پاکستان کے مسائل اور ہمارے رویے

ہماری واضح اکثریت کی تمام تر سعی اسی خاطر ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کریں


اعزاز احمد کیانی September 27, 2019
مودی کے ہیوسٹن جلسے کے دوران جلسہ گاہ کے باہر نریندر مودی و بھارت کے خلاف حتجاج کیا گیا۔ (فوٹو: فائل)

میں اگرچہ ماہر نفسیات تو نہیں ہوں لیکن ہمارے ظاہر رویے اس بات کے بہم شواہد پہنچا رہے ہیں کہ ہم ایک نفسیاتی مرض کا شکار ہیں۔ یہ نفسیاتی مرض کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہم نہ کچھ مثبت دیکھنے کی تاب رکھتے ہیں، نہ کچھ مثبت بولنے کی قوت رکھتے ہیں اور نہ ہی کچھ مثبت سوچنے کی سکت ہیں۔

ہماری واضح اکثریت کی تمام تر سعی اسی خاطر ہے کہ وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کریں۔ نتیجتاً ہر بات، واقعے اور مسئلے کا منفی پہلو پوری شد و مد کے ساتھ اجاگر کیا جاتا ہے اور ہر استنباط کا آخری اور متفقہ نتیجہ پاکستان کی ناکامی ہے۔ اسی سعی میں دانستہ طور پر وہ واقعات بھی نظر انداز کردیے جاتے ہیں جو فی الواقع پاکستان کی کامیابی ہوں۔ چنانچہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے امریکا میں جلسے کو بھی اسی زوایہ سے دیکھا جا رہا ہے اور ویسے ہی تبصرے ہورہے ہیں۔

ذیل میں اسی منفی رویے کی چند نمایاں مثالیں ہمارے سامنے ہیں:

(1) اول اگرچہ نصف لاکھ نفوس پر مشتمل یہ جلسہ امریکا میں کسی بھی غیرملکی کا سب سے بڑا جلسہ ہے لیکن ابھی کچھ دنوں پہلے تک یہ اعزاز پاکستانی وزیراعظم عمران خان کو ہی حاصل تھا۔ دوم اسی جلسے کے دوران سیکڑوں پاکستانیوں اور کشمیریوں نے جلسہ گاہ کے باہر نریندر مودی و بھارت کے خلاف احتجاج کیا، مگر ہنوز نہ وہ احتجاج کسی شمار میں ہے اور نہ موضوع بحث ہے۔ جبکہ چند دن قبل عمران خان کے مظفر آباد کے جلسے میں چند علیحدگی پسندوں نے خودمختار کشمیر کا نعرہ لگایا تو اسی طبقہ فکر کے لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اہل کشمیر پاکستان کے کشمیر سے متعلق بیانیہ کو قبول نہیں کرتے۔

(2) نیویارک ٹائمز کے مطابق ہندوستان کا مقبوضہ کشمیر میں حالیہ اقدام ایک سازش اور طے شدہ منصوبہ کے مطابق تین مراحل میں انجام پایا ہے۔ اول مرحلے میں کشمیر میں اسمبلی تحلیل کی گئی یا کروائی گئی۔ دوسرے مرحلے میں گورنر راج لگایا گیا اور اسے دوام بخشا گیا اور تیسرے اور آخری مرحلے میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا۔

(3) اقوام متحدہ نے حال ہی میں بھارت کو قابل شرم ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ یہ فہرست ان ممالک سے متعلق ہے جن میں انسانی حقوق کی خاطر کام کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

(4) پیرس کی جی سیون کانفرنس میں فرانس کے صدر نے بھارت کے وزیراعظم سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہ کیا اور نتیجتاً بھارتی وزیراعظم کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

5) امریکی صدر کی جلسے میں شرکت پر بعض لوگوں کا کہنا ہے اس کے پیچھے امریکی صدر 2020 کے صدارتی انتخاب میں امریکا مقیم ہندوستانی سے ہمدردی وصول کرنا چاہتے ہیں۔ حیف یہ پہلو بھی ہمارا موضوع نہ رہا، ورنہ اس طرح کے نتائج اخذ کرنے میں عموماً ہم طاق ہیں، مگر شاید جب اس کا تعلق پاکستان سے ہو۔

میں اس حقیقت کا لمحہ لمحہ اعتراف کررہا ہوں کہ ہندوستان ہر اعتبار سے پاکستان سے بڑا ملک ہے۔ اس کی معیشت ہم سے کئی گنا بڑی ہے۔ وہ بین الاقوامی طور پر ایک بڑی منڈی ہے اور وہ سیاسی طور پر پاکستان سے زیادہ مستحکم ہے۔ چنانچہ اسے عالمی طاقتوں کی بہ نسبت پاکستان زیادہ حمایت حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی ممالک نسبتاً کمزور ممالک ہیں، جو ہندوستان جیسے ملک سے کسی بھی تعلقات کے انقطاع کے متحمل نہیں ہوسکتے اور نہ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں کوئی ایسی قیادت موجود ہے، جو مفادات کے بجائے اصولوں کی سیاست کو اپنائے۔

یہ اگرچہ تلخ حقائق ہیں مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ پاکستان ایک مکمل ناکام ریاست ہے اور یہاں کوئی مثبت دیکھنے، سنے اور بولنے کو نہیں ہے۔ اقوام کی حقیقی ناکامی و تباہی اس قوم کے افراد کا باہم نفاق اور داخلی انتشار ہے اور پاکستان اس کی نمایاں مثال ہے۔

دنیا میں کوئی ایسی ریاست نہیں ہے جس میں مختلف فکر کے افراد و طبقات موجود نہ ہوں۔ کوئی ایسا خطہ آج تک وجود میں آ ہی نہیں سکا جہاں مسائل نہ ہوں۔ لیکن ان مسائل کو ہمیشہ مثبت اور تعمیری سوچ اور رویے حل کی جانب لے جاتے ہیں۔ جب تک ہماری سوچ کا یہ روایتی زاویہ تبدیل نہیں ہوتا کہ فلاں وزیراعظم، فلاں جماعت کا وزیراعظم، اور فلاں کی حکومت، تب تک کسی تعمیر کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا۔ ہماری بہتری اور تعمیر فلاں سے پاکستان کا وزیراعظم کے ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔ ہمارے اس موجودہ رویے کی ذمے داری اگرچہ بہت تک ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کے طرز سیاست پر ہے، لیکن بقول غالب
تجھ سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا
کے مصداق ہماری انفرادی تعلیم اور شعور بھی بہرحال قطعاً نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔

ہمارے لیے اس وقت موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے جلسے میں نصف لاکھ لوگ شریک تھے بلکہ ہمارے لیے باعث صد تشویش عالمی اداروں، یعنی اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹز، سلامتی کونسل، یورپین یونین وغیرہ کی خاموشی ہے۔ جو دیگر مواقعوں پر دنیا بھر کے کئی ملکوں میں بغیر کسی مطالبے کے انسانی حقوق کے نام پر مداخلت بلکہ فوجی مداخلت تک کرنے سے گریز نہیں کرتے، مگر کشمیری مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی تلفی پر ہنوز خاموش ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں