تحریک انصاف کا امید سے مایوسی تک کا سفر

صاف ظاہر ہے کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے


مزمل سہروردی October 29, 2018
[email protected]

لاہور: تحریک انصاف کی حکومت ملک میں امید کی کرن بن کر آئی تھی۔ اس کے ووٹرز کو امید تھی کہ ملک میں تبدیلی آئے گی۔پہلے سو دن کے حوالہ سے امید کے پہاڑ بنائے گئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پہلے سو دن میں سب کچھ تبدیل ہو جائے گا تاہم مجھے پہلے دن سے کوئی امید نہیں تھی۔ تا ہم ملک میں امید کی ایک فضا موجود تھی۔ اب امید کی ساری فضا دم توڑ رہی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پُرامید لوگ بھی مایوس نظرآ رہے ہیں۔ ملک میں آج کل خاموشی کی زبان کا بہت چرچا ہے۔ اکثر سیاستدان حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے خاموشی کی زبان میں بات کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیے اپوزیشن کی خاموشی زیادہ پریشانی کا باعث نہیں ہونی چاہیے لیکن اس کے اپنے لوگوں کی خاموشی باعث پریشانی ضرور ہونی چاہیے۔

اس بات میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کی اقتدار میں آکر ملک چلانے کے حوالے سے کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ سب کو معلوم تو تھا کہ ملک قرضوں میں ڈ وب چکا ہے۔ لیکن قرضوں میں ڈوبے اس ملک کو چلانے کا کوئی روڈ میپ موجود نہیں تھا۔ سمجھ نہیں آرہی کہ عمران خان اور ان کی ٹیم کیا سوچتی رہی ہے۔ انھیں یہ حکومت کوئی اچانک نہیں ملی ہے۔ ان انتخابات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی تھی کہ اس کے نتائج کے بارے میں سب کو پہلے سے معلوم تھا۔ ن لیگ کو پتہ تھا کہ ان کو دوبارہ نہیں آنے دیا جائے گا۔ پی پی پی کو معلوم تھا انھیں صرف سندھ ملے گا۔ اس سے آگے کوئی کہانی نہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو پتہ تھا کہ ان کو لانے کے لیے ساری گیم سیٹ کر دی گئی ہے۔ راستے کی ہر مشکل ہٹا دی گئی تھی۔ اس کے باوجودعمران خان کی تیاری کیوں نہیں تھی، ان کے پاس کوئی منصوبہ کیوں نہیں تھا۔

صاف ظاہر ہے کہ کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ کچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا۔ گیس کے بعد بجلی بھی مہنگی کر دی گئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کی قیادت اس وقت کیا سوچ رہی ہے۔ ان کی کیا منصوبہ بندی ہے۔ لیکن اس حکومت نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے۔ لوگوں کی زندگی مشکل ہو گئی ہے۔ لوگوں کا بجٹ خراب ہو گیا ہے۔ کاروبار مشکل ہو گیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے تو زمین تنگ ہو گئی ہے۔

ملکی معیشت کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کی کوئی تیار ی نہیں تھی۔ جس طرح روپے کی قدر کم کی گئی ہے اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس ضمن میں بھی تحریک انصاف کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو ملک میں سولہ ارب ڈالر کا زرمبادلہ موجود تھا۔جب کہ 2013ء میں جب ن لیگ نے حکومت سنبھالی تھی تو ملک میں چھ ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر تھے۔ لیکن ن لیگ کے پاس ایک روڈ میپ، ایک منصوبہ بندی موجود تھی۔ ان کو پتہ تھا کہ کیا کرنا ہے۔

عمران خان کی ٹیم کے پاس کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے کہ نہیں،کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ سعودی عرب سے کیا لینا ہے۔ چین سے کیا لینا ہے۔ ایک ابہام نے ملک کو ایک بحران کی طرف دھکیل دیا۔ کسی بھی قسم کی پلاننگ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ایک بحران پیدا ہوگیا۔ لیکن اب تحریک انصاف اس کی ذمے د اری ماضی کی حکومتوں پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ یہ ان کی اپنی نالائقی کے سوا کچھ نہیں۔سو نے پر سہاگہ تحریک انصاف کی حکومت نے از خود ہی مایوسی اور ناامیدی پیدا کر دی ہے۔

اب تحریک انصا ف اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو کرپشن کے نعرہ سے سہارا دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ماضی کی حکومتیں ایسی کوشش کرتی رہی ہیں۔ پی پی پی کی حکومت نے اپنی نااہلی اور نالائقی کو اٹھارویں ترمیم کے نعرہ میں دبانے کی کوشش کی تھی۔ اسی طرح ن لیگ نے بھی اپنی بہت سے ناکامیوں کو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نعرہ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ دونوں حکومتیں اپنی اس حکمت عملی میں ناکام ہو گئی تھیں۔ ایسے میں کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنی اب تک کی تمام تر نالائقی اور نااہلی کو کرپشن کے نعرے کے پیچھے چھپا سکے گی۔

سو دن سے پہلے ہی پولیس ریفارمز کے تمام نعرے جھوٹ ثابت ہو گئے۔ چھوٹی کابینہ کے نعروں کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے۔ بیرونی قرضے نہ لینے کے دعوے جھوٹ ثابت ہو گئے ہیں۔ روپے کی قدر کم نہ کرنے کے اعلانات غلط ثابت ہو گئے ہیں۔گڈ گورننس کے تمام دعوی ٰ جھوٹ نکلے ہیں۔ وزرا کی کرپشن کی داستانیں سامنے آچکی ہیں۔ خارجہ محاذ پر ناکامیوں کے جھنڈے گاڑے جا چکے ہیں۔ بھارت سے ہنی مون ناکام ہو گیا۔ امریکا سے ناکام ہو گیا۔ سعودی عرب سے خشوگی کے قتل پر خاموشی کے بدلے کیا ملا ہے۔ صرف تیل اور کچھ نہیںوہ بھی ادھار۔ پہلے چین کو نارا ض کیا، اب منتیں کر رہے ہیں۔

ڈیم فنڈ کی ناکامی کی بڑی وجہ بھی حکومت ہے۔ تحریک انصاف نے جان بوجھ کر ڈیم فنڈ کی سرپرستی نہیں کی۔ اگر عمران خان ڈیم فنڈ کے لیے شوکت خانم کی طرح چندہ اکٹھے کرتے تو ضرور کامیاب ہوجاتا۔ حکومت کی شاہ خرچیوں کی داستانیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ صدر مملکت کے سکردو کے ناشتہ کی کہانی سب کے سامنے ہے۔ سادگی کے نعرہ بھی کھوکھلے ثابت ہو گئے ہیں۔موروثی سیاست کے خاتمہ کے دعویدار اس کے سب سے بڑی داعی بن گئے ہیں۔ ایک ہی گھر میں چھ چھ ٹکٹیں دیکر کارکنوں کو مایوس کیا گیا۔ دوستوں رشتہ داروں کو نوازنے میں بھی یہ حکومت کسی سے کم نہیں رہی۔

عمران خان اور ان کی ٹیم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ یکطرفہ احتساب ان کے لیے فائدہ مند کم اور نقصان دہ زیادہ ہوگا۔ ماضی میں نواز شریف بھی یکطرفہ احتساب کر کے دیکھ چکے ہیں۔ اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا تھا۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی یکطرفہ احتساب کی کوشش کی اور ناکام ہوئے۔ اب عمران خان بھی اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ صرف اپوزیشن کا احتساب کر کے وہ اپنی گرتی ساکھ اور حکومتی نالائقی کو سنبھال لیں گے تو ممکن نہیں۔ اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ اگر تحریک انصاف واقعی ملک میں کرپشن کی روک تھام اور احتساب میں سنجیدہ ہے تو اسے اپنے اندر سے بھی گندے انڈے نکالنا ہو ںگے۔ سب سے پہلے اپنے لوگوں کا احتساب کرنا ہوگا پھر ہی لوگ اپوزیشن کے احتساب کو مانیں گے۔ ورنہ ایسے احتساب کو کون مانے گا جس میں تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد پناہ مل جاتی ہو۔

بہر حال اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک میں پھیلتی ہوئی مایوسی ہے۔ لوگ صرف تبدیلی سے ہی مایوس نہیں ہو گئے۔ تنخواہ دار طبقہ پریشان ہو گیا ہے مایوس ہو گیا ہے۔ کاروباری طبقہ پریشان ہے مایوس ہے۔امپورٹ ایکسپورٹ سے منسلک لوگ پریشان ہیں مایوس ہیں۔ مہنگائی نے غریب کی زندگی مشکل کر دی ہے۔ وہ بھی اس تبدیلی سے مایوس ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی قوم مایوسی کے اندھیروں میں چلی جائے تو امید ختم ہو جاتی ہے۔ ہاری ہوئی قوم امید کی روشنی سے ترقی کر سکتی ہے۔ لیکن مایوسی تو جیتی ہوئی جنگ بھی ہرا دیتی ہے۔ یہ حکومت جب سے آئی ہے بس مایوسی کیوں پھیلا رہی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں