پاکستان کے بُدھ شاہ کار

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 24 فروری 2019
ہمارے ملک میں موجود بُدھ مت کے آثار، جو سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہمارے ملک میں موجود بُدھ مت کے آثار، جو سیاحت کے فروغ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

آج دنیا میں لگ بھگ 4200 کے قریب مختلف مذاہب موجود ہیں جن میں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک’’بْدھ مت‘‘ بھی ہے جو اپنے ساڑھے پانچ کروڑ پیروکاروں کے سا تھ دنیا کا پانچواں بڑا مذہب ہے۔ دنیا کینو تا دس فی صد لوگ اس مذہب کے ماننے والے ہیں۔

بدھ مت ایک مذہب، ایک فلسفہ ہے جو مختلف روایات، عقائد اور طرزِعمل پر مشتمل ہے، اس کی زیادہ تر تعلیمات’’سدھارتھ گوتم‘‘ کی طرف منسوب ہیں۔ بدھ مت کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس مذہب کے بانی’’گوتم بدھ‘‘ کو سمجھنا ہو گا۔

سدھارتھ ہمالیہ کی ایک ریاست میں پیدا ہوئے تھے جہاں آریائی قبیلہ ساکیہ (یا شاکیہ) آباد تھا، یہ اس قبیلے کے راجا کے چشم و چراغ تھے۔ گوتم کی ماں کا نام مایا تھا۔ گوتم کے سالِ ولادت میں سخت اختلاف ہے۔ عام طور پر 563 ق م بتایا گیا ہے۔ ان کے نام پر بھی اختلافات ہیں، بعض لوگوں نے سِدارتھ پہلا نام اور گوتم قبائلی نام بتایا ہے۔

گوتم کے بچپن کے حالات مستند کتابوں میں نہیں ملتے اور جو ملتے ہیں وہ پیروکاروں کی عقیدت سے اس بری طرح متاثر ہوئے ہیں کہ ان کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا۔ بہرحال تاریخ سے اتنا پتا چلتا ہے کہ انہوں نے رواج کے مطابق علم و فنون اور سپاہ گری میں مہارت پیدا کی اور کم سنی میں ہی ان کی شادی یشودھرا سے کردی گئی۔ بعض روایات کے مطابق گوتم جب جب تیس برس کے ہوئے تو ان میں ذہنی تبدیلی پیدا ہوئی۔ کچھ طبعی رجحان اور کچھ زندگی کے تلخ واقعات نے گوتم کو مجبور کیا کہ وہ ابدی سکون و مسرت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس کے حصول کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔

روایات کے مطابق گوتم گھر چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گئے، جہاں انہوں نے چھے سال مختلف ریاضتوں میں گزارے۔ جس میں گھاس پھوس کھانا، دھیان لگانا، گھنٹوں کھڑے رہنا، کانٹوں پر لیٹ جانا، جسم پر خاک ملنا، سر اور داڑھی کے بال نوچنا اور اس طرح کے دوسرے سخت مجاہدات میں مشغول رہے۔ آخر ان پر یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ جسم کی آزادی اور اس طرح کے مجاہدات سے تسکین ناممکن ہے، چناںچہ انہوں نے کھانا پینا شروع کردیا اور اپنے چیلوں سے یہ کہا کہ ریاضت کے یہ تمام طریقے غلط ہیں۔ چناںچہ وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے۔

چیلوں کے چلے جانے کے بعد گوتم سخت ہیجان میں مبتلا ہو گئے۔ آخر وہ’’بْدھ گیا‘‘ میں جو اس وقت غیرآباد علاقہ تھا، ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اس واقعے کے بعد انہوں نے تہیہ کرلیا کہ جب تک ان پر حقائق ظاہر نہ ہوں گے وہ اسی طرح مراقبے میں رہیں گے۔ دفعتاً غروب آفتاب کے وقت ان کے ذہن میں ایک چمک پیدا ہوئی اور ان پر یہ حقائق عیاں ہوئے کہ ’’صفائے باطن اور محبتِ خلق‘‘ میں ہی فلاح ابدی کا راز مضمر ہے اور تکلیف سے رہائی کے یہی دو طریقے ہیں۔ انہوں نے حیات کے چشمہ موت اور زندگی کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا۔ ہر حیات کو موت سے اور موت کو حیات سے وابستہ پایا۔

اس نوری کیفیت اور انکشاف کے بعد وہ’’بْدھ‘‘ یعنی روشن ضمیر ہو گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ غلطی اور جہالت کے دھندلکوں سے آزاد ہوچکے ہیں۔ انسانی مصاحبوں کے علاج جان لینے کے بعد وہ بنارس آئے اور وہاں ایک مقام مگادیہ میں قیام کیا۔ ان کے چیلے جو انہیں چھوڑ کر جا چکے تھے وہ یہاں اْن سے آن ملے۔ چناںچہ انہوں نے اپنے چیلوں کو اپنی تعلیمات سے روشناس کرایا اور زندگی و موت کے حقائق انہیں سمجھائے۔ آخر وہ ان سے متاثر ہوکر ان کے دین میں داخل ہو گئے۔ ان کی بزرگی و علم کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا اور بہت سے لوگ ان کی کرامتوں کو دیکھ کر ان کے مذہب میں داخل ہو گئے۔

یہاں سے گوتم’’راج گڑھ‘‘ گئے جہاں اْنہوں نے کئی سال گزارے۔ وہ ہر سال گرمی اور جاڑے میں تبلیغ کے لیے نکلتے اور برسات میں واپس آجاتے۔ الغرض چند سال کے اندر گوتم کا مذہب تیزی سے پھیل گیا۔ چوالیس سال تک گوتم اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے رہے اور اس سلسلے میں ہندوستان کے مختلف مقامات پر گئے۔ ان کی حیات میں ان کا مذہب تیزی سے مقبول ہو گیا اور دور دور تک ان کے مبلغین ہندوستان کے ہر حصے میں پہنچ گئے اور لوگوں کو اس نئے مذہب’’ بُدھ مت‘‘سے روشناس کرایا۔ عام روایات کے مطابق گوتم نے 80 سال کی عمر میں 384 ق م میں وفات پائی۔ ہندو رسم کے مطابق ان کی لاش نذرآتش کردی گئی۔

دنیا میں گوتم بدھ کے مذہب بدھ مت کے ماننے والے زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک (سِنگاپور، برما، لاؤس، تھائی لینڈ، ویتنام، تائیوان، کمبوڈیا) چین، جاپان، نیپال، بھوٹان، کوریا، سری لنکا، منگولیا اور بھارت میں رہتے ہیں۔ لیکن حیران کُن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان، جہاں بدھ مذہب کے پیروکاروں کی تعداد صرف 2000-1500 کے لگ بھگ ہے، بدھ مت کی وسیع اور مُستند تاریخ رکھتا ہے۔ اِسلام، ہندومت اور سکھ مت کے علاوہ پاکستان بدھ مت کی عظیم خانقاہوں، اسٹوپوں اور قدیم یونیورسٹیوں کا مسکن رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے علاقے خاص طور پر بدھ مت کے زرخیز تاریخی اور ثقافتی ورثے کے امین ہیں۔

پاکستان میں بدھ اِزم کی تاریخ تقریباً 2،300 سال قدیم ہے جو راجا اشوک کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ ہند یونانی سلطنت، اشوکا کی میورا سلطنت، کشان کی سلطنت اور پالا سلطنت میں پائی جانے والی کئی بدھ عمارتیں اور ان کی باقیات آج کے پاکستان کا حِصہ ہیں۔ پاکستان میں کئی علاقوں سے بدھ مت کے آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں جن میں برتن، مورتیاں، سِکے، کئی روزمرہ کی اشیاء سمیت درس گاہیں، خانقاہیں اور اشوک کے زمانے میں بنائے گئے سیکڑوں اسٹوپے شامل ہیں۔ پشاور اور ٹیکسلا کے میوزیم بدھ مت کی تاریخ سے بھرے پڑے ہیں۔ لاہور میوزیم میں بھی بدھا کی نادر مورتیاں رکھی گئی ہیں۔ پاکستان میں کئی جگہوں سے بدھ مذہب کے آثار دریافت ہوئے ہیں۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔

 گلگت بلتستان:

7 ویں صدی کے آخر میں بدھ اِزم نے گلگت بلتستان میں قدم رکھا۔ اِسلام سے پہلے بلتستان کے لوگ بدھ مت اور بون مذہب کے ماننے والے تھے۔ آج بھی اس خطے میں کئی جگہوں پر بُدھ آثار ملتے ہیں جن میں منتھل بدھا کی چٹان اور ہُنزہ کی مقدس چٹان سرِ فہرست ہیں۔

٭ منتھل بُدھا، اسکردو:  اسکردو سے’’ ست پارہ جھیل‘‘ کی طرف جائیں تو راستے میں ایک سڑک مْڑتی ہے جو 3 کلومیٹر کے سفر کے بعد آپ کو گرینائٹ کی ایک بڑی چٹان تک لے جائے گی جہاں گوتم بدھا کی مختلف اشکال کُندہ ہیں۔9 صدی کی یہ چٹان آٹھویں اور دسویں صدی کے درمیان بالائی سندھ کی وادی میں قائم بدھ سلطنت کے سنہری دور کی یادگار ہے۔ اس پیلی چٹان پر کُندہ شکلوں میں بُدھا کو اپنے پیروکاروں کے بیچ میں مراقبے کی حالت میں دکھایا گیا ہے۔  سال 1906 میں ایک اسکاٹش سیاح ایلا نے اپنی کتاب میں اس چٹان کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔

٭  ہُنزہ کی مقدس چٹان: وادی ہنزہ میں کریم آباد کے ساتھ ایک چھوٹا سا قصبہ’’ہلدیکش‘‘ کے نام سے آباد ہے جہاں ایک پہاڑی کے اوپر، دریائے ہُنزہ کے کنارے بدھ مت کی یہ مقدس کُندہ چٹان موجود ہے جو ہزاروں سال قدیم ہے۔ اِس چٹان کے دو حِصے ہیں اور دونوں پر مختلف تصاویر اور عبارتیں کندہ ہیں۔ یہ جگہ ایک زمانے میں بدھ پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے اسکو اپنی تحویل میں لے کر محفوظ کر رکھا ہے لیکن دریائے ہنزہ میں آنے والے سیلاب اس قدیم ثقافتی ورثے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔15 ویں صدی میں اسلام کی آمد کے بعد بہت سے بُدھسٹ، مسلمان ہو گئے اور جو چند ایک بچے تھے وہ “لداخ‘‘ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں آج بھی بُدھوں کی اکثریت ہے۔

 خیبر پختونخواہ:

گندھارا تہذیب کا مسکن ہونے کی وجہ سے خیبرپختونخواہ بدھ مت کا گڑھ تھا اور یہاں جا بجا مختلف خانقاہیں، درس گاہیں، میوزیم اور اسٹوپے بکھرے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر ہو جائے اس قدیم بُدھ تہذیب کا جس کی بدولت بْدھ مذہب یہاں تک پھیلا۔

٭ گندھارا:  گندھارا بدھ مت کی ایک قدیم سلطنت تھی جو شمالی پاکستان میں خیبر پختونخوا او پنجاب میں پوٹھوہار کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی۔ پشاور، ٹیکسلا، ہری پور، تخت بھائی، سوات، دیر اور چارسدہ اس کے اہم مرکز تھے۔ گندھارا چھٹی صدی قبل مسیح سے گیارہویں صدی تک قائم رہی۔گندھارا کا ذکر رگ وید اور بُدھ روایات دونوں میں موجود ہے۔ چینی سیاح’’ہیون سانگ‘‘ (جو یہاں زیارتوں کے لیے آیا تھا) نے تفصیل سے اس کا ذکر کیا ہے۔ کشان دور گندھارا کی تاریخ کا سنہرا دور تھا۔ کشان بادشاہ’’کنِشک‘‘ کے عہد میں گندھارا تہذیب اپنے عروج پر پہنچی۔ گندھارا بدھ مت کی تعلیمات کا مرکز بن گیا اور لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔

پانچوں صدی میں ہُن حملہ آوروں کے آنے سے یہاں بدھ مت کا زوال شروع ہو گیا۔ محمود غزنوی کے حملوں کے بعد گندھارا بھی تاریخ سے محو ہو گیا۔ گندھارا کی سرحدیں وادیٔ کابل سے لے کر دریائے سندھ کے پار تک تھیں جس میں صوابی، سوات، مردان اور راولپنڈی تک کے علاقے شامل تھے۔ عرب مورخین گندھارا کی ہندوستانی سلطنت کو قندھار (گندھار) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ بدھ مذہب کی کتابوں میں بھی گندھارا کا ذکر ملتا ہے۔ گوتم بدھ کے زمانے میں ٹیکسلا کی شہرت ایک علمی مرکز کی تھی، جہاں دور دور سے لوگ حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔

٭تختِ بھائی، مردان:  اب ذرا ذِکر ہو جائے گندھارا تہذیب کے اس مرکز کا جس نے دور دور سے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی ہے۔ یہ ذِکر ہے ضلع مردان کی تحصیل تختِ بھائی کا جہاں تخت بھائی بازار سے 2 کلومیٹر دور ایک چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر موجود گندھارا کی بہترین طرزِتعمیر کی حامل بدھ خانقاہ اور اس کے آثار واقع ہیں جو عالمی ثقافتی ورثے کا حِصہ ہے۔ تخت نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ایک پہاڑی پر واقع ہے اور بھائی (فارسی میں پانی کو کہتے ہیں ) اس لیے کہ اس کے ساتھ ہی ایک دریا بہتا تھا۔ تخت بھائی ضلع مردان کا سب سے زرخیز علاقہ ہے۔ اس زمین کی زرخیزی کے پیشِ نظر ایشیا کی پہلی شوگرمل برطانوی راج میں یہاں بدھ خانقاہ کے نزدیک بنائی گئی تھی۔

یہ جگہ بدھ مت کی قدیم تہذیب و تمدن کے بارے میں نہایت مفصل معلومات و شواہد فراہم کرتی ہے۔ اس گاؤں کی بنیاد ایک قدیم قصبے کی باقیات پر رکھی گئی تھی، وہ باقیات آج بھی عمدہ حالت میں موجود ہیں۔ یہاں پائے جانے والے قدیم زمانے کے سکوں سے پتا چلتا ہے کہ یہاں بدھ مت اور ہندودھرم کے لوگ آباد تھے۔ یہاں تعمیر کی گئی عمارتیں جو راہبوں کے لیے بنوائی گئی تھیں، ہر لحاظ سے تمام تر ضروریات ِ زندگی سے آراستہ تھیں۔ پہاڑی کے اوپر رہنے والوں کے لیے بھی فراہمی آب کا انتظام تھا۔ عمارتوں کی دیواروں میں ہوا کی آمد و رفت کے لیے روشندان اور رات میں تیل کے چراغ روشن کرنے کے لیے طاق بھی بنائے گئے تھے۔ کھدائی کے دوران یہاں جو چیزیں دریافت کی گئی ہیں، اُن میں بدھ مت کی عبادت گاہیں، صومعہ، عبادت گاہوں کے کھلے صحن، جلسہ گاہیں، بڑے بڑے ایستادہ مجسمے اور مجسموں کے نقش و نگار سے مزین بلندوبالا دیواریں شامل ہیں۔ پہلی مرتبہ تخت بھائی کی تاریخی حیثیت کی طرف توجہ 1836ء میں فرانسیسی آفیسر جنرل کورٹ نے مبذول کرائی تھی جب کہ تحقیق اور کھدائی کے کام کا آغاز 1852ء میں شروع کیا گیا۔

تاریخ، نوادرات اور آثارِقدیمہ سے محبت رکھنے والوں کے لیے یہ ایک نہایت بہترین جگہ ہے۔

٭ سیری/سہری بہلول:  تخت بھائی کے قریب، مالاکنڈ مردان روڈ پر واقع یہ سائِٹ 1980 سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی لسٹ میں شامل ہے۔ شہرِ بہلول یا سہری بہلول کے آثار دراصل کشان دور میں بسائے گئے ایک قدیم قلعہ بند شہر کو ظاہر کرتے ہیں۔ لفظ سیھری بہلول کی کئی لوگوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہندی لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ‘‘سر بہلول‘‘ جو علاقے کے ایک سیاسی و مذہبی شخصیت تھے۔ تاہم یہ نام اتنا پرانا نہیں کہ جتنا پرانا یہ گاؤں ہے۔ یہاں موجود بُدھا کی باقیات کو ابھی تک مکمل طور پر نہیں کھودا گیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ مقامی افراد نے اپنے گھروں میں بھی غیر قانونی کھدائیاں کر کہ اس سائیٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہاں سے عام طور پر برتن، مورتیاں، زیور اور سِکے دریافت کیے گئے ہیں۔ یہ جگہ ایک بلند ٹیلے پر واقع ہے جس کے ارد گرد زرخیز کھیت کھلیان ہیں۔ اس جگہ کو حکومتی اور بین الاقوامی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔

٭ شہباز گڑھی و جمال گڑھی، مردان:  مردان شہر سے 12 کلومیٹر شمال میں واقع شہباز گڑھی، پہاڑوں سے گھرا ایک حسین و سرسبز گاؤں ہے جہاں کچھ اونچائی پر تیسری صدی ق م میں اشوکا دور کی ایک کُندہ چٹان واقع ہے۔ دو بڑے بڑے ٹکڑوں پر مشتمل اس چٹان پر کُندہ عبارتیں قدیم رسم الخط’’خروشتی‘‘ میں لکھی گئی ہیں۔ اس کی تاریخی اہمیت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پورے جنوبی ایشیا میں قدیم دور کی عبارتوں اور رسم الخط کی یہ پہلی مثال ہے۔ یہ چٹان بھی یونیسکو کے علامی ثقافتی ورثے کا حِصہ ہے۔

مردان کے شمال میں 13 کلومیٹر دور واقع’’جمال گڑھی‘‘ قدیم زمانے کی ایک بُدھ خانقاہ رہی ہے جو غالباً پہلی سے پانچویں صدی تک قائم رہی۔ جمال گڑھی کے کھنڈرات کو 1848 میں برطانوی ماہرآثارِقدیمہ سر الیگزینڈر کنِنگھم نے دریافت کیا تھا۔ یہاں ایک اسٹوپا بھی موجود تھا جو کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں۔ جمال ڈھیرئی کے کھنڈرات سے دریافت کیے گئے مجسمے اور بت آج برٹش میوزیم اور کلکتہ میوزیم کی رونق ہیں جب کہ خانقاہ سے دریافت شدہ خروشتی رسم الخط کا نمونہ پشاور میوزیم بھِجوا دیا گیا تھا۔

٭ پُشکلا وتی، چارسدہ:  گندھارا سلطنت کے پایۂ تخت، پُشکلاوتی، کے کھنڈرات آج کے چارسدہ شہر سے کچھ باہر دریائے کابل اور سوات کے سنگم پر موجود ہیں۔ پُشکلاوتی سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ” کنول کے پھول کا شہر۔‘‘ ہندوؤں کی مقدس کتاب’’رامائن‘‘ کے مطابق اس شہر کی بنیاد راجا رام کے بھتیجے’’پشکلا‘‘ (جس کے بھائی تاکشا کے نام پر ٹیکسلا کا شہر آباد ہے) نے دریائے سندھ کے مغربی جانب رکھی تھی۔ پشکلاوتی کے کھنڈرات میں دو شہروں کی باقیات اور کئی اسٹوپے شامل ہیں۔

یہاں دریائے کابل کی تین شاخیں آپس میں ملتی ہیں۔ اس خاص جگہ کو’’پرانگ‘‘ کہا جاتا ہے جو مقدس خیال کی جاتی ہے۔ اس کے شمال میں چارسدہ کا قبرستان واقع ہے جسے دنیا کے بڑے قبرستانوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

٭ وادیٔ زیریں سوات:  زیریں سوات کی وادی ضلع سوات، ضلع لوئر دیر اور مالاکنڈ پر مشتمل ایک اہم تاریخی علاقہ ہے جہاں آریائی لوگوں کے ابتدائی دور کے آثار موجود ہیں۔ دریائے سوات کی جنوبی وادی کئی ہزار سال سے حملہ آوروں کی آماجگاہ رہی ہے یہاں چکدرہ برج سے لے کر سیدوشریف تک گندھارا کے آثار، بدھ خانقاہیں اور شاہی عمارتیں بِکھری ہوئی ہیں۔ زیادہ تر قدیم تاریخی جگہیں بریکوٹ سیدو شریف اور اوڈیگرام کے آس پاس ہیں۔

٭ بری کوٹ، سوات:  وادیٔ سوات کا دروازہ بریکوٹ، دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ سکندرِاعظم کے بسائے گئے شہر’’بزیرہ‘‘ کے آثاروں پر آباد ہے جسے ایک اطالوی ٹیم 1984 سے کھود رہی ہے۔ یہاں دریافت ہونے والی قابلِ توجہ اشیاء میں سے اپنے گھوڑے پر سوار، سدھارتھ بُدھا کا بڑا سبز مجسمہ اور چٹان میں کھدی دو شیروں والے اسٹوپے کی شباہت شامل ہیں۔

ایک اور شاہکار شراب کے یونانی دیوتا’’ڈیانوسس‘‘ کا مجسمہ ہے جس میں گھنگریالے بالوں والے، تخت نشیں اس دیوتا نے ایک ہاتھ میں جام اور دوسرے میں بکرے کا سر اْٹھا رکھا ہے۔

کشان سلطنت میں یہ شہر ایک بڑی منڈی کے طور پر ابھر کر آیا لیکن تیسری صدی میں آنے والے پہ در پے زلزلوں نے اسے تباہ کردیا اور شاید اسی وجہ سے بزیرہ کا شہر ختم ہو کر رہ گیا۔

٭ سیدو شریف، سوات:  سیدو اور اس سے ملحقہ شہر منگورہ کے آس پاس کئی بدھ متبرک مقام واقع ہیں جن میں علی گرامہ، بتکارہ 1 اور 2، متلائی اور دریائے جمبیل کی وادی شامل ہیں۔ سیدو کے آس پاس کے کئی علاقوں سے گوتم بْدھا کے مجسمے دریافت ہوئے ہیں جن میں اکثر چٹانوں میں کُھدے ہوئے ہیں۔

٭ اوڈیگرام:  اوڈیگرام، سیدو شہر سے 8 کلومیٹر دور واقع ہے۔ برٹش ماہر آثارِ قدیمہ اسٹین نے اسے’’اورا‘‘ شہر قرار دیا ہے جہاں سکندرِ اعظم نے ایک جنگ لڑی تھی۔ 1950 میں اطالوی ماہرین کی زیرِنگرانی یہاں کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔ شاہی ہندو دور میں یہ سوات کا دارالسلطنت تھا۔

٭ منگلور کی چٹان، سوات:  سوات کے شہر منگورہ سے تقریباً 9 کلومیٹرمشرق میں منگلور (یا منگلاوار) واقع ہے جو تحصیل بابوزئی کا ایک قصبہ ہے۔ ہے تو یہ پاکستان کے عام قصبوں کی طرح لیکن اس کی ایک خاص بات ہے۔ وہ یہ کہ سوات کے اس قدیم دارالسلطنت میں چٹان میں کھدا ہوا بُدھا کا دوسرا بڑا مجسمہ موجود ہے۔ اس وادی میں بنجوٹ، سلدارہ، ننگڑیال اور جہان آباد کے علاقوں میں کئی بُدھا کے مجسمے موجود ہیں جن میں زیادہ تر چٹانون میں کُندہ ہیں۔ یہاں سب سے مشہور مجسمہ جہان آباد کا’’سخورائی بدھا‘‘ مجسمہ ہے۔ یہ وادی آثارِقدیمہ سے محبت رکھنے والوں کے لیے ایک جنت ہے۔

٭ بت کڑہ اسٹوپا، مینگور:  مینگورہ کے نزدیک واقع بت کڑہ کا اسٹوپا میورا کے راجا اشوک نے بنوایا تھا۔ اس اسٹوپے کی کھدائی اطالوی ماہرین آثارِ قدیمہ نے 1956 میں کروائی۔ یہاں سے ایک بڑی تعداد میں نکالے جانے والے آثارِ قدیمہ کی باقیات کو اٹلی کے شہر’’تورینو‘‘ کے میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

٭ چکدرہ ، لوئر دیر:  ضلع لوئر دیر کا دوسرا بڑا شہر چکدرہ ، دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات کے سنگم پر واقع ہے۔ 3500 سال سے ایک اہم مرکزی شہر ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شہر گندھارا سلطنت کے آثارِقدیمہ اور ہندوؤں کے قلعوں کے حوالے سے بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں دم کوٹ ہِل کی چوٹی کی کھدائی سے ملنے والے برتن اور زیورات سوات کے سیدو شریف میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ 65-1962 میں احمد حسن دانی نے کھدائی کے دوران یہاں سے پہلی صدی کا قدیم بدھ اسٹوپا اور خانقاہ دریافت کیے ہیں۔ اس چٹان کے نیچے بھی کُندہ بُدھ عبارتیں ملی ہیں۔

چکدرہ سے کچھ شمال میں اُچ کے دیہات کے قریب گْل آباد میں بھی’’آندند ڈھیرئی‘‘ کے آثارِقدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ چینی زائر’’ژوان زینگ‘‘ کے مطابق اس جگہ سے ایک واقعہ منسوب ہے وہ یہ کہ یہاں آئے قحط سے لوگوں کو بچانے کے لیے بُدھا نے اس وادی میں مرے ہوئے اژدہے کا روپ دھار لیا تھا تاکہ بھوکے لوگ اس اژدہے کو کاٹ کر اپنا پیٹ بھر سکیں۔

آندند ڈھیرئی سے کچھ دور’’نِموگ رام‘‘ بْدھ خانقاہ اور اسٹوپا کے کھنڈرات واقع ہیں۔ یہاں پر تین اسٹوپا موجود ہیں جو بدھ مت کے تین اصولوں بُدھا ایک استاد، دھرم اور سنگھ (بدھ مت کے بھکشوؤں کی جماعت جنھوں نے دنیا سے مکمل طور پر ناتا توڑ کر حصولِ نروان کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا )، کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں دریائے سوات کے پُل سے آدھا کلومیٹر دور واقع’’دیر میوزیم‘‘ میں بُدھ اور ہندو سلطنتوں کی نادر اشیاء سمیت مقامی ثقافت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

٭ عزیز ڈھیرئی، صوابی:  عزیز ڈھیرئی، ضلع صوابی میں’’گنگو ڈھیرئی‘‘ نامی قصبے سے 3 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ جگہ 1976 میں دریافت کی گئی تھی لیکن اس کی کھدائی 1993 میں شروع کی گئی۔ عزیز ڈھیرئی چند وجوہات کی بنا پر بہت اہم ہے جیسے کہ یہاں آپ کو قدیم زمانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے بسائی گئی بستیاں ملیں گی۔ دوسرا یہ گندھارا تہذیب کی وہ جگہ ہے جو آپ کو بغیر کسی رکاوٹ کے، دوسری صدی ق م سے لے کر اسلامی سلطنت تک کی تمام ثقافتی تصویر پیش کرتی ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارِقدیمہ کی مدد سے جب یہاں کی کھدائی کی گئی تو کئی چیزیں اور تہیں دریافت ہوئیں جواس جگہ کی گندھارا سلطنت میں اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ یہاں ایک جگہ کو’’متبرک مقام‘‘ کا نام دیا گیا ہے جہاں کئی اسٹوپے واقع ہیں جن کے درمیان ایک بارانی نالا بھی گزرتا ہے۔ یہاں مذہبی عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔

٭ ہُنڈ، صوابی:  قلعہ اٹک سے 15 کلومیٹر دور دریائے سندھ کے مغربی کنارے واقع ضِلع صوابی کا یہ چھوٹا سا قصبہ بُدھ تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے سکندرِاعظم اور اس کی فوجوں نے شیر دریا، اباسین کو عبور کیا اور پنجاب پر حملہ آور ہوئے۔ 11 ویں صدی تک ہندو شاہی حکم رانوں کے زیرِ حکومت ہُنڈ ، گندھارا سلطنت کا آخری پایۂ تخت تھا (جو تقریباً 300 سال تک ہندو شاہی ریاست کا صدر مقام رہا) جس کے بعد یہاں محمود غزنی کی حکومت شروع ہوئی جب کہ ہندو سلطنت کے صدر مقام کو کوہِ نمک کے علاقے’’نندنہ‘‘ منتقل کردیا گیا۔ بادشاہ اکبر کے بنائے گئے ایک قلعے کے کھنڈرات اب بھی یہاں موجود ہیں۔ اس کی شان و شوکت کو ختم کرنے کی لیے مغلوں نے سندھ کے اُس پار اٹک کا شہر بسایا جس نے بتدریج اس شہر کی اہمیت کم کردی اور آج ہنڈ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ یہاں سے دریافت شدہ دیواروں کے ٹکڑے، سِکے اور سنسکرت رسم الخط کے نمونوں کو پشاور میوزیم میں رکھا گیا ہے۔

٭ کنِشک سٹوپا پشاور:  پشاور شہر کے نواح میں واقع یہ اسٹوپا دوسری صدی ق م میں کشان سلطنت کے حکم راں کنشکا نے بدھ مذہب کی باقیات کو محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ کھدائی کے بعد بُدھ مت کی متبرک اشیاء کو برما کے شہر’’مانڈلے‘‘ منتقل کر دیا گیا۔ بُدھوں کے مطابق گوتم بُدھا نے مرنے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اسی جگہ کنشکا اپنے نام سے ایک اونچی عمارت بنائے گا۔

ہُن حکم رانوں نے اس اسٹوپے کو بھی نہ بخشا۔ لیکن عقیدے مندوں نے اس کی پتھریلی بنیاد پر لکڑی سے اسے دوبارہ تعمیر کیا اور سب سے اوپر تانبے کی 13 تہوں سے خوب صورت نقش نگاری کی گئی۔ یہ اپنی طرز کا ایک منفرد اسٹوپا تھا جو مینار کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی کھدائی ڈیوڈ اسپونر کی زیرِنگرانی 1908 میں شروع کی گئی اور اس کہ تہہ سے نہایت قیمتی چھ کونوں والا صندوقچہ برآمد کیا گیا۔ اس صندوقچے میں بُدھا کی ہڈیوں کے تین حِصے رکھے تھے جو برما کے شہر مانڈلے بھیج دیے گئے جبکہ صندوقچے کو پشاور میوزیم کی زینت بنا دیا گیا۔

پشاور میں گنج گیٹ کے باہر واقع آج بھی یہ خستہ حال جگہ حکومت اور محکمہ آثارِقدیمہ کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

٭بھامالا سٹوپا، ہری پور: ضلع ہری پور میں خانپور کے ساتھ بھامالا کے کھنڈرات واقع ہیں جو ایک زمانے میں’’بہامالہ بُدھ کمپلیکس‘‘ کا حِصہ ہوا کرتا تھا۔ اس سائیٹ کو 1929 میں سر جون مارشل اور سر سُفیان ملک نے مل کر کھودا تھا۔ اس کھدائی کو 2017 میں بند کر دیا گیا ہے۔ یہ جگہ بھی یونیسکو کی’’عالمی ثقافتی ورثہ‘‘ کی فہرست میں شامل ہے۔ اس فہرست میں جگہ بنانے کے بعد یہاں بحالی کا بہت کام ہوا ہے اور بلاشبہہ یہ ٹیکسلا وادی کی بہترین طریقے سے محفوظ کی گئی جگہوں میں سے ایک ہے۔

یہاں موجود مرکزی اسٹوپا ایک صلیب کی شکل کا ہے اور پوری ٹیکسلا وگندھارا کی وادی میں اس مخصوص شکل کا یہ سب سے بڑا محفوظ اسٹوپا ہے۔ صلیب نما اس اسٹوپے پر کسی قدیم اہرام کا گماں ہوتا ہے۔ اس کے اردگرد بھی تقریباً 19 چھوٹے چھوٹے اسٹوپے واقع ہیں جو اس کی دل کشی میں اور اضافہ کرتے ہیں۔

٭ آہن پوش، اورکزئی:  اورکزئی ایجنسی میں واقع اس جگہ کھودی گئی بدھ خانقاہ اور اسٹوپے سے بُدھ دھرم کی کئی متبرک اشیاء دریافت ہوئی ہیں۔ ان میں گندھارا کا سُنہری تعویز، کشان کے بادشاہ کنشک اور سلطنتِ روم کے بادشاہ تراجن کے دور کے سونے کے سکے جن پر گوتم بدھ کی تصویر بنی ہے، شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ قیمتی اشیاء آج برٹش میوزیم کا حصہ ہیں اور حکومتِ پاکستان نے انہیں واپس لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

٭ شپولا اسٹوپا، خیبر: پشاور سے طورخم کی طرف جائیں تو علی مسجد اور لنڈی کوتل کے بیچ’’زرائے‘‘ نام کا ایک گاؤں آتا ہے جہاں سڑک کے ساتھ ہی ایک تنگ پہاڑی گزرگاہ کے کنارے ایک قدیم اسٹوپے کے کھنڈرات نظر آتے ہیں۔ یہ خیبر ایجنسی کا شپولا/ سپھولا اسٹوپا ہے۔ پتھروں سے بنے اس اسٹوپے کا اب صرف گنبد ہی باقی ہے اور وہ بھی قابلِ رحم حالت میں۔

تاریخ دانوں کہ مطابق دوسری صدی کا یہ اسٹوپا کشان سلطنت کے آخر میں بنایا گیا ہوگا۔ خیبر پاس اور اس کے آس پاس کے علاقے کا یہ سب سے مکمل اسٹوپا تھا جس سے کافی مقدار میں پتھر گِر چکے ہیں۔ یہاں ملنے والی باقیات کو پشاور میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ آج یہ جگہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے زیرِانتظام ہے۔

٭ پشاور میوزیم، پشاور:  ذکر ہو گندھارا تہذیب کا اور پشاور کے عجائب گھر کو نہ یاد کیا جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ دنیا میں بدھ ازم اور بدھ سلطنتوں سے متعلق قدیم اشیاء کا سب سے بڑا مسکن یہ میوزیم 1907 میں بنایا گیا تھا۔ پشاور شہر کا میوزیم اپنے اندر بُدھا کے سیکڑوں نایاب مجسمے، قدیم اسٹوپے اور ان کی باقیات، سِکے، تاریخی و نادر اشیاء جیسے برتن، مہریں، زیورات وغیرہ اور خانقاہوں کے کھنڈرات محفوظ کیے ہوئے ہے۔ یہاں آپ گندھارا گیلری میں خیبر پختونخواہ کے کونے کونے سے دریافت کر کے لائے گئے مختلف حالتوں اور مراقبے میں بیٹھے بدھا کے مجسمے اور ان کے دربار کے مناظر دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں گوتم بدھا کے مجسموں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے جو نہ صرف بیرونِ ممالک کے سیاحوں بلکہ تاریخ اور آثارِقدیمہ سے لگاؤ رکھنے والوں کو بھی اپنی جانب کھینچتی ہے۔

پنجاب:

پنجاب کی بات کی جائے تو یہاں شمال میں وسیع و عریض رقبے پر بدھ مذہب کے آثار دریافت ہوئے ہیں جن میں اسٹوپے اور خانقاہیں شامل ہیں۔ تقریباً تمام دریافتیں ضلع راولپنڈی میں ٹیکسلا اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہوئی ہیں، جب کہ جنوب میں رحیم یار خان کے علاقے میں بھی بدھ خانقاہ کے آثار ملے ہیں۔

٭ ٹیکسلا:  ٹیکسلا، راولپنڈی سے 22 میل دور ایک قدیم شہر ہے جس کے لفظی معنی’’کٹے ہوئے پتھر کا شہر‘‘ کے ہیں۔ اس شہر کو بدھ مت کی تاریخ کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہیں راجا امبھی نے سکندرِ اعظم کی اطاعت قبول کی جس کے بعد سکندر راجا پورس سے لڑنے کے لیے جہلم کے کنارے پہنچا۔ باختر کے یونانی حکم رانوں دیمریس نے 190 ق م میں گندھارا کا علاقہ فتح کرکے ٹیکسلا کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مہاراجا اشوک اعظم کے عہد میں بھی اس شہر کی رونق پورے عروج پر تھی اور یہ بدھ تعلیم کا مرکز تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مشہور چینی سیاح’’ہیون سانگ‘‘ یہاں آیا تھا۔ اس نے اپنے سفرنامے میں اس شہر کی عظمت و شوکت کا ذکر کیا ہے۔ ٹیکسلا شہر سے دریافت ہونے والے کچھ کھنڈرات چھٹی صدی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں سے مَیورا سلطنت، ہند یونانی اور کشان سلطنت کے زمانے کی بھی کافی چیزیں دریافت کی گئی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ٹیکسلا کی یونیورسٹی دنیا کی سب سے پہلی یونیورسٹی تھی۔

ماضی قریب میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کو’’سر الیگزینڈر کننگھم‘‘ نے 19 ویں صدی میں دوبارہ دریافت کیا۔ 1980 میں اسے یونیسکو نے’’عالمی ثقافتی ورثہ‘‘ قرار دیا، جب کہ 2006 میں یہ پاکستان میں سیاحوں کا پسندیدہ ترین مقام قرار پایا۔ یہاں گوتھک اسٹائل کا ایک خوب صورت عجائب گھر قائم ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، دس ہزار سکے (جن میں بعض یونانی دور کے ہیں) زیورات، ظروف، پتھر، بدھا کے مجسمے اور دیگر قیمتی نوادرات رکھے ہیں۔ تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کو یہ عجائب گھر ضرور دیکھنا چاہیے۔

٭ سرکپ، ٹیکسلا:  سِرکپ کے قدیم شہر کے کھنڈرات ٹیکسلا میوزیم سے کچھ فاصلے پر واقع ہیں۔ یہ 180 قبلِ مسیح میں قدیم ہند سلطنت کے مہاراجہ دمِترس کا بسایا گیا شہر ہے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ مہندرا اول نے اسے دوبارہ بنایا تھا۔ 1912 سے 1930 کے درمیان’’سر جان مارشل‘‘ کی زیرِ نگرانی اس جگہ کی کھدائی کی گئی تھی۔ سرکپ سے ایک قدیم اسٹوپے اور مندر کے آثار بھی ملے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ آپ کو قدیم یونانی طرز کے نقش و نگار ملیں گے جو آج بھی جِدت کے ساتھ ایتھنز شہر کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

٭ جنڈیال ٹمپل ، ٹیکسلا:  جنڈیال ٹیکسلا کے پاس دوسری صدی قبلِ مسیح کا ایک قدیم اور پرشکوہ یونانی مندر ہے جو سرکپ کے پاس ایک اونچے چبوترے پر واقع ہے۔ اس کی کھدائی 1912 سے 1913 میں کی گئی تھی۔ اسے اپنے یونانی فنِ تعمیر کی بدولت برِصغیر کی دھرتی پر ابھی تک دریافت کی جانے والی سب سے زیادہ’’خالص یونانی عمارت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس مندر کے ستون اور فرش، یونان میں پائے جانے والے مندروں سے ہو بہو ملتے جلتے ہیں۔

٭دھرما راجیکا اسٹوپا، ٹیکسلا:  دھرما راجیکا یا دھرم راجیکا کا بُدھ سٹوپا ٹیکسلا میں واقع ہے۔ دوسری صدی میں بنائے گئے اس اسٹوپے کو ٹیکسلا کا عظیم اسٹوپا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اسٹوپا بُدھا کی چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کو دفن کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ دھرماراجیکا اسٹوپا، راجا اشوک کے بنائے گئے ایک اسٹوپے کی باقیات پر بنایا گیا ہے۔ یہاں سے دوسری صدی قبل مسیح کے ہند یونانی سِکے بھی دریافت کیے گئے ہیں۔

ہُن دورِحکومت میں اسے شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہُن حکم رانوں نے بُدھ مت کے ماننے والوں پر بہت ظلم ڈھائے۔ ان کے زمانے میں گندھارا کی ہزاروں بدھ خانقاہیں گرا دی گئیں۔ یہ جگہ بھی 1913 میں سر جان مارشل کی زیرِنگرانی کھودی گئی۔ ان کی دریافت سے پہلے یہ اسٹوپا بہت بری حالت میں تھا۔ 1934 میں کافی جگہ کی کھدائی کے بعد یہاں کُھلے میدانوں سے انسانی ڈھانچے برآمد ہوئے جو تاریخ دانوں کے مطابق ان بُدھ راہبوں کے تھے جنہیں ہُن حکم رانوں نے قتل کیا تھا۔

٭ بھر ماؤنڈ کے کھنڈرات، ٹیکسلا: بھڑ ماؤنڈ، ٹیکسلا کے کھنڈرات کا قدیم ترین حصہ ہے۔ اس شہر کے کھنڈر شمالاً جنوباً 1 کلومیٹر اور شرقاً غرباً قریباً 600 میٹر رقبہ پر واقع ہیں۔ ان کھنڈرات کا سب سے پرانا حصہ پانچویں اور چھٹی صدی قبل مسیح سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد والی سطح چوتھی صدی قبل مسیح سے ہے جو سکندراعظم کے حملے کے وقت آباد تھی۔ تیسری سطح موریا بادشاہوں کے وقت میں تیسری صدی قبل مسیح میں آباد تھی۔ کھنڈر کی چوتھی اور سب سے بالائی سطح موریا خاندان کے بعد کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے۔

شہر کی تنگ گلیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں واقع گھر بلاترتیب تھے۔ گھروں میں باہر کی جانب کوئی کھڑکیاں نہ تھیں بلکہ تمام کھڑکیاں اندر صحن میں کھلتی تھیں۔

بھڑماونڈ کے کھنڈرات کو پہلی دفعہ سر جان مارشل نے 1913 سے 1925 کے عرصہ میں کھودا۔

٭موہرا مرادو کی خانقاہ: موہرا مرادو بھی ٹیکسلا میں واقع ایک قدیم بدھ اسٹوپا اور درس گاہ کا کھنڈر ہے۔ یہ علاقہ نہایت خوب صورت اور پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہ شہر دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا اور کشن سلطنت سے تعلق رکھتا ہے۔یہ کھنڈر تین حصوں پر مشتمل ہے۔ بڑا اسٹوپا، نذرانے کا اسٹوپا اور درس گاہ۔ قدیمی درس گاہ یا خانقاہ میں طالب علموں کے لیے 27 کمرے موجود ہیں جو ایک مرکزی تالاب کے ارد گرد واقع ہیں۔ مستطیل شکل کے اس تالاب کی گہرائی نصف میٹر تھی اور اس کا پانی مذہبی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بارش کا پانی چھت سے لکڑی کے پرنالوں کے راستہ تالاب میں گرتا تھا۔ تالاب میں اترنے کے لیے چاروں طرف زینے موجود ہیں۔ درس گاہ میں ایک باورچی خانہ بھی موجود ہے اور ایک کنواں بھی جو آج بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ بدھا کے مجسمے درس گاہ کے صحن اور طالب علموں کے کمروں میں بکثرت موجود ہیں۔ درس گاہ میں ایک طرف اجتماع کا بڑا کمرہ بھی بنا ہوا ہے۔ایک خاص یادگار بھی درس گاہ کے ایک کمرہ میں موجود ہے جو تقریباً 4 میٹر بلند ہے۔

٭مانکیالہ اسٹوپا، راولپنڈی: مانکیالہ اسلام آباد سے 36 کلومیٹر جنوب میں روات قلعے کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے کی ایک وجہ شہرت یہاں ماجود گوتم بدھا کا وہ اسٹوپا ہے جہاں ایک روایت کے مطابق بُدھا نے سات بھوکے چیتے کے بچوں کو اپنے جسم سے کچھ گوشت کاٹ کر کھلایا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ اسٹوپا راجا مانک نے تعمیر کروایا تھا اور اس جگہ کا پرانا نام بھی’’مانک پور‘‘ یا’’مانک نگر‘‘ تھا جو ہندو دھرم کے مطابق قدیم ہندو راخشسوں (بدی کے پیروکار، دیومالائی کردار) کا گڑھ تھا، لیکن یہ بات کسی مستند حوالے سے ثابت نہیں کی جا سکی۔

منکیالا کی تاریخ 2000 سال پرانی ہے جب یہ گندھارا سلطنت میں ایک بدھ خانقاہ تھی اور یہاں 15 کے قریب اسٹوپے تھے۔ موجودہ اسٹوپا کنِشک کا تعمیر کرایا ہوا ہے جسے آگ لگنے کے باعث کافی نقصان پہنچا تھا۔ لیکن اس کے مکمل تباہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یہاں کھنڈرات سے نکلنے والی تمام قیمتی اشیاء کو برطانیہ لے جایا گیا اور آج وہ برٹش میوزیم کی زینت ہیں۔

٭ پتن مِنارہ، رحیم یارخان: رحیم یار خان سے جنوب میں ابوظبی محل روڈ پر تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر پتن منارہ واقع ہے جسے تاریخ داں ایک قدیم بدھ خانقاہ قرار دیتے ہیں۔ پتن منارہ تاریخ میں پتن پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعض محققین کے مطابق پتن پور سکندراعظم نے تعمیر کروایا تھا اور یہاں اک بہت بڑی درس گاہ تعمیر کی تھی، جب کہ کچھ کے نزدیک یہ شہر سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا آباد تھا اور صحرائے چولستان میں سے گزرنے والا ایک قدیم دریا’’ہاکڑا‘‘ یا’’گھاگھرا‘‘ پتن پور کے قریب سے بہتا تھا۔ سکندراعظم نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد کچھ عرصہ اپنی فوج کے ساتھ یہاں قیام کیا تھا۔ اسی قیام کے دوران سکندراعظم نے یہاں ایک مینار تعمیر کروایا، جس کا نام پتن منارہ تھا۔

پتن پور موہن جوڈارو اور ٹیکسلا کی تہذیبوں کا امین رہا ہے۔ اور تاریخ میں ہندومت ، بدھ مت کا خاص مرکز رہا ہے۔ شومئی قسمت کہ اس کے کنارے بہنے والا دریائے ہاکڑا موسمی تبدیلیوں کے باعث خشک ہوگیا۔ دریا خشک ہونے سے پتن پور کی عظمت رفتہ رفتہ ختم ہونے لگی۔ اور ایک وقت آیا کہ پورا علاقہ ویران ہوگیا۔ بعض روایات کے مطابق پتن منارہ کی حدود میں کوئی خزانہ دفن ہے۔ انگریزوں کے دورحکومت میں کرنل منچن نے اس خزانے کو تلاش کرنے کی ایک ناکام کوشش کی مگر کچھ ہاتھ نہ آیا۔

رحیم یار خان میں دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر آباد پتن پور کے یہ کھنڈرات آج اپنی داستان بتانے سے بھی قاصر ہیں۔ اب یہ صرف اینٹوں کا مینار باقی رہ گیا ہے، جو کسی وقت بھی زمین بوس ہو سکتا ہے۔

آزاد کشمیر:

آزاد جموں و کشمیر میں واقع بدھ مت کے آثارِقدیمہ میں سرِفہرست’’شاردہ کی قدیم بدھ یونیورسٹی‘‘ ہے۔

شاردہ یونیورسٹی کا قدیم نام’’شاردہ پتھ‘‘ ہے۔’’پتھ‘‘ قدیم سنسکرت زبان سے تعلق رکھتا ہے جس کے لغوی معنی ایسی جگہ یا نشست گاہ کے ہیں، جس کو روحانی تکریم سے نوازا گیا ہو۔ کنشک اول (نیپال کے شہزادے) کے دور میں شاردہ وسط ایشیا کی سب سے بڑی تعلیمی و تدریسی درس گاہ تھی۔ یہاں بدھ مت کی باقاعدہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ، ہیَت، منطق اور فلسفے پر مکمل تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درس گاہ کا اپنا رسم الخط تھا، جو دیوناگری سے ملتا جلتا تھا۔ اس رسم الخط کا نام بھی شاردہ تھا۔کہا جاتا ہے کہ 3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہے جس کے نام پر اس گاؤں کا نام رکھا گیا۔ شاردہ کا شمار ہندو مت، بدھ مت اور شیو مت کے مقدس ترین مقامات میں ہوتا ہے۔

یونیورسٹی کی اس عمارت کو کنِشک اول نے تعمیر کروایا تھا۔ شاردہ یونیورسٹی کی عمارت ایک چبوترے کی شکل میں ہے۔ عمارت کی تعمیر آج کے انجنیئرز کو بھی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ یہ عمارت برصغیر میں پائی جانے والی تمام قدیمی عمارتوں سے مختلف ہے، خاص طور پر اس کے درمیان میں بنا چبوترہ ایک خاص فن تعمیر کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً سو فٹ ہے اور اس کے چاروں اطراف دیواروں پر نقش و نگار بنائے گئے ہیں۔ جنوب کی طرف ایک دروازہ ہے۔ عمارت کے اوپر چھت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کرتارپور کے بعد اب آزاد کشمیر کی حکومت بھی یہاں موجود بدھ اور ہندو عبادت گاہوں کو کھولنے کے لیے پر تول رہی ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے۔

سندھ:

ویسے تو سندھ میں کئی جگہوں پر بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں لیکن زیادہ تر کی حالت مخدوش ہے۔ یہاں سے دریافت کیے گئے زیادہ تر مجسمے ممبئی کے “شیواجی راؤ میوزیم” میں رکھے گئے ہیں۔ یہاں مندرجہ ذیل جگہیں اہمیت کی حامل ہیں۔

٭ٹھل میر رکن، نوابشاہ: یہ ایک منفرد قسم کا اسٹوپا (یا ٹھل) ہے جو ضلع نواب شاہ کے شہر دولت پور صفن سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر اور قاضی احمد شہر کے شمال میں واقع ہے۔ سندھ میں بدھ مت کا یہ واحد یادگار ٹھل یا اسٹوپا ہے جس کی چھت گنبد نما ہے۔ اس یادگار کی اونچائی 60 فٹ ہے اور یہ کچی اور پکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔

ٹھل میر رکن کی گنبد نما تعمیر کے لیے اینٹیں بدھ حکم رانوں کے ادوار میں بنائی اور تیار کی گئیں۔ اس کی تاریخی تفصیلات سے پتا چلتا ہے کہ یہ نہ صرف بہت پرانا ٹھل ہے بلکہ صدیوں تک یہ بدھ مذہب کا مرکز بھی رہا ہے۔ اس ٹھل کے نزدیک گوتم بدھ کے متعلق کئی آثار اور ثبوت ملے ہیں۔ اس ٹھل سے گوتم بدھ کے بارے میں ملنے والے تاریخی اور تحقیقی تفصیلات اور تذکروں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ٹھل میر رکن دوسری صدی عیسوی سے لے کر گیارہویں صدی عیسوی تک بدھ مت کے اہم مراکز میں سے ایک تھا۔

٭کہوجو دڑو، میرپورخاص: میرپورخاص شہر سے کچھ فاصلے پر واقع یہ جگہ آج ایک بے آب و گیاہ قطعے کا منظر پیش کرتی ہے لیکن بلاشبہہ اس کی مٹی میں آج بھی کہیں نہ کہیں تاریخ بسی ہوئی ہے۔30 ایکڑ پر محیط اس علاقے سے کُھدائی کے دوران اسٹوپے، مٹی اور شیشے سے بنے گُلدان، کندہ اینٹیں اور پتھر اور مختلف قدیم چیزیں دریافت ہوئیں جن میں سے کچھ کو کراچی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ آج اس اسٹوپے کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ سیاحوں کے لیے یہاں اب کچھ نہیں بچا لیکن ماہرینِ آثارِ قدیمہ اب بھی یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

٭ برہمن آباد کا اسٹوپا، سانگھڑ: برہمن آباد کا اسٹوپا ضلع سانگھڑ میں ٹنڈو آدم- سانگھڑ روڈ کے کنارے واقع ہے۔ مقامی لوگ اسے’’برہمن آباد جو ٹھل‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ پرانے دور کا یہ متبرک اسٹوپا آج بھی خستہ حالت میں ریتیلے میدان میں ایستادہ ہے۔ پکی اینٹوں سے بنائے گئے اس اسٹوپے کی مرمت کا کام محکمہ آثارِقدیمہ، حکومتِ سندھ کی زیرِ نگرانی جاری ہے۔

٭ سراج جی ٹاکری، خیرپور:  روہڑی ہلز کے کنارے واقع یہ بْدھ آثارِقدیمہ خیرپور سے سوراہ جانے والی سڑک کے نزدیک واقع ہیں۔ پتھر اور گارے سے بنے ان آثار کا ذکر سندھ کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتا اور آج بھی بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔

ان جگہوں کے علاوہ موہنجو دڑو سے بھی گوتم بدھا اور پیروکاروں کی مورتیاں دریافت کی گئی ہیں۔

بلوچستان:

اگرچہ کم سہی لیکن بلوچستان میں بھی چند مقامات پر بدھ مت کے آثار پائے گئے ہیں۔ ان میں سرِفہرست گوندرانی کے غار ہیں جو ضلع لسبیلہ میں بیلا شہر سے 20 کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہیں۔ اس جگہ کو’’مائی گوندرانی کا شہر‘‘ ،’’شہرِ روغان‘‘ اور’’روحوں کا مسکن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس شہر کی تاریخ کیا ہے اور یہ قدیم غاریں کس نے اور کب بنائیں؟؟ تاریخ داں اس بارے میں کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔ لیکن ان کا قیاس ہے کہ یہاں 8 ویں صدی میں ایک عظیم بُدھ خانقاہ قائم تھی، چوںکہ تب یہ علاقہ بُدھ سلطنت کا حِصہ تھا سو اس قیاس کو سچ مانا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بے شک ان غاروں میں بدھ مت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن حتمی طور پر ہم انہیں بدھ مذہب سے منسلک نہیں کرسکتے۔

گوندرانی کی یہ غاریں جنہیں مقامی’’پْرانے گھر‘‘ بھی کہتے ہیں، چٹانوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کمروں کی صورت میں بنائی گئی ہیں اور آپس میں اندرونی راستوں سے جُڑی ہیں۔ انگریز راج میں انکی تعداد 1500 بتائی گئی ہے لیکن آج ان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج یہ مٹنے کے دہانے پر ہیں۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں روحوں کا بسیرا ہے اور بہت سے لوگ اس بات کا مشاہدہ بھی کر چکے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں بدھ مت کے اتنے متبرک مقامات ہیں لیکن بُدھ سیاحوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جنوب مشرقی ایشیاء اور سری لنکا و کوریا جیسے ممالک سے سیاح یہاں آتے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ملک میں موجود بدھ تاریخ ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے جنہیں اسکی اہمیت ہی معلوم نہیں۔ قدیم مجسموں ، اسٹوپوں اور خانقاہوں سے قیمتی سامان چوری کیا جا رہا ہے۔ ٹیکسلا میں، مَیں خود ایک ایسے شخص سے ملا ہوں جو بُدھا کے مجسمے بیچ رہا تھا۔ حکومتِ پاکستان کو اس بارے میں کوئی پالیسی لازمی مرتب کرنی چاہیے۔

بھارت اور اس جیسے کئی ممالک اپنے’’مذہبی ثقافتی ورثے‘‘ سے لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔ مذہبی مقامات ٹورازم انڈسٹری میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ’’کرتارپور کوریڈور‘‘ کی کام یابی کے بعد بُدھ ثقافتی ورثے کی جانب بھی توجہ کرے۔ اس حکومت سے سیاحتی حلقوں نے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ویسے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی کچھ ہی دن پہلے وزارتِ خارجہ کے زیرِانتظام خیبر پختونخواہ کے بُدھ آثارِقدیمہ کو مرمت کر کے بین الاقوامی سیاحوں کے لیے کھولنے پر ایک اجلاس بلایا گیا جس میں حکومتی نمائندوں سمیت سنگاپور، برما، ویتنام، تھائی لینڈ، نیپال، سری لنکا، جنوبی کوریا، جاپان اور چین کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ حکومت کے یہ اقدامات سیاحت کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔