اے روشنیوں کے شہر بتا

نادر شاہ عادل  جمعرات 27 دسمبر 2018

جب ممتاز سماجی و اقتصادی مفکر سید اکبر زیدی نے یہ چونکا دینے والی بات اپنے ایک مضمون میں کہی کہ کراچی اب اردو بولنے والوں کا شہر نہیں رہا تو بہت سی جبینوں پر لسانی،اقتصادی ، ثقافتی اور نسلی شکنیں نمودار ہوئی تھیں مگر زیدی صاحب کا صائب انداز نظر شہر قائد میں تبدیلیوں کے فکری، معاشی، سماجی، علمی اور کثیر اللسانی سمیت شہر کی اصل کثرت پسندی سے مشروط تھا، وہ ملک میں بسنے والی دیگر قومیتوں اور ثقافتی و نسلی اکائیوں کی شہر میں یکساں معاشی ضرورت، آزادانہ جہد اللبقا اور اقتصادی ہب کی کشش کے باعث مسلسل آمد کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے۔

اس اعتبار سے منی پاکستان کا ایک عوامی تصور بین السطور میں موجود تھا، اگرچہ بعض لوگ ’’منی پاکستان‘‘ کی اصطلاح پر بھی برہم ہوتے ہیں، اس میں بھی اربن فاشزم، معاشی تفریق، شناختی تقسیم اور نسلی وافرادی طاقت کی بالادستی کی جبریت اور سیاسی آلودگی دیکھتے ہیں ۔ حالانکہ اس شہر نے تو کلیاں مانگی تھیں ، پوچھا جائے کہ اسے کانٹوں کا ہار کیوں ملا؟ ایشیا کا صاف ستھرا شہر کھنڈر کس نے بنایا؟ یہ تتلیوں کا شہر تھا جس کی سعی ناکام میں لوگ اپنوں سے بچھڑ جاتے تھے۔ شعلہ جس نے شہر کو 88-90 میں پھونک ڈالا کن طاغوتی قوتوں اور مونسٹرز کے اندر سے اٹھا۔ شہر کو اس سوال کا جواب چاہیے۔شہر پر پھر سے آسیب کے سائے ہیں۔

دوسرا فکری حلقہ کراچی کو عظیم شہروں کے باب میں یکتائے روزگار کہتا ہے، ارسطو کہتا ہے کہ ایک عظیم شہر محض گنجان آبادی کا نام نہیں۔ والٹ وائٹ مین کے بقول عظیم شہر اسے کہتے ہیں جس کے زن و مرد عظیم اور یکتائے روزگار ہوں۔ اہل فکر و نظر کراچی کو تقسیم ہند سے پہلے کی ماہی گیر بستی اور لیاری کے قدیم علاقے کی سماجی پسماندگی کے سیاق و سباق میں ایک زندہ اور ترقی کی تڑپ رکھنے والے میگا سٹی کی گنجائش کا حامل قرار دیتا ہے، اس کے نزدیک کراچی کی ترقی و تعمیر کسی ایک اکائی ، حکومتی، ریاستی یا طبقاتی گروہ بندی کا نتیجہ نہیں بلکہ شہر قائد کی اجتماعی تعمیر میں اہل تصوف کی سی بندہ نوازی کی خاموش اور انسانیت افروزلہر دوڑتی نظر آتی ہے، وہ اہل فکر ونظر جو کراچی کے تاریخی ارتقا، سماجی ومعاشی وسعتوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بندہ پروری اور بندہ نوازی میں شاید ہی ملک کا کوئی دوسرا شہر کراچی کا مقابہ کرسکے، ایک دانا کا کہنا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد اردو بولنے والوں کی پاکستان کی طرف ہجرت کا سب سے زیادہ فائدہ ماہی گیروں کی اسی بستی کو ہوا، یہ بات الگ ہے کہ سندھ مین لسانی کشیدگی نے جنم لیا، سندھی مہاجر تفریق کو میڈیا اور حکومت میں موجود عناصر نے انتہا تک پہنچایا ، لسانی بل کے اجرا سے نفرتیں بڑھیں مگر بھٹو نے بہتر سمجھا کہ اس روش کو ریاستی اور حکومتی شعلوں سے دور رکھا جائے، بعد ازاں جب 1973  کا آئین تشکیل پایا تو پرانی سیاست گری خوار ہوئی سو ہوئی بیوروکریسی میں بھی ایک واضح دراڑ نمودار ہوئی ، کہنہ اور فرسودہ سیاست میں فرد کے تاریخی کردار کی پہلی شمع کراچی کی مزاحمتی سیاسی جدوجہد میں روشن ہوئی اور ایک غریب ہاری ، مزارع اور دیہی باپ کا بیٹا بھی جج ، سول سرونٹ،انجینئر اور لیکچرر بننے کی صلاحیت،جستجو، لگن اور علمی استعداد اور فکری رواداری کے قافلہ کے ساتھ چل پڑا، یہ المیہ اسی زمانے کے بطن سے پیدا ہوا جسے ہم کوٹا سسٹم کہتے ہیں۔

اس پر اتفاق وانتقاد کا ایک دبستان ہے، بہت کچھ لکھا جا چکا ہے ، دیہی پسماندگی حقیقت تھی اور ہے ، بنیادی سہولتوں کی عدم فراوانی کا جواز بھی موجود تھا، اربن زندگی میں جھوٹے کلیموں، پرمٹوں کی بازی گری میں کراچی ایڈمنسٹریشن پر تفریق و امتیاز کے کئی ایک الزامات لگے، سندھ اور اربن تفاوت کے خاتمہ کے لیے اردو اور سندھی دانشوروں کے درمیان مکالمے کے کئی دور چلے، معاشی کشمکش تھی کہ اونچی ہوئی جارہی تھی ، لیکن کراچی میں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کے قیام سے جام صادق کے ہاتھ جادو کی تعمیراتی چھڑی کیا آئی کہ ماہی گیر بستی ’’ مائی کولاچی ‘‘ کی تقدیر بدل گئی، کلفٹن ،ڈیفنس کی ساحلی ریت نے سونے کے وہ انڈے دینے شروع کیے ، شتر مرغ سے بھی زیادہ بڑے تھے۔

کئی لوگ راتوں رات پلاٹ پرمٹ سیاست کے رتھوں پر سوار ہوکر شہر قائد کی ترقی وتعمیر کے ایک حیران کن کھیل میں شریک ہوئے ۔ ماڑی پور روڈ پر ایک گنجی گراؤنڈ ہوا کرتا تھا جس نے لیاری کے کئی بین الاقوامی سطح کے فٹ بالر پیدا کیے، اسی جگہ پیپلز اسٹیڈیم تعمیر ہوا ، وزیر مینشن ریلوے اسٹیشن بنا، سرکلر ریلوے یہاں سے گزرنے لگی، جامعہ کراچی جو بقول اسد اشرف ملک شہر سے گیارہ میل دور تھی اس یونیورسٹی روڈ کے اطراف بلند و بالا عمارتوں کے خوشنما ڈھانچے اٹھائے گئے، نجی جامعات کے سلسلے قائم ہوئے، سہراب گوٹھ میں باڑا مارکیٹ آئی ، گلشن اقبال، گلستان جوہر میں متوسط گھرانے آباد ہوئے، ویران قطعات اراضی کروڑوں کی ہوگئی، زیڈ اے نظامی کے ڈی اے کے ان افسران میں شمار ہوتے ہیں جن کی فعال سربراہی میں شہر کراچی نے تعمیرات اور انسانی بحالی و پھیلاؤ کے ریکارڈ قائم کیے۔ لینڈ گریبرز ، قبضہ مافیا اور بلڈرز کے طاقتور گروہ بعد میں سامنے آئے مگر بلدیہ عظمیٰ کی شاندار تاریخی بلڈنگ نے کراچی کے ابتدائی دور کی نگرانی میں حدود نظامت کراچی کے نظم ونسق کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جسے آج آنکھیں دیکھنے کو ترستی ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ سیاسی تقدیر نے کئی ایک سیاسی خانوادوں، کاروباری طبقوں سمیت نودولتیوں پر ترقی کے دروازے کھول دیے، 70 ء کی دہائی کراچی اور وفاق کے درمیان ایک نئے دور کا آغاز تھا،اس وقت کی پی پی حکومت پر لاکھ اعتراض کریں لیکن لب بستہ سیاسی اکثریت کو جو سیاست کی جاگیردارانہ غلام گردشوں میں رل رہی تھی پہلی بار لب کشائی کی جرات رندانہ نصیب ہوئی، دیکھتے ہی دیکھتے شہری اور دیہی تقسیم کے معاشی اور ثقافتی ڈائنامکس بدلتے گئے، کراچی نے ملک کے سب سے بڑے شہر کے نام پر ملکی معاشی تقدیر کی صورتگری میں اپنا کردار کشادہ دلی سے ادا کرنا شروع کیا، دارالخلافہ یہاں سے اسلام آباد چلاگیا مگر کراچی کا دل اسلام اور اسلام آباد کے ساتھ دھڑکنے لگا ، سٹیبلشنٹ کا کردار آئینی دائرہ میں تھا، سیاسی کشمکش تھی، نظریاتی جنگ کے شعلے بھی ملکی سیاسی افق پر دیکھے جاتے تھے، مگر جمہوریت کا سفر جاری تھا ۔

اس لیے کراچی کو ایک عظیم شہر بنانے کی جستجو وفاقی اکائیوں کی اجتماعی میراث بن چکی تھی، ملک کے کونے کونے سے محنت کش خاندان کراچی آکر بستے چلے گئے، یہ طرز حکمرانی میں ابھرنے والی مضمر خرابی تھی کہ جن میئر صاحبان کے دور میں عوامی بیت الخلا صبح صادق کے وقت دھوئے صاف کیے جاتے تھے، جس شہر کی سڑکیں دھوئی جاتی تھی، جہاں ایک سائیکل سوار رات کو بتی جلانے اور اونٹ گاڑی اور گدھا گاڑی والا رات کو چراغ روشن رکھنے کا قانونی طور پر پابند تھا، بابا امرجلیل کے بقول جگہ جگہ جانوروں کے لیے پانی کے چھوٹے تالاب ’’پیالو‘‘بنے ہوئے تھے، انسداد بے رحمی حیوانات کا محکمہ آج کی سپریم کورٹ کی طرح فعال تھی اس شہر میں قانون شکنی کا ایسا لاوا پھٹ پڑا اور انسان دشمنی کی ایسی اندھی آندھی چلی کہ سب کچھ برباد ہو گیا، ایک عظیم شہر کچرے کے ڈھیر میں بدل گیا۔ آج کراچی میں ماضی کی مائی کولاچی کی صاف راکھ بھی نہیں ملتی ،کریدتے ہو کیوں اب راکھ جستجو کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔