے۔
آج تک یہ ڈراما انتہائی کامیابی کے ساتھ اس لیے چل رہا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طبقاتی ساتھی ہے اسمبلیوں میں لڑتے تھے اور گھروں اور کلبوں میں شیر و شکر ہوجاتے تھے یہ ڈرامہ برسہا برس سے بڑی کامیابی سے چل رہا تھا اور ہمارے عوام اس ڈرامے سے بے خبر ایک دوسرے کے دشمن بنے فریقین کی سیاسی خوراک بنے ہوئے تھے۔ یہ ڈرامے ترقی یافتہ ملکوں میں مہذب طریقے سے اور احتیاط کے ساتھ کھیلے جاتے تھے اور پسماندہ ملکوں میں ذرا بھولے طریقے سے بھولے انداز میں کھیلے جاتے رہے ہیں۔
اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک طبقاتی نظام ہے ۔ اس طبقاتی نظام میں ایک طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے مفادات مشترک ہوتے ہیں۔ اس نظام کا یہ طبقاتی رشتہ اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ کوئی اخلاق، کوئی غیر طبقاتی رشتہ، اس طبقاتی رشتے کوکسی قیمت پر نہیں توڑ سکتا۔ ہمارے طبقاتی نظام میں نچلے اور پسماندہ اکثریتی عوام کو قابو میں رکھنے کا یہ کامیاب طریقہ ڈھونڈا گیا کہ جمہویت کو دو حصوںمیں بانٹ دیا گیا اور کمال یہ ہے کہ دونوں ہی حصوں میں بالادستی اشرافیہ کی رکھی گئی اور حکومت اور اپوزیشن کی اس ڈرامائی لڑائی میں غریب عوام کی طاقت کو بڑے فنکارانہ انداز میں استعمال کیا جانے لگا ۔
یہ ڈرامہ اب کھیل کھیل کر اس قدر پرانا ہوگیا ہے کہ اس پر اب اصل کا گمان ہوتا ہے۔ بعض وقت طبقاتی مفادات خود اشرافیہ کے درمیان اس قدر شارپ ہوجاتے ہیں کہ یہ طبقہ اس میں ہی لڑ پڑتا ہے لیکن اس طبقے کے اکابرین اس لڑائی کو بڑھنے نہیں دیتے۔ فریقین میں بہت جلد کمپرو مائز کرا دیتے ہیں۔ اس عوام دشمن جمہوریت کا ایک المناک پہلو یہ ہے کہ اوپر سے ایک رہنے والے عام غریب کارکنوں کو ایک دوسرے کا اس قدر مخالف بنا دیتے ہیں کہ یہ غریب کارکن ایک دوسرے کی سر پھٹول میں مصروف رہے ہیں بعض وقت ایک دوسرے کی جان بھی لے لیتے ہیں ۔
پاکستان میں یہ کھیل دس سال بڑی کامیابی سے کھیلا جاتا رہا ہے ، لیکن درمیان میں مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ 2018 کے الیکشن میں ایک مڈل کلاس پارٹی اقتدار میں آگئی۔اشرافیائی جمہوریت کا کھیل کامیابی کے ساتھ کھیلنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مڈل کلاس پارٹی اشرافیہ کے کھیل میں کباب میں ہڈی بن کر آگئی ہے۔ یہ مڈل کلاس پارٹی غلطیاں کرسکتی ہے حماقتیں کرسکتی ہے لیکن کرپشن اس لیے نہیں کرسکتی ہے کہ اس نے اپنا سب سے بڑا مشن ہی کرپشن کا خاتمہ بنالیا ہے۔
نیب کرپشن کے خلاف ایک تحقیقاتی ادارہ ہے اس نے سابق حکمران جماعت کے کئی اعلیٰ سطح رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتارکرلیا ہے۔ ان گرفتاریوں کی وجہ سے اشرافیہ کے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ کوئی غلط کام یا جرم بھی کرتی ہے تو اس قدر احتیاط سے کرتی ہے کہ بڑے بڑے تحقیقاتی ادارے ثبوت تلاش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں اور اشرافیہ دھڑلے سے کہتی ہے کہ جرم ثابت کرو ثبوت لاؤ۔ اگر متعلقہ ادارے جرم ثابت نہ کرسکے ثبوت فراہم نہ کرسکے تو یہ نہ صرف ایک المیہ ہوگا بلکہ جگ ہنسائی بھی ہوگی ۔
ترقی یافتہ ملکوں کے عوام تعلیم یافتہ بھی ہیں، باشعور بھی وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اسرار و رموز کو بھی بڑی حد تک سمجھتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کے منتخب کردہ نمایندے ان کی پہنچ میں ہوتے ہیں اگر ان کی جماعتیں اپنے منشور سے ہٹتی ہیں یا نمایندے کسی غفلت یا بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ووٹر کے ہاتھ منتخب نمایندوں کے گریباں سے دور نہیں ہوتے۔ اس عوامی جواب طلبی کے خوف کی وجہ سے منتخب نمایندے حتی المقدور اپنی ذمے داری نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں دو ڈھائی سو سال پہلے جو جمہوریت متعارف کرائی گئی تھی وہ اب تک جاری ہے اس لیے کہ یہ اشرافیہ کے مفادات پر اترتی ہے۔ اس جمہوریت میں سر سے پیر تک خرابیاں ہیں اور دو ڈھائی سو سال کے دوران دنیا بھی بہت بدل گئی ہے، عقل کا تقاضا ہے کہ اب جمہوریت کو عوام خصوصاً کچلے ہوئے غریب عوام کے مفادات کے مطابق ترتیب دیا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک کو ہماری فکری الیٹ اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کرنے میں ناکام ہے۔
دوسرے اشرافیہ کی گرفت اس فراڈ جمہوریت پر اس قدر مضبوط ہے کہ مختلف حوالوں سے تقسیم عوام اس فراڈ جمہوریت کو تبدیل کرکے اپنے طبقے کے مفادات کے مطابق جمہوریت کی از سر نو تشکیل کے لیے آمادہ نہیں۔