- بولرز کی خراب فارم نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
- محمد رضوان نے اپنی ’سادہ‘ فلاسفی بیان کردی
- شاہین سے بدتمیزی، افغان شائق کو اسٹیڈیم سے باہر نکال دیا گیا
- کامیاب کپتان بننے پر بابراعظم کو چیئرمین کی جانب سے شرٹ کا تحفہ
- بجٹ، بزنس فورم کی لسٹڈ کمپنیوں کیلیے کم ازکم ٹیکس ختم کرنے سمیت مختلف تجاویز
- پاکستان سے توانائی، ڈیجیٹل ٹرانسفرمیشن دیگرشعبوں میں تعاون کرینگے، عالمی بینک
- غیرملکی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھنے لگا
- 5 سال میں صرف 65 ارب روپے مختص، اعلیٰ تعلیم کا شعبہ شدید مشکلات کا شکار
- 4 سال میں مہنگائی کم، ترقی، سرکاری ذخائربڑھیں گے، آئی ایم ایف
- نااہل حکومتیں پہلے بھی تھیں، آج بھی ہے:فیصل واوڈا
- ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا انتظام 10 سال کیلئے بھارت کے حوالے کردیا
- مظفرآباد صورت حال بدستور کشیدہ، فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق اور متعدد زخمی
- پاکستان اور امریکا کا ٹی ٹی پی اور داعش خراسان سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم
- سینٹرل ایشین والی بال لیگ میں پاکستان کی مسلسل تیسری کامیابی
- نئے قرض پروگرام کیلیے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات شروع
- آئین معطل یا ختم کرنے والا کوئی بھی شخص سنگین غداری کا مرتکب ہے، عمر ایوب
- آئی سی سی نے پلیئر آف دی منتھ کا اعلان کردیا
- آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کا نوٹیفکیشن دیکھنے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
- خواجہ آصف کا ایوب خان پر آرٹیکل 6 لگانے اور لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ
- سعودی عرب اور خلیجی ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کیلئے خوشخبری
فنڈز اور دیگر امور میں نظر انداز،اپوزیشن قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی
پشاور: خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں اور صوبائی حکومت کے مابین ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، ڈیڈک چیئرپرسنز کی تقرری اور دیگر امور پر اتفاق رائے ہوگیا تھا جس سے یہ امید لگا لی گئی تھی کہ صوبائی حکومت اسی اتفاق رائے کو آگے لے کر چلتے ہوئے معاملات بڑھائے گی تاہم اس معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔
ایک جانب حکومتی ارکان کو ترقیاتی فنڈز کا اجراء کیا گیا تو ساتھ ہی اپوزیشن ارکان کو اس میں نظر انداز کردیا گیا، البتہ اپوزیشن لیڈر کو فنڈز ضرورجاری کیے گئے ہیں جبکہ ساتھ ہی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان کی ڈیڈک چیئرپرسنز کے طور پر تقرری بھی کی گئی ہے جو ان اضلاع کے لیے بھی ہے جہاں سے تحریک انصاف کے منتخب ارکان موجود نہیں اور ان اضلاع میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے مخصوص نشستوں پر اسمبلی میں موجود ارکان کو ڈیڈک چیئرپرسنز تعینات کر دیا گیا ہے جس پر اپوزیشن کی جانب سے ردعمل آنا فطری سی بات تھی۔ اپوزیشن نے اپنے ردعمل کا اظہار کچھ اس طریقے سے کیا کہ اسمبلی کی کاروائی ہی روکنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے استعفے بھی دے دیئے۔
ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے مختلف ایشوز پراحتجاج نہ تو پہلی مرتبہ ہواہے اور نہ ہی یہ کوئی انہونی بات ہے،اپوزیشن جماعتیں مختلف ایشوز پر اس سے پہلے بھی اسمبلی میں احتجاج کرتی آئی ہیں اور واک آؤٹ بھی ہوتے رہے ہیں، تاہم یہ احتجاج اس اعتبار سے الگ نوعیت کا تھا کہ یہ ایک گھنٹہ تک جاری رہا اور اپوزیشن ارکان اس دوران سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیے نعرہ بازی کرتے رہے تاہم سپیکر نے یہ معاملہ سنبھال لیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے خلاف نعرہ بازی اور ڈائس کے گرد احتجاج کے معاملے کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا اورایوان کو خوش اسلوبی سے چلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوئے اورخود اپوزیشن چیمبر پہنچ گئے جہاں انہوں نے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور دیگر اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کی اور انھیں اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ احتجاج کی راہ چھوڑتے ہوئے ایوان کی کاروائی میں حصہ لیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اپوزیشن کو اس بات پر بھی راضی کیا کہ ان کی جانب سے دیئے گئے جو ایجنڈا پوائنٹس ایوان میں زیر بحث نہیں لائے جاسکے ان پر زور دیئے بغیر اجلاس کوغیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا جائے۔
سپیکرصوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی اپوزیشن کواحتجاج کی راہ سے ہٹا کر ایوان میں لانے میں تو کامیاب ہوگئے تاہم اصل مسلہ قائمہ کمیٹیوں سے اپوزیشن ارکان کے استعفوں کا ہے کیونکہ اپوزیشن لیڈر اکرم درانی اور دیگر اپوزیشن ارکان بار،بار سپیکر سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کے استعفے منظور کیے جائیں جو سپیکر کسی بھی طور نہیں چاہیں گے کیونکہ اس کا مطلب ہوگا کہ اپوزیشن اسمبلی ایوان کوچھوڑکر دیگر کاروائی سے باہر ہوجائے اور اگر ایسا ہوتاہے تو اس سے اسمبلی جیسے جمہوری ادارے کو نقصان بھی ہوگا اور اس کی بدنامی بھی، یہی وجہ ہے کہ سپیکر اب اپوزیشن اور حکومت کے مابین معاملات کو بہتری کی راہ پر لانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں، سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمدغنی اس معاملے میں اپنے پیش رو اسدقیصر کی پیروی کر رہے ہیں جو تھے تو سپیکر صوبائی اسمبلی لیکن وہ حکومت کا بھی کافی بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے رکھتے تھے اور اب موجودہ سپیکر مشتاق غنی بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جن کی کوشش ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت ہو جائے اور جن امور پر تنازعہ ہے وہ حل ہو جائے۔
ترقیاتی فنڈز کا جہاں تک معاملہ ہے تو ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ وزیراعلیٰ نے اس سلسلے میں اپنی صوابدید کا استعمال کیا ہو،ایم ایم اے کے دور میں جب اکرم خان درانی صوبہ کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے اس وقت بعض ارکان کو ترقیاتی فنڈز سے محروم رکھا تھا جنہوںنے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے اسمبلی کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود ان ارکان کے فنڈز کو ان کے حلقوں میں متعلقہ محکموں کے ذریعے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی،اے این پی کے دور حکومت میں امیرحیدرہوتی نے بھی اپنے آخری سال کے دوران اے این پی اور پیپلزپارٹی کے ارکان کو اپوزیشن ارکان کی نسبت دگنے فنڈز جاری کیے تھے جبکہ یہی صورت حال گزشتہ دورمیں بھی جاری رہی جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ترقیاتی فنڈز کا استعمال اپنی صوابدید کے مطابق کیا کیونکہ کسی بھی وزیراعلیٰ یاحکومت کو کسی معاہدے کا پابند نہیںبنایاجا سکتا اور ہر حکومت اپنی ترجیحات کے مطابق فنڈز کا استعمال کرتی ہے۔
موجودہ وزیراعلیٰ محمودخان بھی ترقیاتی فنڈز کا استعمال اپنی صوابدید کے مطابق ہی کریں گے جس میں وہ اپوزیشن جماعتوں کو اس میں حصہ ضرور دینگے تاہم کسی فارمولے کے مطابق نہیں بلکہ حکومتی اور پی ٹی آئی ترجیحات کے مطابق، اس مرتبہ بھی سپیکر صوبائی اسمبلی حکومت اور اپوزیشن کے مابین مفاہمت کی کوششوں میں اسی بات کے لیے کوشاں ہیں کیونکہ یہ بات وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اسمبلی کا آئندہ سیشن بجٹ سیشن ہوگا جس کے شروع ہونے تک اگر حکومت اور اپوزیشن میں معاملات طے نہ پائے تو ایوان کی کاروائی میں پھر رکاوٹیں پیداہونگی۔
اورصوبائی حکومت جو ایک جانب قبائلی اضلاع میں 2 جولائی کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے اپنی مہم جاری رکھے ہوئے ہے، میں مزید رنگ بھرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان خود بھی قبائلی اضلاع کے دورے کر رہے ہیں ۔
صرف پاکستان تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوںکو بھی بخوبی احساس ہے کہ قبائلی اضلاع میں منعقدہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ 21 نشستوں کا معاملہ ہے اور ان اکیس نشستوں کے حصول کے لیے تمام جماعتیں میدان میں بھرپور طریقے سے اتریں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔