پی ایس ایل کا خود گلا نہ گھونٹیں

سلیم خالق  اتوار 22 ستمبر 2019
 سری لنکا، افغانستان  اور اب بنگلہ دیش کی لیگز تباہ ہو چکیں اور خدشہ یہ ہے کہ کہیں پی ایس ایل کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے فوٹو: فائل

سری لنکا، افغانستان اور اب بنگلہ دیش کی لیگز تباہ ہو چکیں اور خدشہ یہ ہے کہ کہیں پی ایس ایل کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے فوٹو: فائل

آپ اپنے باغ میں ایک پودا لگائیں، اسے روز پانی دیں اورخوب دیکھ بھال کریں،پھر چند برسوں میں جب  وہ درخت بن کر پھل دینے لگے توخود ہی اسے کاٹ دیں تو کیا آپ سے بڑا کوئی بے وقوف اس دنیا میں ہوگا؟ بدقسمتی سے پی  ایس ایل کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے، ہم اس میں صرف پی سی بی کو ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے یقیناً فرنچائزز کی بھی غلطیاں ہیں جس کا نقصان صرف اور صرف پاکستانی کرکٹ کو ہوگا،مجھے ملک اور پی سی بی کے حالات میں بہت سی چیزیں ایک جیسی نظر آ رہی ہیں، وزیر اعظم عمران خان انتہائی ایماندار انسان اور ملکی مسائل حل کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کی ٹیم کے بعض لوگ اہل نہ ہونے کے باوجود اہم عہدوں پر موجود ہیں جس سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔

ایسا ہی کرکٹ بورڈ میں بھی ہے، احسان مانی کو میں کئی برسوں سے جانتا ہوں، وہ انتہائی ایماندار اور کھیل سے محبت کرنے والے شخص ہیں مگر بدقسمتی سے انھوں نے اپنی ذمہ داریاں دوسروں میں بانٹ دیں، ساتھ ہی ٹیم بھی اچھی نہ بنا سکے جس کی وجہ سے معاملات میں بہتری نہیں آ رہی، وسیم خان یقیناً کام کرنا جانتے ہوں گے مگر انھیں پی سی بی کے بعض ملازمین نے ’’ہائی جیک‘‘ کر لیا اور وہ انہی کے مشوروں پر چل رہے ہیں، اسی کے ساتھ اگر آپ ایپل کمپنی کے سی ای او کو پاکستان لا کر کسی ادارے کا سربراہ بنا دیں  تو شاید ہی وہ کامیاب ہو سکے کیونکہ یہاں کا کلچر اور مسائل الگ ہیں جسے وہ نہیں جانتا ہوگا، پھر اسے انہی لوگوں سے کام لینا ہوگا جو برسوں سے عہدوں پر براجمان اور کسی صورت اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے، بورڈ کے معاملات نہ سنبھلنے کا سب سے بڑا نقصان پی ایس ایل کو ہو رہا ہے۔

اس سے پہلے سری لنکا، افغانستان  اور اب بنگلہ دیش کی لیگز تباہ ہو چکیں اور بدقسمتی سے خدشہ یہی ہے کہ کہیں خدانخواستہ پی ایس ایل کے ساتھ بھی ایسا نہ ہو جائے، بظاہر سب سے بڑا مسئلہ بینک گارنٹی کا نظر آتا ہے، یہ بات  سب کے سامنے ہے کہ ملک میں کاروباری حالات ان دنوں اتنے اچھے نہیں فرنچائزز بھی اسی سسٹم کا حصہ ہیں، ان کا یہ مطالبہ تھا کہ اب چونکہ لیگ پانچویں سال میں جا رہی ہے لہذا اعتماد کی فضا قائم کرتے ہوئے گارنٹی کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے،ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافے سے بھی ٹیموں کو مشکلات کا سامنا ہے، پھروہ اتنی محنت سے سرمایہ لگا کر فرنچائز کو برانڈ بنا رہے ہیں مگرمالکانہ حقوق صرف10برس کیلیے ملے ہیں،اس کے علاوہ بھی کئی بڑے مسائل ہیں، ہونا تو یہ چاہیے کہ بورڈ انھیں حل کرے مگر افسوس اس میں دلچسپی نہیں دکھائی گئی، لیگ کے بعد5 ماہ تک مکمل خاموشی رہی پھر ایک میٹنگ بلا کر فرنچائزز کی شکایات دور کرنے کے وعدے کیے گئے۔

ورکنگ گروپس بنائے گئے مگر چند روز بعد ہی بینک گارنٹی کے خطوط بھیجنا شروع کر دیے، میرے پاس بورڈ کی کئی ای میلز موجود ہیں ان سے لیگ کو لاحق خطرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، بہت سخت زبان کا استعمال کیا گیا،ڈرافٹ نہ کرانے، ورکنگ گروپس کا کام روکنے اور 10 روز میں بینک گارنٹی نہ دینے پر سخت ایکشن لینے تک کی دھمکی دی گئی، کوئی آپ کے ساتھ کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کرے تو کیا اس سے ایسا سلوک کرتے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب کوئی ٹیم خریدنے کو تیار نہ تھا یہ لوگ سامنے آئے اور مسلسل نقصان بھی برداشت کرتے رہے، اب جب لیگ قدموں پر کھڑا ہونے لگی تو آپ انہی کے پیچھے پڑ گئے، اسی لیے ان دنوں سازشی تھیوریز زیر گردش ہیں کہ شاید مزید من پسند فرنچائزز کو لانے کیلیے کوئی بساط بچھائی جا رہی ہے۔

اسی طرح بعض فرنچائزز کا رویہ بھی اچھا نہ رہا اور وہ اپنی طاقت کے زور پر پی سی بی کو دباؤ میں لیتی رہیں، اب بھی کچھ لوگ اعلیٰ حکومتی شخصیات کی قربت کا تاثر دے کر کرکٹ حکام پر دھونس جماتے ہیں، ماضی میں فیس کے معاملے پربھی پریشان کیا گیا، ایک بار تو مقررہ وقت میں عدم ادائیگی پر بورڈ کو ایک فرنچائز کی بینک گارنٹی کیش بھی کرانا پڑی، ایک نے جوچیک دیا وہ باؤنس ہوگیا جس پر نوبت ایف آئی آر درج کرانے تک پہنچنے والی تھی مگر معاملہ حل ہوگیا، پھر مکمل فیس لیے بغیر نئی ٹیم ملتان سلطانز کو چوتھے ایڈیشن میں کھلانے سے بھی تنازع سامنے آیا، اس معاہدے کی تفصیلات بھی عوام کے سامنے لانی چاہئیں، اسی  طرح چوتھے ایڈیشن کا فائنل ہوئے 6 ماہ سے زائد وقت گذر چکا مگر بورڈ نے تاحال فرنچائزز کو ان کی آمدنی میں سے حصہ  نہیں دیا جو سراسر غلط ہے، عدم اعتماد کی فضا معاملات کو مسلسل التوا میں رکھنے اور جائز مطالبات حل نہ کرنے سے ہی سامنے آئی۔

اس کا نقصان لیگ کو ہی ہو گا، اگلا ایڈیشن مکمل طور پر پاکستان میں کرانا ہے مگر اس غیریقینی میں کیا کوئی کسی فرنچائز یا لیگ کو اسپانسر کرے گا؟ براڈ کاسٹراور ٹائٹل اسپانسر کو بھی اس صورتحال پر تشویش ہو گی، اب بورڈ کو کیا کرنا ہے وہ فیصلہ کرلے، بدقسمتی سے اس وقت انداز متکبرانہ ہے نئی نئی پاورز ملنے سے کئی افراد اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ کر معاملات چلا رہے ہیں اسی لیے مختلف شعبوں کے اسٹیک ہولڈرز کو مشکلات کا سامنا ہے، یہ انداز ان کو کامیاب نہیں کرا سکتا اور آج نہیں تو کل اپنے گھروں کو واپس جانا پڑے گا مگر اس وقت تک وہ پی سی بی کا تیا پانچہ کر چکے ہوں گے، لہذا میری احسان مانی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے  ’’وسیم اکرم پلس‘‘ جیسے آفیشلز کی جگہ خود معاملات سنبھالیں اور سب سے پہلے پی ایس ایل کا مسئلہ حل کرائیں،فرنچائزز کی جگہ خود اپنی ٹیمیں کھلانے یا ری بڈنگ کی  باتوں سے صرف لیگ ہی تباہ ہوگی اور مجھے یقین ہے وہ کسی صورت ایسا نہیں چاہیں گے،لہذا فوری طور پر گورننگ کونسل کا اجلاس بلا کر مسائل سنیں اور حل کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کریں،بورڈ اور فرنچائزز میں اعتماد کی فضا کم ہے لہذا بعض نیوٹرل پروفیشنلز کی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں، طویل عرصے بعد پاکستان نے پی ایس ایل کی صورت میں ایک ایسا برانڈ بنایا جس پر ہم فخر کرسکتے ہیں خدارا اسے  تباہی سے بچائیں،  ورنہ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔