خیبر پختونخوا حکومت جے یوآئی کا مارچ ناکا م بنا سکے گی؟

شاہد حمید  بدھ 23 اکتوبر 2019
نہ، نہ کرتے اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ آزادی مارچ کے حوالے سے آن ملی ہیں

نہ، نہ کرتے اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ آزادی مارچ کے حوالے سے آن ملی ہیں

پشاور: نہ، نہ کرتے اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ آزادی مارچ کے حوالے سے آن ملی ہیں تاہم ان کی آمد علامتی طور پر ہی ہوگی۔

مذکورہ اپوزیشن پارٹیاں جن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی پارٹیاں بھی شامل ہیں، ان کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ میں شمولیت حاضری لگانے کے مترادف ہوگی اور اس حوالے سے سارا بوجھ مولانا اور ان کے پارٹی کارکنوں پر ہی ہوگا جس کے لیے وہ تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، اب تک یہ مخفی تھا کہ مولانا فضل الرحمن کس مقام سے خود جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی راہ لیں گے،کچھ لوگوں کا خیال تھا وہ پشاور یا ڈی آئی خان سے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف جائیں گے مگر انہوں نے الگ مقام کا انتخاب کیا، وہ سکھر سے جلوس کی قیادت کریں گے، وہ اس مقصد کے لیے کوئٹہ یا کراچی کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔

تاہم اس سے پنجاب پہنچتے، پہنچتے تاخیر ہو جاتی جبکہ سکھر پنجاب اور سندھ کے سنگم پر واقع ہے اس لیے وہ سکھر سے روانہ ہوں گے اور اگلے مرحلے میں وہ رحیم یار خان سے پنجاب میں داخل ہو جائیں گے جس کے بعد سارا میدان پنجاب ہی میں لگے گا کیونکہ پنجاب میں داخل ہوتے ہی ان کے راستے میں رکاوٹیں آنی شروع ہو جائیں گی، وزیراعظم عمران خان، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ سے ایک سے زائد ملاقاتیں کر چکے ہیں اور ان ملاقاتوں کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ دونوں صوبائی حکومتیں ایسی پالیسی اور حکمت عملی اپنائیں کہ مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھ آزادی مارچ کے نام پر چلنے والے پارٹی کارکن اسلام آباد نہ پہنچ سکیں، اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تو کھل کر سامنے نہیں آرہے کہ انہوں نے کیا منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی کابینہ کے ارکان بار، بار واضح کر رہے ہیں کہ وہ ہر صورت آزادی مارچ کی راہ روکیں گے اور کسی بھی طور مارچ کو اسلام آباد نہیں پہنچنے دیں گے۔

یہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان کے اسی اعلان کا ہی اثر ہے کہ جے یوآئی کے کارکن مٹہ سوات میں ان کے گھر کے باہر مجمع لگانے پہنچ گئے جس کا مقصد انھیں یہ پیغام دینا تھا کہ اگر ان کی راہ روکی گئی تو پھر وہ بھی دوسروں کی راہ روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم اصل صورت حال آنے والے دنوں میں ہی معلوم پڑے گی کہ مرکزی اور پنجاب وخیبرپختونخوا کی صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں کیا حکمت عملی اپنانے جا رہی ہیں۔

البتہ اس وقت تک مرکزی و صوبائی حکومتیں جو حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں وہ اشتعال انگیز ہے کیونکہ ایک جانب تو وزیراعظم خود اور پھر ان کی پارٹی کے ساتھی مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کے بھی خواہاں ہیں جس کے لیے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں یقینی طور پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی جیسے سنجیدہ لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ساتھ ہی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا تڑکہ بھی لگایا گیا ہے تاکہ معاملات کو سنبھالاجا سکے۔

تاہم ساتھ ہی دوسری جانب خود وزیراعظم اپنی تقریر میں مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے جن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اس کا سیدھا سادھا مطلب ’’آؤ جنگ کریں‘‘ہی بنتا ہے اور چونکہ وزیراعظم جو اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں، جب ایسے الفاظ ادا کرتے ہیں تو ان کی پارٹی کے دیگر ارکان کی جانب سے نہ صرف یہ کہ ان الفاظ کا اعادہ کیاجاتا ہے بلکہ ساتھ ہی وزیراعظم سے ایک، دو نہیں بلکہ دس قدم آگے جا کر ایسے الفاظ اور جملوں کا استعمال کیا جا رہا ہے کہ اس کے بعد تو لگتا نہیں کہ حکومت اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو پائیں گے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے یہ کام رہبر کمیٹی پر چھوڑ دیا ہے۔

جس میں دیگر پارٹیوں کے نمائندے بھی شامل ہیں،کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر یہ مذاکرات ہوں بھی تو کس بات پر ہونگے اور کامیابی کیسے ہو پائے گی ؟کیونکہ مولانا فضل الرحمن تو وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ دونوں مطالبات تسلیم کرنا نہ تو وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کے بس کی بات ہے اور نہ ہی وہ انھیں تسلیم کر سکتے ہیں۔یہ دونوں مطالبات تو ایسے ہیں کہ جن کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ہی کوئی کردار ادا کرنا چاہے تو کر سکتی ہے تاہم اسٹیبلشمنٹ نے فی الوقت چپ سادھ رکھی ہے اور وہ یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔