6 ماہ کے دوران ایک ہزار 455 شہری دہشت گردی کا شکار

منور خان  پير 1 جولائی 2013
جنوری سے 30 جون 2013 تک ہونے والے دھماکے، فائرنگ اور دیگر واقعات۔ فوٹو: فائل

جنوری سے 30 جون 2013 تک ہونے والے دھماکے، فائرنگ اور دیگر واقعات۔ فوٹو: فائل

کراچی: شہر میں رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران ٹارگٹ کلنگ ، اغوا کے بعد قتل ، بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں مجموعی طور پر ایک ہزار455افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں 2 حق پرست اراکین سندھ اسمبلی سمیت رینجرز، پولیس افسران، اہلکاروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیدار، کارکنان، خواتین اور بچے شامل ہیں۔

جبکہ6 ماہ  کے دوران خودکش حملے،بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو نشانہ بنانے کے علاوہ رینجرز ، تھانوں ، پولیس موبائل اور سیاسی جماعتوں کے انتخابی کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جبکہ جسٹس مقبول باقر بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے،پولیس اور رینجرز حکام کے بلند و بانگ دعوؤں باوجود 6 ماہ کے دوران شہر ٹارگٹ کلنگ ، اغوا کے بعد قتل،قتل و غارت گری ، خودکش حملوں،پلانٹڈ بم دھماکوں اور دستی بموں کے  حملوں میں1455 افراد زندگی سے محروم کردیے گئے جبکہ ان واقعات میں سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے،پولیس اور رینجرز کے طویل محاصرے، سرچ آپریشن اور ٹارگٹڈ کارروائیاں محض دکھاوا ثابت ہوئیں،دہشت گرد اپنے اہداف کو نشانہ بناکر باآسانی فرار ہوگئے ،رواں سال کے پہلے مہینے جنوری میں حق پرست رکن سندھ اسمبلی منظر امام اور حکیم محمود برکاتی ، پولیس افسران ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان سمیت 240 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

فروری میں 220 افراد سے جینے کا حق چھین لیا گیا اس دوران شہر کے مختلف علاقوں میں 5 مقامات پر نصب شدہ بم دھماکے کیے گئے جس میں شاہ فیصل کالونی اور بلوچ کالونی پولیس اسٹیشن کے علاوہ مومن آباد میں پولیس موبائل اور قیوم آباد کے قریب سوئی گیس کی تنصیب کو نشانہ بنایا گیا ان بم دھماکوں میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق جبکہ 5 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے، مارچ میں مجموعی طور پر 286 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں ٹارگٹ کلنگ ، قتل و غارت گری اور اغوا کے بعد قتل کرکے لاشیں پھینکنے کے واقعات میں230 افراد جبکہ مارچ کے مہینے میں 4 بم دھماکوں میں56 افراد جاں بحق ہوگئے جس میں3 مارچ کو عباس ٹاؤن کے قریب خوفناک بم دھماکے میں 50 افراد جبکہ11 مارچ کو قائد آباد میں بم دھماکے سے باپ اور بیٹا، 14 مارچ کو قائد آباد ہی کے علاقے میں کیبل کی دکان کے باہر بم دھماکے میں پولیس اہلکار سمیت3 افراد جبکہ 19 مارچ کو نارتھ ناظم آباد سیفی کالج کے قریب کار کے نیچے نصب بم دھماکے میں متحدہ کا کارکن کے ای ایس سی کا افسر جاں بحق ہوگیا۔

اپریل میں ٹارگٹ کلنگ ، فائرنگ کے واقعات اور بم دھماکوں میں217 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا، 23 اپریل کو پیپلز چورنگی کے قریب متحدہ کے انتخابی دفتر کے قریب بم دھماکا کیا گیا جس میں 5 افراد، 25 اپریل کو نصرت بھٹو کالونی میں موٹر سائیکل بم دھماکے میں 6 افراد ، 26 اپریل کو اورنگی ٹاؤن قائد عوام کالونی میں عوامی نیشنل پارٹی کی کارنر میٹنگ  کے قریب بم دھماکے میں 12 افراد جاں بحق جبکہ 50 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ 27 اپریل کو اورنگی ٹاؤن میں2 بم دھماکوں اور لیاری کے علاقے کمہارواڑہ میں پیپلز پارٹی کی الیکشن کے حوالے سے منعقدہ کارنر میٹنگ میں موٹر سائیکل میں نصب بم دھماکے میں خاتون اور کمسن لڑکی سمیت  5 افراد زندگی کی بازی ہار گئے،مئی میں فائرنگ ، خودکش حملے اور بم دھماکوں میں مجموعی طور پر233 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا،11 مئی کو عام انتخابات کے موقع پر خودکش حملے سمیت بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں رینجرز کے 2 اہلکاروں سمیت 15 افراد جاں بحق ہوگئے۔

عام انتخابات کے دن قائد آباد داؤد چورنگی کے قریب رکشے میں نصب بم خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا جس میں11 افراد جاں بحق جبکہ 33 افراد زخمی ہوگئے اسی دن پیر آباد میں کوسٹر میں نصب بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک جبکہ 6 افراد زخمی ہوگئے جبکہ منگھوپیر نیا ناظم آباد کے قریب رینجرز کی موبائل سے موٹر سائیکل سوار خودکش بمبار کے ٹکرانے سے رینجرز کے3 اہلکار جاں بحق جبکہ ایک افسر سمیت 6 اہلکار زخمی ہوگئے،جون کے مہینے میں ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں حق پرست رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی اور ان  کے جواں سال بیٹے اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر بم دھماکے میں پولیس و رینجرز کے اہلکاروں سمیت 253 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا،21 جون کو نارتھ ناظم آباد میں حق پرست رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ 22 جون کو سینٹرل جیل پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا۔

26 جون کو سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر کے قافلے کو شاہراہ لیاقت پر موٹر سائیکل بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا جس میں جسٹس مقبول باقر شدید زخمی جبکہ دھماکے میں 6 پولیس اور 2 رینجرز اہلکاروں کے علاوہ جسٹس مقبول باقر کا ڈرائیور بھی جاں بحق اور 18 افراد زخمی ہوگئے،30جون کو شہر کے مختلف علاقوں میں 6افراد دہشت گردی کا شکار ہوئے،شہریوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ خون کی ہولی روکنے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں جبکہ رینجرز اور پولیس کے نمائشی اور فرمائشی چھاپوں سے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔