نمودونمائش کی تباہ کاریاں

حرا احمد  بدھ 27 مارچ 2024
اکثر لوگ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے ہوئے بھی نمودونمائش سے باز نہیں آتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اکثر لوگ غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے ہوئے بھی نمودونمائش سے باز نہیں آتے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ظاہری نمودو نمائش سے مراد ایسی دولت ہے جسے دکھا کر کسی دوسرے کی دل آزاری کی جائے۔ جسے دکھانے کا مقصد اللہ کی رضا کے بجائے کوئی خاص نیت یا ارادہ ہو۔ جیسے لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانا مقصود ہو تاکہ لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے عزت دیں۔ آج کل ہم نے صرف مال و دولت اور مادی اشیا کو ہی اپنی زندگی کا محور و مرکز بنایا ہوا ہے اور ہم اپنے عقل اور شعور کو انسانیت کی تعمیر کے بجائے تخریب پر استعمال کررہے ہیں۔

ہم اپنی دولت کے خمار میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ اپنے خوبصورت رشتوں کو بھی دولت کے ترازو میں تول رہے ہیں۔ ہمارے سارے تعلقات اور رشتے احساس اور محبت کے بجائے مال و دولت اور مادی مفادات سے شروع ہوکر انہی پر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس لیے احساس ختم ہوکر معاشرے میں افلاس کو جنم دے رہا ہے۔

دولت انسان کو دنیا کی ہر مادی چیز دے سکتی ہے، لیکن اسے اس کا اچھا نصیب، سکھ اور چین کبھی نہیں دے سکتی۔ اس ترقی یافتہ دور میں جہاں ایک انسان کو کسی دوسرے کا ہوش نہیں، وہیں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نمودونمائش اور دکھاوے کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمارا دین اسلام ہمیں سادگی اور عاجزی کا درس دیتا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت انسان کو مادی خوشی تو دے سکتی ہے لیکن وہ سکون اور اطمینان کبھی مہیا نہیں کرسکتی جو حق حلال کے دو نوالے کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والوں کو دیتی ہے۔

ہماری سب سے بڑی بے وقوفی یہ ہے کہ ہم نہ صرف اللہ کے دیے گئے پر شکوہ کناں رہتے ہیں بلکہ اس کی تقسیم میں بھی فرق کرتے ہیں۔ ہم بہت جلد دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر دوسروں کی ظاہری شان و شوکت اور نمودونمائش سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ مال و دولت اور ظاہری نمودومائش انسانی زندگی میں بے پناہ تباہ کاریاں لاتی ہے۔ اس دنیا میں بہت سارے انسان ایسے ہیں جو دوسروں کی ظاہری دولت اور شان و شوکت سے متاثر ہوکر اپنی زندگی کو خراب کرلیتے ہیں۔

دنیا میں بہت ساری گھریلو خواتین ایسی ہیں جو کسی دوسرے کی ظاہری نمودونمائش کو دیکھ کر اپنا بسا بسایا گھر اجاڑ دیتی ہیں اور پھر ان کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آتا۔ دنیا میں بہت سارے والدین ایسے ہیں جو اپنے بچے بچیوں کے رشتے امیر خاندانوں میں کرنے کے خواہاں ہیں اور اس انتظار میں وہ ان کے رشتے کی عمریں نکال دیتے ہیں۔

نمودو نمائش صرف دولت کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ ہماری عبادتوں اور نیکیوں میں بھی عام ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز، روزہ اور حج اس لیے کرتے ہیں تاکہ دنیا والے ان کو متقی اور پرہیزگار کہہ سکیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کسی بے کس، غریب اور لاچار کی مدد اسی لیے کرتے ہیں تاکہ سخی کہلوائے جاسکیں۔ وہ کسی غریب اور مسکین کی مدد کرتے ہوئے بھی نمودونمائش سے باز نہیں آتے اور ان کی مدد کرتے ہوئے سیلفیاں لے کر ان کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔ یاد رکھیے دنیاوی دکھاوے کےلیے کیا گیا کوئی بھی عمل اللہ کی بارگاہ میں قابل قبول نہ ہوگا۔ نمودونمائش، دکھاوا اور ریاکاری اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ یہ ایک ایسا قبیح فعل ہے جس کی سزا بہت سخت ہوگی۔

قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے ’’اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کےلیے خرچ کرتا ہے اور اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ (البقرہ264)

حدیث میں آتا ہے ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ اللہ پاک انسان کو اس کی نیت سے جانتا ہے۔ جیسی نیت ہوگی ویسا ہی پھل ملے گا اور نیت بغیر کھوٹ کے ہوگی تو اس کا اجروثواب بھی زیادہ ملے گا۔ اس کی ایک مثال ایسے ہی ہے جیسے بقر عید پر نمودونمائش کےلیے جانور کو ذبح کرنے کے بجائے اللہ کی خوشنودی اور رضا کےلیے اور غریبوں کی مدد کےلیے قربانی دی جائے۔ بالکل اسی طرح کوئی بھی نیک عمل یا عبادت صرف وہی اللہ کے ہاں منظور نظر ہوتی ہے جو اخلاص کے ساتھ رب کائنات کی رضا اور خوشنودی کےلیے کی جائے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں سورۃ اقرا میں ارشاد فرماتے ہیں ’’کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ (سب کچھ ) دیکھ رہا ہے؟‘‘

بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران ایسے بھی اس دنیا میں آئے جنہیں اپنی شان و شوکت، دولت اور مرتبے پر بہت غرور تھا لیکن آج ان کا انجام ایسا ہے کہ ان کی ہڈیاں بھی مٹی میں باقی نہیں۔ تو پھر ہم کیوں کسی کے اچھے اخلاق سے متاثر ہونے کے بجائے اس کی ظاہری نمودونمائش سے مرعوب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔

یہ محل، یہ مال و دولت سب یہیں رہ جائیں گے
ہاتھ آئے گی فقط دو گز زمیں مرنے کے بعد

اس لیے خدارا اپنی زندگی کو دکھاوے اور دو نمبری سے نکال کر اصلیت کی طرف لوٹیے۔ اپنے اندر کے اچھے انسان کو کبھی مرنے نہ دیجئے۔ زندگی کی نئی راہیں تلاش کیجئے۔ اپنے اندر چھپی خداداد صلاحیتوں کو پہچانیے۔ اپنے اچھے کردار اور اچھے کام سے دنیا میں نام پیدا کیجئے جو رہتی دنیا تک جاری وساری رہے۔ اگر اللہ نے آپ کو مال و دولت سے نوازا ہے تو اس کا غلط استعمال کرنے کے بجائے اللہ کی راہ میں خرچ کیجئے۔ ضرورت مندوں کی مدد کیجئے۔ مسکینوں کو ان کا حق دیجئے۔

اللہ کی دی گئی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کیجئے۔ یاد رکھیے دنیا میں دی گئی نعمتوں کا حساب لیا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حرا احمد

حرا احمد

مصنفہ نوجوان بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ عوامی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹرسائنس میں فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔