ایران سعودی عرب اور امریکا مصالحت وقت کا تقاضا

عالمی برادری کے لیے پیداشدہ صورتحال کثیر جہتی اقدامات اور غیر معمولی سفارت کاری کی متقاضی ہے۔


Editorial October 01, 2019
عالمی برادری کے لیے پیداشدہ صورتحال کثیر جہتی اقدامات اور غیر معمولی سفارت کاری کی متقاضی ہے۔ فوٹو:فائل

مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے مابین صورتحال میں موجود کشیدگی کے خاتمے کے لیے کثیر جہتی اقدامات کی ضرورت ہے، جس میں ایران و امریکا کے مابین موثر اور متحرک سفارت کاری کاکردار اہم ہوگا۔

اس بات کا اشارہ سیاسی مبصرین نے گزشتہ دنوں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاس کے سائیڈ لائن پر دیے گئے انٹرویو کے تناظر میں دیا ہے جس میں جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران کا امریکی صدارتی انتخابات پر اثرانداز یا ان میں مداخلت کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔جواد ظریف نے یہ بھی کہا کہ تہران حکومت امریکی صدارتی الیکشن میں کسی بھی امیدوار کو ترجیح دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

دریں اثنا امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ ایران کے خلاف سائبر جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔ اس انٹرویو میں جواد ظریف نے واضح طور پر کہا کہ جو بھی جنگ امریکا شروع کرے گا، اس کو ختم کرنا اس کے بس میں نہیں ہو گا ۔

یہ حقیقت ہے کہ ایران سے جوہری معاہدے کے خاتمے کے عجلت آمیز اقدام کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کے پاس آپشنز کا فقدان ہے اور اس نے ایران پر جتنی پابندیاں عائد کی ہیں اس سے دونوں ملکوں میں تناؤ کا گراف بڑھتا جارہا ہے، سفارت کاروں کا خیال تھا کہ امریکی انتظامیہ میں جان بولٹن کی رخصتی کے بعد ٹرمپ اور ایران میں سفارتی گرم جوشی کا نیا باب شروع ہوگا کیونکہ بولٹن ایران کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے بانی فیصلہ سازوں میں شمار ہوتے تھے اور خطرہ تھا کہ سعودی عرب سے کشیدگی اور ایران جوہری معاہدہ پر ہونے والی بات چیت کہیں ایک نئی جنگ کا نکتہ آغاز نہ بن جائے۔

ادھر اخباری اطلاعات سے یہی محسوس ہورہا تھا کہ امریکا جنگ کی تیاری کررہا ہے تاہم جب صدر ٹرمپ کی طرف سے سعودی عرب میں آل ریفائنریز پر حملے کی خبروں پر معنی خیز بیان آنے شروع ہوئے تو ایرانی میڈیا نے اندازہ لگایا کہ جنگ ناگزیر نہیں جب کہ ایران نے خطے میں جنگ سے گریز اور امریکا سے صورتحال کے گہرے ادراک کا مطالبہ کیا تھا،اسی دوراں صدر ٹرمپ کا بیان آیا کہ امریکا ایران سے جنگ نہیں چاہتا، بلکہ انھوں نے کہا کہ ایران نے ہم پر حملہ نہیں کیا ہے اور ہمارے لیے سعودی عرب کا تحفظ ضروری بھی نہیں۔

یہ انتباہی اشارہ تھا جس کا خطے کے اہم کرداروں نے نوٹس بھی لیا۔ اس اعتبار سے صائب اسٹریٹجی یہی ہے کہ ایران، یمن اور سعودی عرب حکام مشرق وسطیٰ اور گلف کی سیاسی، عسکری ،معاشی اور تزویراتی معاملات کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیں، گلف ریاستوں کو بھی ان مذاکرات میں شریک ہونا چاہیے تاکہ ایران اور امریکا میں بڑھتا ہوا تناؤ کسی پرامن منطقی انجام تک پہنچے اور بات چیت سے تنازعات کا کوئی مستقل حل تلاش کیاجائے۔ ایران نے غالباً اسی سیاسی پیش رفت کے تحت برطانیہ کے پرچم بردار ٹینکر کو 10 ہفتے تک زیرحراست رکھنے کے بعد اتوار کو رہاکردیا جو اب دبئی کی ایک برتھ پر لنگرانداز ہوچکا ہے۔

عالمی برادری کے لیے پیداشدہ صورتحال کثیر جہتی اقدامات اور غیر معمولی سفارت کاری کی متقاضی ہے۔ ضرورت اس بات کی کہ مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ڈیپ واٹر سمیت عمومی سیاسی دیتانت کے لیے ایک ہمہ جہتی روڈ میپ کا اعلان کیا جائے۔ایسا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں