منور حسن کے بیان سے پارٹی مشکلات میں اضافہ

شہباز انور خان  بدھ 20 نومبر 2013
بعض سیاسی رہنماؤں نے تو بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قد سے بھی بڑے دعوے اور بیانات داغنا شروع کردیے ہیں۔ فوٹو: فائل

بعض سیاسی رہنماؤں نے تو بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قد سے بھی بڑے دعوے اور بیانات داغنا شروع کردیے ہیں۔ فوٹو: فائل

لاہور: رواں ہفتہ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت پر بڑا بھاری رہا کہ اس میں ایک نجی ٹی وی کوانٹرویو دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف بروئے کار آنے والے پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کے بارے میں اختیار کیے جانے والے موقف پر بحث مباحثہ کا ایسا طوفان اٹھا کہ جس کی گرد بیٹھنے ہی میں نہیں آرہی ۔

ان کے اس متنازعہ بیان کے بعد ان تنظیموں نے بھی جماعت کے خلاف بیان بازی کا سلسلہ شروع کردیا جن کی حیثیت ایک مقامی جماعت سے زیادہ نہیں تھی۔ ایسی بھی تھیں کہ جن کی تمام تر سرگرمیاں ان کے لیٹر پیڈ تک محدود ہیں لیکن ان کی اچھل کود بھی دیدنی تھی ۔

بعض تنظیموں نے امیر جماعت کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ماضی کو بھی کرید کرید کر ہدف تنقید بناتے ہوئے اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک شروع کردیا جیساکسی گِرے پڑے اور کمزور شخص کے خلاف عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں روا رکھاجاتا ہے کہ ہر آتا جاتا اپنے حصے کا گھونسہ اسے رسید کرتا ہے۔ اس طرح ان جماعتوں اورتنظیموں نے جو ایک عرصہ سے جماعت اسلامی کے خلاف ادھار کھائے بیٹھی تھیں موقع ہاتھ آنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قد سے بھی بڑے دعوے اور بیانات داغنا شروع کردیے ہیں ۔

امیر جماعت اسلامی کی طرف سے حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت کو شہادت قراردینے اور امریکی اتحادی کے طور پر دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن اور لڑائی میں جان کی بازی ہارنے والے پاک فوج کے جوان کے بارے میں شہید کے الفاظ استعمال نہ کرنے یا اسے شہادت کے منصب پر فائز ہونے کا اہل قرار نہ دینا بلا شبہ ایک متنازعہ فیہ بات ہے جس کا کوئی محل تھا اور نہ ہی ضرورت ۔ انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کا روائتی سیاستدانوں کی طرح ڈپلومیٹک انداز میں جواب دیا جا سکتا تھا لیکن انہوں نے (لاشعوری نہیں ) شعوری طورپر وہ بات کہہ دی جس نے ملک و قوم کے لیے پاک فوج کی تمام تر خدمات ،قربانیوں اور کارکردگی کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔

 

بہتر تو یہی تھا کہ حکومت پاکستان خود اس پر اپنا رد عمل ظاہرکرتی لیکن غیرملکی دوروں کی شوقین قیادت نے اس معاملے میں روائتی مصلحت (یا تساہل ) پسندی کا ثبوت دیا ۔ وزارت دفاع کا کردار اس سے بھی زیادہ محل ِنظر تھا کہ جس نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی تاآنکہ فوج کو کریز سے باہر نکل کر کھیلنا پڑا۔ جو عین فطری بھی تھا اور جائز بھی ۔ امیر جماعت کا بیان دراصل پاک فوج کے خلاف براہ راست سنگ زنی کے مترادف سمجھا گیا اور پھر کاتا اور لے دوڑی کے مصداق لوگ لٹھ لے کر ان کے پیچھے پڑ گئے اور وہ پکڑے گئے بلکہ پکڑے ہی نہیں گئے جکڑ ے بھی گئے ۔

ان کا موقف جماعت اسلامی کے گلے کا طوق بنادیاگیا کہ ہر چھوٹا بڑا جسے کھینچے چلا جا رہا ہے ۔ جماعت اسلامی کے اکابرین کو اپنے امیر کے اس بیان یا موقف کو سپورٹ کرنے کی جس قدر بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اور مستقبل میں بھی کرنا پڑے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی اس وقت اپنے بانی اور موسس مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی رحلت کے بعد شاید پہلی مرتبہ اس آزمائش سے دوچار ہوئی ہے جس سے بآسانی نکلنا اس کے لیے بہر حال آسان نہیں رہا ۔ اس کی انتہائی زیرک ، پڑھی لکھی ، ہوشمند اور فہم و ذکاء کی مالک قیادت اور ارکان ِ شوریٰ اس وقت جس مخمصے میں پھنس چکے ہیں ان کے لیے اس سے باہر آنے میں خاصی محنت کرنا پڑے گی اور وقت لگے گا اس کا ازالہ کرنے میں ۔

جماعت کا نظم یاڈسپلن اس کی اجازت نہیں دیتا کہ باہمی اختلاف رائے (جو خود جماعت کے اندر قائم جمہوری رویے ہی کا حسن ہے ) کو پبلک کیا جائے ۔ جماعت کی شوریٰ کے اجلاسوں میں تو ارکان کھل کر اظہار خیال کرتے اور تنقید و تبصرہ کرتے ہیں لیکن جب ایک فیصلہ ہو جائے تو پھر اسی کی پابندی کی جاتی ہے بالکل اسی طرح جس طر ح پاک فوج میں رائج ہے کہ کورکمانڈرز کے اجلاسوں میں کمانڈرز اپنے چیف کے سامنے کسی بھی زیر بحث ایشو یا زیر غور معاملے پر کھل کر بات کرتے اور اپنی اختلافی رائے بلا تامل بیان کرتے ہیں لیکن جب کوئی حتمی فیصلہ طے پایا جائے پھر وہ سب اس کی پاسداری کرتے اور اسی پرکاربند ہو جاتے ہیں ۔ اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ایک کمزور پچ پر کھیلتے ہوئے جماعت کی قیادت نے جو موقف اختیار کیا ہے اس نے جماعت اسلامی کو پاک فوج کے مقابلے میں طالبان کی صف میں لاکھڑا کیا ہے اور ظاہر ہے درپیش حالات میں کسی سیاسی جماعت کا یہ کردار پاکستان کے عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔

بظاہر محسوس یہ ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی نے فوج کے رد عمل کے جواب میں ’’جراتمندانہ ‘‘(یا باغیانہ ) موقف اختیار کرکے اپنے اوپر لگی اس چھاپ یا سٹگما کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ غیر ملکی امداد پر پلنے والی ، پروامریکہ اورپرواسٹیبلشمنٹ جماعت ہے لیکن اسی بہانے سے جماعت اسلامی نے اس ’’شر ‘‘میں چھپی ’’خیر ‘‘برآمد کرنے کی کوشش کی ہے کہنے کو تو جماعت کے حوالے سے اس بیان کی صورت میں سانپ کے منہ میں چھپکلی آگئی تھی جسے نگلا جا سکتا تھا اور نہ اگلا ۔ لیکن جماعت کے اکابرین نے اپنے حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے وہ موقف اخیتارکیا جس نے جماعت کی پوزیشن کو مزید ایکسپوز کردیا ہے ۔

آنے والے دن اس لحاظ سے جماعت اسلامی اور اس کے اکابرین کے لیے انتہائی مشکل نظر آتے ہیں ۔ بادی النظر میں جماعت اسلامی نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ اصولی اور منطقی دکھائی دیتا ہے لیکن جس پس منظر میں اسے اختیار کیا گیا ہے وہ عذرِگناہ بد تر از گناہ کے زمرے ہی میں آئے گا۔ اب سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت پر اس کے جو منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کی موجودگی میں کیا مستقبل کی سیاست میں وہ کوئی کردارادا کرسکے گی یا نہیں ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا شافی جواب عام آدمی کے ساتھ ساتھ خود جماعت کے کارکن بھی چاہتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔