- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
خواجہ فرید یونیورسٹی؛ فوری توجہ کی منتظر
خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام 2014 میں عمل میں لایا گیا۔ یہ یونیورسٹی جنوبی پنجاب کے آخری ضلع رحیم یار خان میں بنائی گئی۔ ضلع رحیم یار خان ایک وقت میں سب سے زیادہ کپاس کاشت کرنے والا ضلع تھا، لیکن پھر وقت بدلا اور کپاس کی جگہ گنے کی کاشت نے لے لی۔ اب یہاں کسان گنا اگاتے ہیں اور بے شمار اگاتے ہیں؛ جس کے باعث زیر زمین پانی اس قدر لو لیول پر چلا گیا ہے کہ زمین سیم و تھور کا شکار ہونا شروع ہوگئی ہے۔
نیز اس ضلع میں سب سے زیادہ شوگر ملز موجود ہیں۔ یہاں کی عوام کم پڑھی لکھی اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ سرداروں اور جاگیر داروں کے زیر اثر اس ضلع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ پچھلی حکومت میں بھی یہاں کے نمائندگان صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل تھے، اور اس دور حکومت میں بھی دو نمائندگان یہاں سے صوبائی اور وفاقی کابینہ میں شامل ہیں۔
خواجہ فرید یونیورسٹی، یو ای ٹی لاہور کی طرز پر بنائی جانے والی اس ضلع کی واحد مکمل یونیورسٹی ہے۔ یونیورسٹی کے آغاز میں دو ہزار طالبعلموں نے اس یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس کا فیس اسٹکچر بھی یو ای ٹی لاہور کی طرز پر سیٹ کیا گیا۔
275 ایکڑ رقبے پر قائم اس یونیورسٹی کی تعمیر میں سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف نے بھرپور دلچسپی دکھائی۔ انھوں نے یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا اور یونیورسٹی کو فنڈز کی پہلی قسط ادا کی گئی۔ یونیورسٹی کی تعمیر کا کام تیزی سے شروع ہوا اور گرد و نواح میں یونیورسٹی کے قیام کی خبریں پہنچنا شروع ہوئیں۔ یونیورسٹی کا قیام ضلع کے عوام کےلیے انتہائی خوشی کا باعث تھا، کیونکہ یہ ضلع کا اپنی نوعیت کا پہلا تعلیمی ادارہ تھا۔ ورنہ اس سے پہلے طالبعلموں کو تعلیم جاری رکھنے کےلیے 700 کلومیٹر دور تک کا سفر کرنا پڑتا تھا، اور بہت سے لائق طالبعلم صرف اس ضلع میں یونیورسٹی نہ ہونے کے باعث تعلیم جاری نہ رکھ پاتے تھے۔
یونیورسٹی ضلع کے عوام کےلیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طالبعلموں کی تعداد ہر سیشن میں بڑھتی گئی۔ یونیورسٹی کی فیکلٹی میں 80 پی ایچ ڈی اساتذہ کو شامل کیا گیا۔ ایم بی اے اور ایم ایس پروگرامز کا آغاز شروع کیا گیا۔ 2018 کے فال سیشن میں یونیورسٹی کے 40 شعبہ جات میں 3490 دستیاب سیٹوں پر 15038 داخلے کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں 85 فیصد طلباو طالبات کا تعلق ضلع رحیم یار خان سے ہی ہے۔
لیکن پھر اچانک اس پسماندہ ضلع میں قائم اس یونیورسٹی کے فال سیشن 2018 کےلیے فی سمسٹر فیسیں 10 سے 15 فیصد بڑھانے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اعلان حیران کن تھا، جس پر حسب توقع والدین اور طالبعلموں نے بھرپور احتجاج کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے، فیسیں کم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ میڈیا نے یونیورسٹی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن جب فیسوں میں اس قدر اضافے کی وجوہات سامنے آئیں تو ہر ایک شخص حیران رہ گیا۔ بدقسمتی سے یونیورسٹی کو منظور ہونے والے فنڈز میں پہلی قسط کے بعد فنڈ زکی ادائیگی روک دی گئی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے فنڈز نہ ہونے کے باعث یونیورسٹیز لاء کے تحت اپنے اخراجات پورے کرنے کی خاطر فیسیں بڑھائیں۔ فنڈز نہ ہونے کے باعث یونیورسٹی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ 2 اکیڈمک اور ایک ایڈمن بلاک، سنٹرل لائبریری، ہاسٹل اور ٹاؤن شپ نیم مکمل مراحل میں فنڈز نہ ہونے کے باعث یہ پروجیکٹس روک دیے گئے ہیں۔ ہاسٹل کی عمارت نہ ہونے کے باعث یونیورسٹی نے اس وقت 7 پرائیویٹ ہاسٹلز میں 860 طالبعلموں کی رہائش کا بندوبست کر رکھا ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ تمام تر معاملہ ہاشم جوان بخت کے سامنے رکھا ہے اور ضلع رحیم یار خان کے نمائندگان بھی یونیورسٹی کا دورہ کر چکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے فنڈز کی ادائیگی کےلیے وعدہ تو کیا ہے مگر یہ وعدہ ابھی تک وفا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اس بحرانی صورتحال سے نکلنے کےلیے یونیورسٹی انتظامیہ مختلف غیر ملکی آرگنائزیشنز سے بھی رابطے کر رہی ہے۔ یہ معاملہ بالکل ایسا نہیں ہے کہ اس کےلیے ایک ڈیڑھ سال صبر کیا جاسکے۔ حکومت کو اس معاملہ کی طرف فوری طور پر سنجیدگی سے دھیان دینا چاہیے۔
میٹرو، اورنج لائن اور سنٹرل پنجاب کے دیگر منصوبوں پر اربوں خرچ کرنے کے بعد اگر یہ یونیورسٹی بنانے کا خیال آیا ہے تو اسے یوں راہ میں بے یارو مددگار تو نہ چھوڑ جاتے۔ وزیراعظم عمران خان نے جنوبی پنجاب کی ترقی اور خوشحالی کو اپنے منشور میں شامل کیا۔ وہ وزیراعظم بنے، جنوبی پنجاب نے انھیں ووٹ دیے۔ خان صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب بھی جنوبی پنجاب سے بنایا۔ لہذا اب اس پسماندہ ضلع کی طرف بھی فوری توجہ دیں، یونیورسٹی کو بحرانی صورتحال سے نکالیں اور کم از کم اس خطے کے لوگوں کو اس بوجھ سے نکالنے کی کچھ تدبیر کریں؛ ورنہ وہ مفلسی ہے کہ تیمّم کو گھر میں خاک نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔