- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
چندا ماما چین کے۔۔۔
لیجیے صاحب! چین اب چاند بھی بنائے گا۔ ایک خبر کے مطابق چین نے 2020 تک اپنا ’’مصنوعی چاند‘‘ بنانے کی منصوبہ بندی شروع کردی ہے۔
چینی شہر چینگدو میں شہر بھر کی اسٹریٹ لائٹس کو ایک سیٹلائٹ سے تبدیل کرنے کا انکشاف ہوا ہے، جو حقیقی چاند کی روشنی کو بڑھائے گا۔ یہ مصنوعی چاند 10 سے 80 کلومیٹر کے دائرے میں روشنی فراہم کرے گا۔ چینگدو ایرواسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مائیکروالیکٹرانکس سسٹم ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین وو چَن فینگ نے مصنوعی چاند کی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ چاند، حقیقی چاند سے 8 گنا زیادہ روشن ہوگا۔
وہی بات کہ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند، اور کوئی لاڈلا رو رو کر مانگنے کے بہ جائے اپنا چاند خود پیدا کرلیتا ہے۔ جہاں تک پیدا کرنے کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں گھر گھر چاند پیدا ہوتے ہیں، پہلے پہل تو پتا نہیں ہوتا کہ گھر میں چاند ہوا ہے، لیکن جب چاند کی اماں چادر پر پھیلی اپنے چاند کی ’’مایع چاندنی‘‘ دیکھ کر دُلار سے کہتی ہیں ’’میرے چاند نے چھی کردی‘‘ تب دیگر اہل خانہ اور خود چاند کو پتا چلتا ہے کہ وہ چاند ہے۔ مگر ظاہر ہے چین نے یہ ’’چھی‘‘ کرنے والا چاند پیدا نہیں کیا، چینی چاند آسمان پر دمکتے ماہ تاب کی نقل ہے۔
ویسے تو چین ہر شئے کی نقل بناتا رہا ہے، لیکن یہ امید نہیں تھی کہ چاند کا چربہ بھی تیار کرلے گا۔ ابھی تو ایک چاند بنانے کی تیاری ہے، تجربہ کام یاب رہا تو ممکن ہے چاندوں کا ڈھیر لگا دیا جائے اور چاند برآمد بھی کیے جانے لگیں۔ بڑی تعداد میں بننے کے بعد چاند کے دام بھی گرجائیں گے، جس طرح دیگر چینی مصنوعات معیار کے اعتبار سے کئی درجوں میں منقسم ہوتی ہیں، اسی طرح چین ساختہ چاند بھی کئی طرح کے ہوا کریں گے۔ اعلٰی ترین اور منہگے چاند امریکا اور یورپ جائیں گے۔
سستے والے پاکستان جیسے ممالک کی منڈیوں میں بکیں گے۔ ہوسکتا ہے کم ترین معیار کے چاند اتنے سستے ہوں کہ خواتین مہمانوں سے کہہ رہی ہوں،’’یہ دیکھو! کل جمعہ بازار سے چاند لے کر آئی ہوں، پندرہ سو کہہ رہا تھا، سات سو میں لے کر آگئی۔‘‘ یوں بھی ہوگا کہ مائیں بچوں کو ’’چندا ماما دور کے‘‘ والی لوری اس طرح سنائیں گی ’’چندا ماما چین کے‘‘، ساتھ ساتھ وہ بچوں کے لیے تیارکردہ ننھے مُنے چاند بچے کی آنکھوں کے سامنے نچاتی رہیں گی۔ یہ چندا ماموں رات بچوں کے سُلانے کے کام آئیں گے اور دن بھر ان کے کھیلنے کے، پھر کسی روز بچہ آکے روتے ہوئے بتائے گا،’’چندا ماما نالی میں گرگئے۔‘‘
محبوبہ سے چاند تارے لانے کے لارے کا چلن تو اب پُرانا ہوگیا، کیوں کہ دورِحاضر کی محبوبائیں ایسے وعدوں پر کہتی ہیں،’’دفع کرو، چاند تاروں کا کیا کرنا ہے، بس ایک اینڈرائڈ فون دلا دو‘‘ یہ فرمائش سُن کر عاشقوں کو دن میں تارے نظر آجاتے ہیں، لیکن اب یہ وعدہ پورا کرنا ممکن ہوجائے گا۔ بازار سے چھوٹے سائز کا چینی چاند لیا اور محبوبہ کے ہاتھ پر رکھ دیا، مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں کہ چینی چاند کو کب مستقل گرہن لگ جائے۔
باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے ملک میں عیدین کے موقع پر بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ پھر یہ بحث نہیں ہوگی کہ چاند نظر آیا یا نہیں، یہ تکرار ہوگی کہ جو چاند نظر آیا وہ اصلی تھا یا چینی۔ چناں چہ ہماری چین سے درخواست ہے کہ اگر وہ برآمد کرنے کے لیے چاند بنائے تو ہمارے لیے برآمدی چاند ذرا چپٹے رکھے، تاکہ اصل اور نقل کی پہچان ہو سکے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔