ایکسپریس میڈیا گروپ کی شاندار دوسری عالمی اردو کانفرنس

ایڈیٹوریل  پير 14 اکتوبر 2013
کانفرنس سے لڈمیلا واسیلیوا، سلیم اختر، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید، شمیم حنفی و دیگر کا مختلف سیشنز میں قومی زبان کے حوالے سے اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

کانفرنس سے لڈمیلا واسیلیوا، سلیم اختر، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، زاہدہ حنا، اصغر ندیم سید، شمیم حنفی و دیگر کا مختلف سیشنز میں قومی زبان کے حوالے سے اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیراہتمام لاہور میں منعقدہ دو روزہ دوسری عالمی اردو کانفرنس اتوار کی رات اختتام پذیر ہو گئی، ’’اردوکے حل طلب مسائل اور نئی نسل ‘‘کے زیر عنوان منعقد ہونے والی اس عالمی کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ ترکی‘ عوامی جمہوریہ چین‘ روس‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے ساٹھ سے زائد ادیبوں، نقادوں اور شاعروں نے شرکت کی۔

پہلے روز کے پہلے سیشن میں ’’اردو رسم الخط کے مسائل‘‘ کے موضوع پر جو گفتگو ہوئی‘ اس میں برطانیہ کے محقق اور اردو زبان کے معروف استاد ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز نے کہا کہ اردو رسم الخط خوبصورت ہے اور اسے محفوظ رہنا چاہیے‘ پاکستان اور بھارت میں اردو کا مستقبل روشن ہے‘ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے‘ ترکی کے ڈاکٹر خلیل توقار اور بنگلہ دیش سے آئے مہمان ڈاکٹر محمد الاسلام اور دیگر مقررین بھی انھی خیالات کے حامی تھے۔ بلاشبہ دنیا کی کوئی زبان اپنے رسم الخط کے بغیر زبان نہیں کہلا سکتی ہے۔ اردو اس وقت جس رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے‘ یہ اس کی روح ہے اور اگر روح پرواز کر جائے تو باقی مردہ جسم رہ جاتا ہے۔

جیسے اردو کو ہندی رسم الخط میں لکھا جائے تو وہ اردو نہیں رہے گی بلکہ ہندی کہلائے گی، پھر بتدریج تشبیہات و استعارے‘ کہاوتیں اور ضرب الامثال سب کچھ ہندی اور سنسکرت میں ڈھل جائیں گے۔ اردو زبان کی خوبصورتی اور حسن اس کے رسم الخط کی وجہ سے ہے‘ اسی وجہ سے اردو میں فارسی اور عربی الفاظ‘ استعاروں اور تشبیہات کا چلن ہے۔ یہی اس کی انفرادیت اورخوبصورتی ہے۔ جہاں تک موبائل فونز پرایس ایم ایس میں استعمال ہونے والے رومن خط کا تعلق ہے تو یہ کوئی تشویشناک بات نہیں ہے۔ ایسے ذرایع سے زبانیں ختم ہوتی ہیں نہ ان کے رسم الخط۔ موبائل فونز اور انٹرنیٹ چیٹنگ نے دنیاکی ہر زبان پر اثرات ڈالے ہیں، اس سے زبانیں آگے بڑھتی ہیں خراب نہیں ہوتیں۔

’’دیگر پاکستانی زبانوں سے اردو کی ہم آہنگی‘‘ کے موضوع پر ہونے والے سیشن میں مقالے پڑھنے والوں کی رائے تھی کہ اردو سے علاقائی زبانوں کو کوئی خطرہ ہے نہ علاقائی زبانیں اردو سے کسی قسم کی مغائرت رکھتی ہیں بلکہ علاقائی زبانوں کے میلاپ سے اردو زیادہ وسیع‘ بامعنی اور خوبصورت ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں تک اردو کو اسکولوں میں لازمی قرار دینے کے مطالبے کا تعلق تو یہ درست ہے۔ اردو کے حوالے سے زیادہ مسائل انگریزی میڈیم طبقے کو ہیں۔

اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کا ذریعہ تعلیم انگریزی ہے‘ ان درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور نوجوان اردو بول تو رہے ہیں لیکن وہ لکھ نہیں سکتے‘ اس ایشو پر غور کیا جائے تو اس کا تعلق طبقاتی تقسیم سے جڑا ہوا نظر آتا ہے ورنہ پاکستان میں اردو کی ہمہ گیریت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ خیبر سے کراچی تک کہیں بھی چلے جائیں‘ اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا خوشحال اور متمول طبقہ اپنے بچوں کو اپنے تئیں اچھی تعلیم دلوانے کے لیے انگلش میڈیم میں داخل کراتا ہے لیکن وہاں نئے مسائل جنم لیتے ہیں اور ان اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے امریکا‘ کینیڈا اور برطانیہ میں تو کامیاب رہتے ہیں لیکن اپنے وطن میں اپنے لوگوں سے الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں‘ اس کا حل یہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایسی تعلیمی پالیسی تیار کریں جس میں انگریزی اور اردو میڈیم درسگاہوںکا نصاب ایک ہو اور سب کو اردو زبان اور ادب پڑھنا لازمی ہو۔

عام فہم زبان (میڈیا اور اردو) کے موضوع پر ہونے والے سیشن میں پر مغز باتیں ہوئیں۔ پروفیسر ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا کہ اردو 19ویں صدی میں بگڑنی شروع ہوئی‘ اصلاح کے نام پر ہم نے زبان کو بگاڑا‘ انقلاب کا لفظ سننے پر دل کی دھڑکن تیز ہو جایا کرتی تھی‘ لیکن اب اس کی جگہ ریوولیوشن کا استعمال ہو رہا ہے‘ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے اپنے مقالے میں کہا کہ اردو اقتدار کی زبان ہے‘ اردو کو عام فہم ہونا بھی نہیں چاہیے بلکہ ایک زبان والا فلسفہ ہی غلط ہے۔

وہ دراصل یہ کہہ رہے تھے کہ زبان کو آسان عام لوگ بناتے ہیں‘ اردو عام آدمی کی زبان نہیں ہے، اس لیے یہ آسان نہیں ہے‘ پنجابی‘ پشتو‘ سندھی‘ بلوچی علاقائی نہیں بلکہ قومی زبانیں ہیں‘ ان کا تھیسس کسی حد تک ٹھیک ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنھیں ہم علاقائی زبانیں کہتے ہیں‘ وہ در حقیقت قومی زبانیں ہی ہوتی ہیں تاہم پاکستان میں اردو کا معاملہ ذرا مختلف ہے‘ اردو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ساتھ ایسے گھل مل گئی ہے کہ اسے الگ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں رہا ہے‘ آج کی اردو اقتدار کی زبان نہیں رہی بلکہ عوام کی زبان بن گئی ہے‘ ہاں اسے مزید آسان اور عام فہم بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ خاص طور پر سائنسی اور معاشی اصلاحات کو عام فہم بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی اور علاقائی زبانوں کے الفاظ کو اردو میں ضم کیا جائے‘ اردو میڈیم بچوں کے لیے حساب کی اصلاحات سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے‘یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچوں کی اکثریت حساب اور دوسرے سائنسی مضامین سے گھبراتی ہے۔

اردو میں نئے الفاظ کو خوش دلی سے قبول کیا جانا چاہیے، اس حوالے سے قدامت پسند رویہ درست نہیں ہے۔ میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز میں کام کرنے والے اسٹاف کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے تاکہ وہ الفاظ کو درست لہجے میں بول اور لکھ سکیں۔ پروفیسر سحر انصاری کی یہ بات درست ہے کہ اردو میں نئے الفاظ کو قبول کرناچاہیے تاہم الفاظ کی درست لہجے میں ادائیگی بھی ضروری ہوتی ہے‘ عام بول چال میں غلط سلط الفاظ بولے جاتے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا یا اخبارات میں بہر حال درست زبان استعمال کی جانی چاہیے۔ اردو کانفرنس کے آخری روز بھی تین سیشن ہوئے‘ ان کے موضوعات ’’اردو پر دیگر زبانوں کے اثرات‘‘ پاکستانی معاشرے کا خلفشار اور ادیب کا کردار اور آخری سیشن کا موضوع بھارت میں اردو کا موضوع تھا۔

کانفرنس کے آخری روز متفقہ قرار دادیں بھی منظور ہوئیں‘ ان قرار دادوں میں مطالبہ کیا گیا کہ ادارہ فروغ قومی زبان‘ اردو لغت بورڈ‘ انجمن ترقی اردو اور دیگر اداروں کی سفارشات کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔ بھارت میں شایع ہونے والی اردو کتب کے تبادلے کے لیے خصوصی طور پراقدام کیا جائے‘ ویزوں کے اجراء میں ادیبوں کے ساتھ نرمی برتی جائے۔ اردو رسم الخط کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے حکومتی سطح پر اقدام اور سرپرستی کی جائے‘ جدید علوم و ادب کی اردو میں منتقلی کے لیے حکومتی سطح پر ایک فعال ’’دارالترجمہ‘‘ قائم کیا جائے‘ اردو میں ادبی اور علمی کتب پر زر تلافی دی جائے‘ تنگ دستی میں مبتلا ادیبوں اور شعرا کی کفالت کے لیے مالی اعانت دی جائے۔ نوجوانوں کی قومی زبان اور ثقافتی سرگرمیوں میں دلچسپی بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں‘ مختلف ملکوں کے اہل قلم کی انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جنوبی ایشیاء کے اہل قلم کی مشترکہ تنظیموں کا قیام عمل میں لایا جائے‘ اردو کو پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر نافذ کیا جائے۔ ایکسپریس میڈیا گروپ ان قراردادوں اور مطالبات کی حمایت کرتا ہے‘ حکومت کو چاہیے کہ ان قرار دادوں پر عملدرآمد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ نے دوسری عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کر کے ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں اور اہل علم کو ملک کے عوام اور اقتدار کے ایوانوں تک اپنی بات پہنچانے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے‘ ایکسپریس کی اس کاوش کی کامیابی کا ثبوت اس کانفرنس میں ملکی اور غیر ملکی نامور اور قابل احترام علمی شخصیات آمد اورعوام کی بھرپور شرکت ہے‘ عوام نے جس ذوق اور شوق سے اہل علم کی باتوں کو سنا‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ اردو زبان سے محبت کرتا ہے اور ادیبوں‘ نقادوں اور شاعروں نے جس درد مندی‘ سنجیدگی اور لگن سے اردو زبان ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کو درپیش مسائل کا ذکر کیا‘ اس کی مثال بھی کم کم دیکھنے میں آتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔