- شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی صدارت چھوڑی دی
- خالی عراقی نے آئی سی سی بی ایس کی خاتون سربراہ کو ہٹادیا، اقبال چوہدری دوبارہ مقرر
- اسٹاک ایکسچنیج : ہنڈرڈ انڈیکس پہلی بار 74 ہزار پوائنٹس سے تجاوز کرگیا
- اضافی مخصوص نشستوں والے اراکین کی رکنیت معطل
- امریکا؛ ڈانس پارٹی میں فائرنگ سے 3 افراد ہلاک اور 15 زخمی
- ہم کچھ کہتے نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پتھر پھینکے جاؤ، چیف جسٹس
- عمران خان نے شیر افضل مروت کو پورس کے ہاتھی سے تشبیہہ دے دی
- سونے کی عالمی اور مقامی قیمت میں کمی
- لاہور سفاری زو میں پہلی بار نائٹ سفاری کیمپنگ کا انعقاد
- زمینداروں کے مسائل، وزیراعلیٰ آج وزیراعظم سے ملاقات کریں گے
- خیبر پختونخوا میں دو ماہ کے دوران صحت کارڈ پر ایک لاکھ افراد کا مفت علاج
- لاہور میں پرانی دشمنی پر ماں اور 17 سالہ بیٹا قتل
- بھارت میں انتخابات کے چوتھے مرحلے کا آغاز؛ 10 ریاستوں میں ووٹنگ
- غزہ جنگ کے خوفناک نفسیاتی اثرات، 10 اسرائیلی فوجیوں کی خودکشی
- گندم اسکینڈل؛ وزیراعظم کا ایم ڈی اور جی ایم پاسکو کی معطلی کا حکم
- نان فائلرز کے موبائل بیلنس پر 100 میں سے 90 روپے ٹیکس کٹوتی کا فیصلہ
- خفیہ معلومات کی تشہیر اورپھیلانے والوں کو سزا دینے کا اعلان
- کراچی میں گرمی میں مزید اضافے کا امکان
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا امکان
- آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ میں مذاکرات، غریب افراد کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے پر اتفاق
لاہور میں فیکٹری دھماکا، ڈیڑھ سال بعد بھی 24 مرحومین کے لواحقین امداد کے منتظر
لاہور: سبزہ زار کے علاقہ میں جانوروں کی دوائی بنانے والی فیکٹری میں بوائلر کے دھماکے سے 24 مرد و خواتین کی ہلاکت کے ڈیڑھ سال بعد بھی لواحقین کو نہ تو امدادی رقم مل سکی اور نہ ہی فیکٹری مالکان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں آسکی۔
فیکٹری کی عمارت غیر قانونی طور پر بنائی گئی تھی اور اس کا نقشہ متعلقہ عملے کو رشوت دے کر منظور کروایا گیا تھا۔ فیکٹری کے مالک، منیجر اور سیکیورٹی گارڈ سمیت مقدمے میں نامزد تمام ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوچکے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق فروری 2012 میں سبزہ زار کے علاقہ کھاڑک اسٹاپ حسن ٹائون میں واقع جانوروں کی میٖڈیسن بنانے والی فیکٹری کی 3 منزلہ عمارت بوائلر دھماکا سے زمین بوس ہوگئی تھی، وقوعہ کے وقت فیکٹری میں 45 مرد، بچے اور 17خواتین کام کررہی تھیں، حادثے کے سبب 24 مردوخواتین ہلاک جبکہ 20 زخمی ہوگئے تھے۔ فیکٹری 1979میں تعمیر کی گئی، تعمیر کے وقت یہ ایک منزلہ عمارت تھی بعد میں اس میں مزید 2 منزلوں کا اضافہ کیا گیا، ذرائع کے مطابق بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ نے عمارت کے نقشے کو غیر قانونی قرار دیا تھا جس کے بعد متعلقہ عملے کو رشوت دیکر فیکٹری کا نقشہ منظور کروایا گیا،اہل علاقہ کے مطابق فیکٹری کو 4 دفعہ سیل کیا گیا، وقوعہ سے 4سال قبل فیکٹری کو آخری دفعہ سیل کیا گیا تھا، ہر دفعہ فیکٹری مالکان اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فیکٹری کو دوبارہ کھلوا لیتے تھے۔
فیکٹری میں کام کرنے والے زیادہ تر مردخواتین کم عمر کے تھے اور ان کو انتہائی معمولی تنخواہ پر ملازمت پر رکھا گیا تھا۔ فیکٹری کی عمارت زمین بوس ہونے کے باعث اردگرد کے مکانات کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔ فیکٹری سے ملحقہ مکان کے مالک رانا امجد کا کہنا تھا کہ فیکٹری مالکان سے متعدد بار فیکٹری کو آبادی سے باہر منتقل کرنے کی درخواست کی تاہم وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ واقعہ کا مقدمہ ایس ایچ او سبزہ زار کی مدعیت میں فیکٹری مالکان شیخ ظہیر، شیخ ظفر، شیخ زبیر، فیکٹری کے سکیورٹی گارڈ اور مینجر کے خلاف درج کیا گیا تھا۔ مقدمہ میں نامزد تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہوچکے ہیں۔اب تک فیکٹری مالکان کی طرف سے ہلاک ہونیوالے افراد کے لواحقین کو کوئی معاوضہ نہ دیا گیا ہے اور نہ ہی ملزمان کو سزا ہوئی ہے، ملزمان کا موقف ہے یہ ایک حادثہ تھا جس کی ذمے داری ان پر عائد نہیں ہوتی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔