سندھ میں فارنسک لیب کا قیام... کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے

علیم احمد  منگل 18 دسمبر 2018
جمیل الرحمان سینٹر فار جینوم ریسرچ میں ڈی این اے فارنسک لیب جولائی 2019 تک کام شروع کردے گی۔ (فوٹو: فائل)

جمیل الرحمان سینٹر فار جینوم ریسرچ میں ڈی این اے فارنسک لیب جولائی 2019 تک کام شروع کردے گی۔ (فوٹو: فائل)

’’اگر سیمپل ہی تبدیل کردیا گیا تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ صحافی نے سوال کیا۔ ’’دیکھیے! ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جو نمونہ ہمارے پاس بھیجا جائے، اس کا درست فارنسک اینالیسس کریں اور جو بھی رپورٹ ہو، وہ متعلقہ ادارے کو بھیج دیں۔‘‘ یہ جواب دے کر ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس، پروفیسر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے سانس لیا ہی تھا کہ دوسرے صحافی نے ایک اور سوال داغ دیا: ’’اس کی کیا ضمانت ہے کہ حکومت آپ کے کام میں دخل اندازی نہیں کرے گی اور نتائج تبدیل کرنے کےلیے دباؤ نہیں ڈالے گی؟‘‘ یہ سوال اگرچہ سائنسی سے زیادہ سیاسی تھا، لیکن پھر بھی ڈاکٹر اقبال چوہدری نے بڑے اطمینان سے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم اپنے ماہرین کی شناخت پوشیدہ رکھیں گے اور یہ یقینی بنائیں گے کہ درست نتائج ہی دیئے جائیں۔ بصورتِ دیگر خود ہماری نیک نامی پر حرف آئے گا اور ہماری کریڈیبلٹی مشکوک ہوگی۔‘‘

یہ اُس پریس کانفرنس کی ایک جھلک ہے جو گزشتہ روز عالمی مرکز برائے کیمیائی و حیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی میں ’’فارنسک لیب‘‘ کے قیام سے متعلق منعقد کی گئی تھی۔ اسے ’’ڈی این اے فارنسک اینڈ سیرولوجی لیب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی اس تجربہ گاہ میں ڈی این اے اور خوناب (سیرم) کا تجزیہ کرکے جرم/ مجرم سے متعلق سائنسی تحقیق و تفتیش کی جائے گی۔

سائنس سے متعلق کسی پریس کانفرنس میں صحافیوں کی بڑی تعداد کا ایک ساتھ موجود ہونا، خود میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا؛ اور میں پوری دیانتداری کے ساتھ اس کامیابی کا سہرا برادرم جعفر عسکری (میڈیا کوآرڈی نیٹر، آئی سی سی بی ایس) کے سر باندھتا ہوں کیونکہ انہوں نے سیکڑوں صحافیوں کو اس پریس کانفرنس کے بارے میں نہ صرف مناسب وقت پہلے آگاہ کردیا تھا، بلکہ بار بار یاددہانی کے پیغامات بھی بھیجتے رہے۔ دوسری بڑی وجہ شاید یہ رہی کہ معاملہ ’’فارنسک لیب‘‘ کا تھا… یعنی ایک ایسی تجربہ گاہ جہاں سائنسی بنیادوں پر جرائم کی تفتیش ہوگی اور مجرموں کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت بھی مہیا کیے جائیں گے۔ یہ موضوع ہمارے میڈیا کو بطورِ خاص بہت مرغوب ہے۔

پریس کانفرنس کے چیدہ چیدہ نکات آپ اس خبر میں پڑھ سکتے ہیں: جامعہ کراچی میں فارنسک لیب کےلیے 22 کروڑ روپے جاری

میں اس خبر سے ہٹ کر، کچھ اور باتیں کرنا چاہوں گا جو سائنس اور سیاست سے بیک وقت تعلق رکھتی ہیں۔

لڑکپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ سائنسداں اور جاسوس میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے: دونوں ہی شہادتوں کی تلاش کرتے ہیں اور انہیں کھنگالتے ہوئے ’نامعلوم‘ کو ’معلوم‘ بنانے کی جستجو میں مصروف رہتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بطورِ خاص گزشتہ ایک صدی کے دوران جرائم کی تفتیش میں سائنسی تکنیکوں اور سائنسی طریقہ کار کا استعمال بڑھتا گیا ہے اور یہ میدان ’’فارنسک سائنس‘‘ (Forensic Science) کے عنوان سے ایک باضابطہ اور مستحکم شعبے کی حیثیت سے سامنے آیا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر، یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ دورِ حاضر میں جرائم کی قابلِ بھروسہ تفتیش — کم و بیش مکمل طور پر — سائنسی تدابیر اور تکنیکوں ہی پر تکیہ کررہی ہے۔

اس کی حالیہ مشہور ترین مثال غالباً زینب قتل کیس سے دے جاسکتی ہے جس کی تفتیش میں ہر مرحلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ’’پنجاب فارنسک سائنس لیب‘‘ کی معاونت و رہنمائی حاصل رہی۔ مکمل غیر جانبداری سے کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب فارنسک سائنس لیب کی طرز پر تمام صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں بھی ایسی تجربہ گاہیں قائم ہونا ضروری ہے تاکہ جرائم کی بہتر، منظم اور تیز رفتار تفتیش ممکن بنائی جاسکے؛ اور مجرموں کو بروقت کیفرِ کردار تک پہنچایا جاسکے۔

اس ضمن میں پچھلے سال (2017 میں) اچھی خبر یہ ملی کہ سندھ اسمبلی نے ’’سندھ فارنسک سائنس ایجنسی‘‘ کے نام سے ایک اعلی اور بااختیار ادارہ قائم کرنے کےلیے باقاعدہ طور پر قانون منظور کرلیا۔ لیکن اس قانون پر عمل درآمد، انتہائی سست روی کا شکار رہا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس تاخیر کا سختی سے نوٹس لیا اور دو ماہ پہلے سندھ حکومت کو جلد از جلد یہ ادارہ فعال حالت میں قائم کرنے کےلیے ہدایات جاری کیں۔

صوبہ سندھ سے متعلق ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فارنسک سائنس کے ضمن میں درکار جدید تکنیکی سہولیات اور مہارتیں یہاں تقریباً غیر موجود ہیں؛ جبکہ پنجاب کی طرز پر ’’سندھ فارنسک سائنس ایجنسی‘‘ کا مکمل فعال انداز میں قیام ایک طویل اور صبر آزما کام بھی ہے۔ اس سب کے باوجود، یہ امر بہرحال قابلِ قدر ہے کہ سندھ حکومت نے اپنی کمزوریوں کا بروقت ادراک کرتے ہوئے، جامعہ کراچی کے عالمی مرکز برائے کیمیائی و حیاتی علوم (ICCBS) رابطہ کیا اور یکم اکتوبر 2018 کے روز ایک مفاہمتی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط بھی کیے تاکہ اس ادارے میں ’’فارنسک ڈی این اے اینڈ سیرولوجی لیب‘‘ قائم کی جائے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس فیصل عرب نے آئی سی سی بی ایس کے ذیلی تحقیقی مرکز ’’جمیل الرحمان سینٹر فار جینوم ریسرچ‘‘ کا دورہ کیا اور یہاں مجوزہ فارنسک لیبارٹری کےلیے امکانات کا جائزہ لینے کے بعد اطمینان ظاہر کیا۔ انہوں نے آئی سی سی بی ایس کے ذمہ داران سے کہا کہ وہ یہاں جلد از جلد ڈی این اے فارنسک اور سیرولوجی لیب کا قیام عمل میں لائیں۔ اس موقعے پر ڈاکٹر اقبال چوہدری نے واضح کردیا کہ جب تک ان کے ادارے کو مطلوبہ فنڈز نہیں ملیں گے، تب تک اس تجربہ گاہ پر کام بھی شروع نہیں ہوگا۔

سائیں سرکار کی روایتی سست روی کے باعث مزید ایک ماہ گزر گیا، یہاں تک کہ 24 نومبر 2018 کو قائم مقام چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے انتہائی سختی کے ساتھ حکومتِ سندھ کو ہدایت کی کہ دو ہفتے کے اندر اندر فارنسک لیب قائم کی جائے؛ اور نتیجتاً 5 دسمبر کو حکومت نے آئی سی سی بی ایس کو اس مقصد کےلیے 22 کروڑ روپے جاری کردیئے۔

کل یعنی 17 دسمبر 2018 کی دوپہر ہونے والی پریس کانفرنس بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جس کا مقصد عامۃ الناس کو یہ بتانا تھا کہ آئی سی سی بی ایس کو 22 کروڑ روپے مل چکے ہیں؛ اور یہ کہ مذکورہ تجربہ گاہ، جولائی 2019 تک اپنا کام شروع کردے گی۔ البتہ، ڈاکٹر اقبال چوہدری نے یہ بھی واضح کیا کہ اس تجربہ گاہ کو فعال ہونے کےلیے جن آلات کی ضرورت ہے، وہ پاکستان میں تیار ہی نہیں ہوتے اس لیے مجبوراً درآمد کیے جائیں گے، یعنی ان کی قیمت ڈالروں میں ادا کی جائے گی۔ دریں اثناء اگر ڈالر کی قیمت بڑھ گئی تو حکومتِ سندھ سے مزید رقم کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔

اس پریس کانفرنس میں جہاں ڈاکٹر اقبال چوہدری کا اعتماد قابلِ دید تھا وہیں یہ بات بھی بالخصوص قابلِ تعریف ہے کہ انہوں نے صحافیوں سے کوئی ایک جملہ بھی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ نہیں کہا۔ یعنی اس تجربہ گاہ کے معاملے میں آئی سی سی بی ایس کی جانب سے مکمل شفافیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔

اگر آپ نے ’’آئی سی سی بی ایس‘‘ کا نام نہیں سنا، تو برسبیلِ تذکرہ بتاتا چلوں کہ یہ جامعہ کراچی میں قائم ایک بہت بڑا اور عالمی شہرت یافتہ سائنسی مرکز ہے جو کیمیا (کیمسٹری) اور حیاتیات (بائیالوجی) کی تحقیق سے وابستہ ہے؛ اور جو یونیسکو کے مرکزِ فضیلت (سینٹر آف ایکسی لنس) کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ فی الحال یہ اعزاز پاکستان کے کسی اور تحقیقی ادارے کے پاس نہیں۔ آئی سی سی بی ایس بجائے خود کئی ایک ذیلی تحقیقی کا مجموعہ ہے جن میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری، ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ اور جمیل الرحمان سینٹر فار جینوم ریسرچ زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔

میرا شمار ان خوش نصیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس ادارے کو ’’ایچ ای جے‘‘ سے ’’آئی سی سی بی ایس‘‘ تک کا سفر کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ آج سے ستائیس سال پہلے، زمانہ طالب علمی میں اس ادارے کے ساتھ جو قلبی تعلق قائم ہوا تھا، وہ آج تک برقرار ہے۔ اسی تعلق اور مشاہدے کی بنیاد پر میں یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری نے آئی سی سی بی ایس میں دیگر ذمہ داران سے مشاورت کے بعد ہی یہ بھاری ذمہ داری قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا؛ کیونکہ کم از کم میں نے ڈاکٹر صاحب کو ایسی کوئی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے نہیں دیکھا جو وہ پوری نہ کرسکتے ہوں۔

شاید آپ کو یقین نہ آئے، لیکن راقم نے ڈاکٹر اقبال کو ایک ارب روپے کی ریسرچ گرانٹ یہ کہہ کر ٹھکراتے ہوئے دیکھا ہے کہ ابھی ہمارے ادارے کے متعلقہ افراد پی ایچ ڈی کرنے بیرونِ ملک گئے ہوئے ہیں۔ پہلے انہیں پی ایچ ڈی کرکے وطن واپس آجانے دیجیے، اگر انہوں نے کوئی موزوں ریسرچ پروجیکٹ تجویز کیا تو پھر گرانٹ کےلیے درخواست ضرور دی جائے گی۔

اب آپ خود سوچیے کہ جس ادارے کا سربراہ اس مزاج کا ہوگا، وہ ادارہ ایک بڑی گرانٹ قبول کرنے کے معاملے میں کتنا محتاط ہوگا۔ اگر ڈاکٹر اقبال چوہدری اور ان کے رفقائے کار یہ پریس کانفرنس نہ بھی کرتے، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن انہوں نے پورے شہر سے میڈیا نمائندگان کو بلا کر، ان کے سامنے یہ ساری تفصیلات نہ صرف بیان کیں بلکہ ہر طرح کے سوالات کے شافی جوابات بھی دیئے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس تجربہ گاہ کی اہمیت سے آگاہ ہیں اور جولائی 2019 تک یہ لیب مؤثر انداز میں فعال کرنا چاہتے ہیں (اور امید ہے کہ وہ ایسا کرلیں گے، ان شاء اللہ)۔ میڈیا کے سامنے ساری تفصیلات بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ کسی غیرمعمولی یا غیر ضروری دباؤ کا سامنا ہونے کی صورت میں ذرائع ابلاغ کا تعاون بھی حاصل رہے۔ اللہ کرے کہ یہ ضرورت پیش نہ آئے۔ لیکن پھر بھی، خدانخواستہ، اگر ایسا ہوا بھی تو کم از کم میڈیا تک بات ضرور پہنچ جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

علیم احمد

علیم احمد

بلاگر 1987ء سے سائنسی صحافت کررہے ہیں، ماہنامہ گلوبل سائنس سے پہلے وہ سائنس میگزین اور سائنس ڈائجسٹ کے مدیر رہ چکے ہیں، ریڈیو پاکستان سے سائنس کا ہفت روزہ پروگرام کرتے رہے ہیں۔ آپ ورلڈ کانفرنس آف سائنس جرنلسٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے پہلے صحافی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔