چیف جسٹس نے ای او بی آئی میں 40 ارب کی کرپشن کا نوٹس لے لیا، کل سماعت ہوگی

نمائندہ ایکسپریس  اتوار 30 جون 2013
عدالت کا کل پیش ہونے کاحکم، کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کریگا، اٹارنی جنرل،ڈی جی ایف آئی اے ،موجودہ چیئرمین کی بھی طلبی۔ فوٹو: فائل

عدالت کا کل پیش ہونے کاحکم، کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ کریگا، اٹارنی جنرل،ڈی جی ایف آئی اے ،موجودہ چیئرمین کی بھی طلبی۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ای او بی آئی میں 40ارب روپے کے مالی اسکینڈل کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹ پر ازخود نوٹس لیکر اس مبینہ فراڈکی تفصیلات جاننے کیلیے اٹارنی جنرل، سیکریٹری وزارت ہیومن ریسوس ڈیولپمنٹ،ڈی جی ایف آئی اے، موجودہ چیئرمین ای او بی آئی اور سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کو طلب کر لیا ہے۔سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے قرار دیا ہے کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کے اربوں روپے قواعدکیخلاف سرمایہ کاری کیلیے استعمال کرنے سے بادی النظر میںآئین کے آرٹیکل9 اور 24 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔کیس کی سماعت یکم جولائی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد چوہدری اور جسٹس گلزار احمد پرمشتمل 3 رکنیبینچ کل کھلی عدالت میں سماعت کرے گا ۔

رجسٹرارکا نوٹ اس رپورٹ پرمشتمل تھا جس میںکہا گیا تھاکہ یہ فراڈگزشتہ 3 سال کے دوران مختلف مراحل میںکیا گیا جس میں اس وقت کے چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے علاوہ ڈی جی انویسٹمنٹ اور ڈی جی ایچ آرو دیگر عہدیدار بھی ملوث ہیں۔ ان عہدیداروں نے قواعدکیخلاف اور بورڈ آف ٹرسٹیزکی منظوری حاصل کیے بغیر اربوں روپے کی پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی اور ادارے کو تقریباً 40ارب کا نقصان پہنچایا مگر متعلقہ حکومتی اداروں نے اس اسکینڈل پر خاموشی اختیارکیے رکھی ۔اس معاملے کی تفصیلات کے مطابق اراضی و پلاٹ مہنگے داموں خریدے گئے،خریدی گئی اراضی کی مارکیٹ قیمت ایک ارب روپے تھی مگر ادائیگی16ارب روپے کی گئی اور15ارب کا نقصان پہنچایا گیا۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی اس نقصان کی نشاندہی کی ہے اور اس کے مطابق اس ڈیل میںایک بڑ ی کاروباری شخصیت بھی ملوث ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود ادائیگیاںکی گئیں جس پر توہین عدالت کامقدمہ دائر ہوا اور ڈی جی انویسٹمنٹ گرفتار بھی ہوا۔رجسٹرار کے نوٹ میںکہا گیا ہے اسلام آبادمیں عبدالقیوم نامی شخص سے55کروڑ مارکیٹ ویلیو کاپلاٹ ایک ارب20کروڑمیں خریدکر ادارے کو65کروڑکا نقصان پہنچایا گیا ، اس معاہدے پرای او بی آئی کی جانب سے دستخط ایک غیرمتعلقہ شخص نے کیے۔چیئر مین نے ادارے کے فنڈ سے 4300سی سی کی دو پراڈوگاڑیاںذاتی استعمال کیلئے خریدیںجبکہ قواعدکے تحت انہیں صرف 1300سی سی کارکی اجازت ہے اور اس طرح انھوں نے 4کروڑ 12لاکھ کا نقصان پہنچایا۔پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹرکے دبائو پر قواعد سے ہٹ کر سکھر میں40کنال کے 2 متنازع پلاٹ زیادہ قیمت دیکر12کروڑ میں خریدے گئے ، پلاٹ 3 افرادکی ملکیت تھے،معاہدہ ایسے شخص سے کیا گیا جو فروخت کا مجاز نہیں تھا۔

ادائیگی کے باوجود پلاٹ ابھی تک قبضہ گروپ کے پاس ہیں۔اسلام آباد میں ایک کرکٹ گرائونڈکی ڈیولپمنٹ کی آڑ میں 6سے 8کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا حالانکہ اس سرمایہ کاری سے منافع کی کوئی صورت موجود نہیں۔ ای او بی آئی کو مزید سرمایہ کاری اور ادائیگی سے روکنے کے لاہورہائیکورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود سی ڈی اے سے 2کروڑ روپے میں 7 پلاٹ خریدے گئے۔لاہور سے 20کلو میٹر دورگائوں سیج پال میں ایک غیر معروف کمپنی کے ذریعے ایک ارب 43کروڑ میں40کنال 16مرلے زمین خریدی گئی اور مارکیٹ ریٹ سے300گنا زیادہ رقم ادا کی گئی،اس ڈیل میں چیئرمین نے کمیشن حاصل کیا تاہم ایف آئی اے و نیب خاموش رہے ۔اسی چیئرمین نے لاہور میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے25کروڑ روپے میں 4 منزلہ ہوٹل خریدا جبکہ اس کا پارکنگ ایریا 32 کروڑ میں خریدا جہاں سے ایک روپے کی آمدن نہیں ہوئی، ہوٹل کی مرمت پر 5کروڑکی اضافی رقم بھی خرچ کی گئی۔

اس ڈیل میں مجموعی مارکیٹ قیمت10 کروڑ روپے تھی لیکن ادائیگی70کروڑ ہوئی۔لاہور ایئر پورٹ کے قریب سیون اسٹار ہوٹل کی تعمیرکا ٹھیکہ 4 سے 5 ارب کا تھا تاہم سابق چیئرمین ظفر گوندل نے یہ تعمیر رکواکر ایک کنویں کی کھدائی شروع کرادی اور 55کروڑ روپے اس پر لگادیئے، ٹھیکیدارکمپنی معاملہ عدالت میں لے گئی جس کی وجہ سے ای او بی آئی پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا اس طرح ادارے کو9 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔مذکورہ چیئرمین نے موٹروے ایم 9 کی تعمیرکیلئے ادارے کو 6 ارب روپے کی بولی میں ملوث کیا حالانکہ رولزکے مطابق ایسی سرمایہ کاری کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح کراچی ایئر پورٹ کے قریب20 کروڑ روپے کی زمین 2 ارب روپے میں خریدکر ادارے کو ایک ارب 80 کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا۔نوٹ میں دی گئی خبرکے مطابق ممبر ای او بی آئی عمران علی شاہ نے اس کرپشن کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ مذکورہ چیئرمین کے دور میں اوربھی کرپشن ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔