جنگ کے علاوہ کوئی آپشن ہے تو بتائیے؟

میاں عمران احمد  جمعـء 27 ستمبر 2019
پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں بھارت کتنے ظلم ڈھا رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر میں بھارت کتنے ظلم ڈھا رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

فلسطین کا ایشو پوری دنیا جانتی ہے لیکن کچھ نہیں کرتی۔ اگر آپ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ کشمیر میں بہت ظلم ہورہا ہے تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان ممالک کا میڈیا آپ سے پہلے وہاں پہنچتا ہے اور پوری دنیا کو بتاتا ہے کہ وہاں کتنا ظلم ہورہا ہے۔ جب آپ اسمبلی میں کشمیر کے نام پر سیاسی تقرریں کررہے تھے اس وقت بی بی سی واحد نشریاتی ادارہ تھا جو پوری دنیا کو بتا رہا تھا کہ کشمیر میں کتنا ظلم ہورہا ہے۔ لہٰذا آپ کو انھیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کو بھی بی بی سی کی رپورٹوں سے معلوم ہوا کہ کشمیر میں کتنا ظلم ہورہا ہے۔ لہٰذا آپ دنیا کو بتانے کی زحمت مت کیجئے۔

خان صاحب! آپ نے تقریباً تمام ممالک کے سربراہان سے کشمیر مدعا پر بات کی ہے۔ ان میں سے کسی نے آپ سے یہ کہا کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے۔ آپ نے بتایا تو علم ہوا کہ کشمیر میں کتنا ظلم ہورہا ہے۔ پریس کانفرنس میں جب آپ دنیا کے میڈیا کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ کشمیر میں بہت ظلم ہو رہا ہے تو وہ حیران نہیں ہوتے کیونکہ وہ سب جانتے ہیں۔

جب بین الاقوامی میڈیا آپ سے سوال کرتا ہے کہ اگر ہندوستان بات چیت نہیں کرتا تو آپ کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ آپ تھوڑا سا شرما کر اور زیر لب مسکرا کر جواب دیتے ہیں کہ ہم ہندوستان سے جنگ نہیں کریں گے لیکن جنگ کے علاوہ ہر وہ آپشن استعمال کریں گے جو ممکن ہے۔ آپ کے اس جواب پر میڈیا ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگتا ہے کہ ہر ممکن آپشن کیا ہوسکتا ہے؟ خان صاحب خدا کےلیے بتادیں کہ جنگ کے علاوہ وہ ہر ایک آپشن جو آپ نے استعمال کرنا ہے، وہ ہے کیا؟

کیا پاکستان ہندوستان کی معیشت پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟ کیا پاکستان ہندوستان کا پانی بند کرسکتا ہے؟ کیا پاکستان ہندوستان پر تجارتی پابندیاں لگاسکتا ہے؟ کیا پاکستان پڑوسی ممالک کو ہندوستان پر دباؤ ڈالنے پر مجبور کرسکتا ہے؟ کیا پاکستان ہندوستان کی برآمدات کو کم کرسکتا ہے؟ کیا پاکستان ہندوستان کے خلائی پروگراموں کو ناکام کرسکتا ہے؟ یقیناً ان تمام سوالات کے جوبات ’’نہیں‘‘ میں ہوں گے۔ کیونکہ ہندوستان پر اثر انداز ہونے کےلیے پاکستان کے پاس جنگ کے علاوہ کوئی بھی آپشن نہیں ہے اور آپ تو ہر فورم پر اس آپشن کو استعمال کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔

آپ فی الوقت جو آپشن استعمال کررہے ہیں وہ شور مچانے، پروپیگنڈا کرنے اور دنیا کو بتانے کا ہے کہ کشمیر میں ظلم ہورہا ہے۔ اگر یہ آپشن اتنا ہی موثر ہوتا اور دنیا کو بتانے سے آپ کچھ کروا سکتے تو سب سے پہلے ڈنمارک کو مجبور کرتے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت پر تجارتی پابندیاں لگائے۔ کیونکہ ڈنمارک واحد ملک ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک پر تجارتی پابندیاں لگاتا ہے۔ لیکن پابندیاں لگانا تو دور کی بات آپ تو ڈنمارک کو سلامتی کونسل میں کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر قرارداد لانے کےلیے بھی راضی نہیں کرسکے۔

آپ اپنے قریبی، دیرینہ دوست اور بقول محمد بن سلمان سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر شہزادہ محمد بن سلطان کو ہندوستان کے ظلم کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد لانے پر راضی نہیں کرسکے۔

آپ دبئی کے شیخ کو مودی کو ایوارڈ دینے سے نہیں روک سکے۔ آپ ابوظہبی کے شیخ کو مودی کو گارڈ آف آنر دینے سے بھی نہیں روک سکے۔ آپ صدر ٹرمپ سے کشمیریوں کے حق میں ایک بھی لفظ نہیں کہلوا سکے۔ آپ ٹرمپ کو مودی کے جلسے میں جانے سے نہیں روک سکے۔ آپ ایتھوپیا، صومالیہ، سوڈان جیسے بے وقعت ممالک کو کشمیر کے معاملے پر اپنے ساتھ کھڑا نہیں کرسکے۔

خان صاحب! آپ صرف یہ بتائیے کہ جنگ کے علاوہ وہ تمام ممکنہ آپشن کیا ہیں جو ابھی تک آپ نے استعمال نہیں کیے؟ جنگ کے علاوہ وہ کون سے جادوئی اقدامات ہیں جو آپ کے ذہن میں ہیں اور جھلی دنیا اس ذہانت و فطانت تک پہنچ نہیں پارہی ہے۔ اگر کوئی آپشن آپ کے پاس ہے تو اس کی لسٹ بناکر میڈیا کو دے دیں تاکہ دنیا بھی آپ کی صلاحیتوں سے آگاہ ہوسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔