زباں فہمی نمبر 52؛ اردو اور دیگر زبانوں میں پودوں، سبزیوں، پھلوں کے مشترک نام

سہیل احمد صدیقی  اتوار 7 جون 2020
(ویسے حیران کُن بات یہ ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں بھی حرف ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ کہنے اور لکھنے کا رواج ہے

(ویسے حیران کُن بات یہ ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں بھی حرف ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ کہنے اور لکھنے کا رواج ہے

اردو زبان کی وسعت و ہمہ گیری سے کسے انکا رہے۔ ہاں جنھیں انکارہے، اُن کی اپنی علمیت اور ذہنیت دونوں ہی مخالفت بربِنائے تعصب کے سوا کچھ نہیں کرپاتی۔ یہ لوگ محاورے میں ’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘ کے مصداق ہیں۔

خاکسار اپنی تحریروتقریرمیں یہ نکتہ بارہا عرض کرچکا ہے کہ دنیا کی تقریباً تمام قابل ِذکر، بڑی ، اکثر نمایاں، متعدد چھوٹی زبانوں، حتیٰ کہ بولیوں میں بھی ایسے الفاظ، تراکیب، محاورہ جات اور دیگر لسانی مواد موجود ہے جو اردو سے مشترک ہے۔ یا تو اردو میں وہ مشترک ذخیرہ موجود ہے، مستعار ہے یا اس کے برعکس، کسی دیگر زبان کا معاملہ ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں مختلف قسم کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، مگر فی الحال پہلے اپنے موضوع سے براہ راست انصاف کیا جائے تو اچھا ہے۔

برصغیر پاک وہند (یابعض بزرگوں کے نزدیک برّعظیم) کی مختلف بڑی اور چھوٹی علاقائی زبانوں سے اردو کے اشتراک کی ایک نمایاں مثال پودوں، خصوصاً سبزیوں اور پھلوں کے وہ نام ہیں جو اردو اور ان تمام زبانوں میں یا تو بالکل یکساں ہیں، مماثل ہیں یا قریب قریب ویسے ہی محسوس ہوتے ہیں۔ بات شروع کرتے ہیں اپنی من پسند سبزی بھنڈی سے جو خاکسار کے محدود مشاہدے کے مطابق، اکثر گھروں کی مقبول سبزی ہے۔ ادھر کچھ سال سے اس کے طبی فوائد، خصوصاً ذیابیطس کے علاج میں شافی ہونے کے بارے میں جدید تحقیق پر مبنی مواد بھی انٹرنیٹ پر پیش کیا جارہا ہے۔

بھنڈی کے انگریزی نام Ladies’ fingers or Ochroاور Okraسے ہمارے جدید اذہان کافی مانوس ہیں، مگر یہ بات شاید اکثر خواندہ، اردوگو اور اردوداں حضرات کے لیے خوشگوار حیرت کا باعث ہوگی کہ پورے خطے میں مقبول و مرغوب، اس سبزی کا نام کم وبیش ہر زبان میں یکساں ہے۔ اِسے ہندی میں بھنڈی، آسامی، اُڑیا اور مراٹھی میں بھینڈی (Bhendi)کہتے ہیں، بنگلہ، نیپالی اور پنجابی میں بھی یہ سبزی بھنڈی کہلاتی ہے، جبکہ نیپالی میں اس کا دوسرا نام ہے: چپلے بھینڑی۔ پشتو میں بنِڈے، (بھے کی بجائے بے کی آواز)، جبکہ گجراتی میں اسے بھِنڈا کہتے ہیں، تیلگو۔یا۔ تیلگو میں بینڈا (Benda)اور کونکنی میں بھینڈڈی (Bhenddi)کہا جاتا ہے۔

یہاں ایک ضمنی بات عرض کرتا چلوں کہ کونکنی کو، اہل زبان اپنی تحقیق کی بنیاد پر باقاعدہ زبان کی بجائے بولی (Dialect) قرار دیتے ہیں، باوجودیکہ اس میں، (گجراتی کی بولی میمنی کی طرح) ادب بھی تخلیق ہوچکا ہے۔ بعینہ یہی معاملہ پوٹھوہاری سمیت مختلف شاخ ہائے پنجابی اور جنوبی ہند کی ایک بولی ’’نوائط‘‘ کا ہے۔ کَنَّڑ بھی ہمارے برصغیر کی ایک زبان ہے۔ اس زبان میں ہماری ہردل عزیزبھنڈی کو ’’بھینڈے کئی‘‘(Bhende Kayi)کہتے ہیں،۔۔۔۔۔۔۔۔اور جناب! بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ مَلیالَم اور تَمِل زبان میں اس کا نام ہے: وینڈاکا(Vendakka) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کہیں گے کہ صاحب! یہ نام تو مختلف ہے، نہیں جناب، ذرا غورکریں، اس لفظ کا ماخذ بھی وہی ہے جو بھنڈی کا ہے۔

اس کی تفصیل تو کوئی ماہرِلسانیات ہی آپ کو بتائے گا۔ (بہت سے لوگ سہواً ’’تَمِل‘‘ کو تامَل یا تامِل کہتے ہیں)۔ ببول یا کیکر (Gum Arabic tree, Thorny Accacia, Egyptian Accacia, Thorn Mimosa, Babul ) سے کون واقف نہیں۔ بنگلہ میں اسے بابلا(Babla)، پنجابی میں کِیکر، کونکنی میں ببول زھاد(Babulzhadd)، مراٹھی میں ببھول (Babhul)اور اُڑیا میں ببوری (Baburi)کہتے ہیں۔ ہاں، البتہ آسامی میں بڑا عجیب اور مختلف نام ہے: توروا کدم (Toruakadam)۔ یہ انتہائی مفید جھاڑی ہے جس کی ایک قسم پورے درخت کی شکل میں بھی کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ اس کے پتوں اور پھلیوں کے طبی فوائد میں مردوعورت دونوں کے لیے مقوّی ہونا ثابت ہے۔ اس کے علاوہ اس کا شہد (یعنی اس پر بننے والے چھَتّے کا شہد) ذیابیطس کا قدرتی علاج ہے۔

یہ کم یاب ہے اور عوام النّاس ہوں یا خواص ، اس کی ماہیت سے ناواقف ہیں، لہٰذا گزشتہ کچھ سال سے ملکی وغیرملکی ادارے ، نامعلوم کون کون سی چیز سے شہد تیار کرکے ’کیکر کا شہد‘ کہہ کر بیچ رہے ہیں اور خوب مال کمارہے ہیں۔ لسان و لسانیات کے اس ادنیٰ طالب علم سے یہ گُر بھی جان لیں کہ کیکر کا شہد، پتلا ہوتا ہے اور اس میں مٹھاس اس قدر کم ہوتی ہے کہ جیسے نکال لی گئی ہو اور قدرے نمکین ذائقے کی قدرتی آمیزش ہوتی ہے۔ یہ سب نہ ہو تو فوری سمجھ جائیں کہ آپ کو ’کیکر کے شہد‘ کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

{ویسے یہی معاملہ بیری کے شہد کا بھی ہے جو خالص تو بازار میں بہت ہی کم یاب ہے، مل جائے تو ذیابیطس کا یقینی علاج ہے اور نیم کا شہد بھی جس کے متعلق ابھی ’کماؤ‘ اداروں کو علم نہیں کہ یہ بھی اسی مقصد کے لیے مفید ہے۔ بیری کا شہد سب سے پتلا اور تقریباً پھیکا ہوتا ہے، جبکہ نیم کے شہد میں نیم کا مخصوص کسیلاپَن اور خوشبو بدرجہ اَتم موجود ہوتی ہے۔ مگس بانی کے کاروبار سے منسلک لوگ، اَجوائن اور سورج مکھی کے پھولوں سے بھی شہد کشید کرتے ہیں۔

راقم کا گمان ہے کہ یہ بھی ذیابیطس کے لیے مفید ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تین سو سے زائد بیماریوں کے علاج کے لیے مشہور ومنفرد، سُہانجنا/سوہانجنا / سینجنا کا شہد بھی یقیناً کم یاب ہی نہیں، نایاب برابر ہے اور آنکھ بند کرکے، ذیابیطس سمیت کسی بھی بیماری کے علاج کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔ ’’شہدکہانی‘‘ کا سب سے حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ ’ماحول دشمن‘ یا ’’قدرے کم‘‘ ماحول دوست درخت ، کونوکارپس(Conocarpus) بھی (جو سابق فوجی آمر اور سابق ناظم کراچی کا اس شہر اور ملک پر مسلط کیا ہوا درخت ہے) اللہ کے فضل وکرم سے شہد کے چھتّے بناسکتا ہے۔

گلستان جوہر بلاک 19، کراچی میں ایک جگہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور نے دیکھا اور بتایا تو ہماری عقل دنگ رہ گئی۔ ویسے اسی درخت پر عام چڑیوں کے علاوہ، ایک بہت ہی پیاری، ننھی منی، من موہنی سِیٹی باز، خاکستری چڑیا اور ایک سیاہی مائل نیلی سِیٹی باز چڑیا (Sun-bird) بھی خوب سُر بکھیرتی ہیں (یہ اس خاکسار کا مشاہدہ ہے)۔ افسوس اس ملک میں کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو قدرت کے ان بیش بہا خزانوں کو اصل شکل میں عوام الناس کے فائدے کے لیے بڑے پیمانے پر تیار کرکے، مناسب قیمت پر عام کردے}۔

سِری پھل (Wood Apple)کو پنجابی میں بِیل (Bil)کہتے ہیں، جبکہ ہمارے یہاں عموماً میوہ فروش اِسے ’بیل پتھر‘ یا ’کَٹ بیل‘ کے نام سے بیچتے ہیں۔ اب اسی نام سے مماثل نام ملاحظہ فرمائیں۔ آسامی اور بنگلہ میں بائل یا بَیَل(Bael)، گجراتی میں بیلیوا پھل (Biliva Phal) ، کَنَّڑ زبان میں بِیلوا پاترے(Bilva Patre)، کونکنی میں بیل فولی (Belfoli)، مراٹھی میں بیل (Bel)اور اُڑیا میں بیلا(Bela)کہتے ہیں، جبکہ تلیگو میں اس کا نام ہے بِیلوامُو(Bilvamu)۔ ایک اور نام جو بظاہر مختلف ہے ، مگر اصل میں اس پھل کے نام کے مآخذ سے مشتق لگتا ہے: وِیلوا مرام (Vilvamaram)۔ یہ نام اس پھل کو تَمِل زبان میں دیا گیا ہے۔

پیاز(Onion)کو ہندی، پنجابی، گوجری، پشتو اور (حیرت انگیز طور پر) فارسی (پاکستانی و ایرانی دونوں) میں پیاز ہی کہا جاتا ہے۔ (پنجابی میں اس کے دوسرے نام: گنڈھا، گٹھا)۔ بلوچی اور براہوئی میں پیِماز کہتے ہیں، بنگلہ میں پیاج، (گوجری میں اسے ’گنڈو‘ بھی کہتے ہیں)، جبکہ اُڑیا میں یہ پیازو(Piazo)کہلاتی ہے اور کونکنی میں اس کا نام پیاؤ(Piao)ہے۔ (ضمنی بات یہ ہے کہ ہندی اور قدیم اردو میں پیاؤ سے مراد ہے، گھوڑے کے پانی پینے کی جگہ)۔ سندھی میں بَصَل (خالص عربی لفظ ) اور بَصَر استعمال ہوتا ہے، جبکہ سرائیکی میں پیاز کو وس۔ سل (عربی بصل کا محرّف ) کہتے ہیں۔ ل

ہسن (Garlic)کو سنسکرت میں لسوند، ہندی میں لہشن اور پنجابی میں لہسن ہی کہتے ہیں، (بول چال کی زبان میں اردو اور پنجابی دونوں ہی کا بگڑا ہوا تلفظ ہے: لھس سن)، میواتی میں لھسّنڑ، جبکہ گجراتی میں لیسن (Lason)کہا جاتا ہے۔ بنگلہ میں اس کے ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ آجاتی ہے، یعنی ’’رَسُن‘‘ (Rasun)یا رَشُن اور اُڑیا میں یہ ’’رسونا‘‘(Rasuna) کہلاتا ہے۔

(ویسے حیران کُن بات یہ ہے کہ چینی اور جاپانی زبان میں بھی حرف ’لام‘ کی جگہ ’رے‘ کہنے اور لکھنے کا رواج ہے۔ کسی خواندہ جاپانی کے لیے بھی ایسا کوئی لفظ انگریزی یا اردو میں بالکل درست کہنا محال ہے جس میں ’لام‘ شامل ہو۔ بات دراز ہوتی ہے کہ اردو کی قدیم، مگر زندہ بولی میواتی میں حرف لام، ڑے سے بدل جاتا ہے جس کی مثالیں آپ اسی مضمون میں ملاحظہ کریں گے)۔ ہاں ایک بات تو مَیں بھول ہی گیا، مراٹھی میں بھی اسے لیسن (Lason)ہی کہا جاتا ہے، جبکہ کونکنی میں یہ لوسن (Lossun)ہوتا ہے۔ پنجابی میں لہسن کا دوسرا نام تھوم (عربی لفظ ’توم‘ کی متبدل شکل) ہے، جبکہ یہی نام پوٹھوہاری (پنجابی کی بولی)، گوجری، بلوچی اور سندھی میں بھی رائج ہے۔ براہوئی میں عربی لفظ تُوم مستعمل ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، کیونکہ موضوع کی وسعت کے پیش نظر خاکسار یہی عرض کرے گا: ع  کچھ اور چاہیے وسعت، مِرے بیاں کے لیے۔

مآخذ(References)

A class book of Botany by A.C.Dutta-(India)-Appendix-II: Glossary of  Names of Plants  ٭

Chambers Fun with English Word Origins by   George Beal, London, UK-1995  ٭

٭ English Persian Dictionary  by Abbas Aryanpur  Kashani & ManoocherAryanpur  Kashani

: Tehran, Iran (Pirated edition: Karachi)]فرہنگ انگلیسی۔فارسی[

٭ اردو زبان کا ماخذ۔ ہندکو، از پروفیسر خاطر غزنوی، ناشر مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد:2003

٭مضامین ِ اختر جوناگڑھی از قاضی احمد میاں اختر ؔ جوناگڑھی، ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی: 1989

٭پاکستان وہندوستان کی جڑی بوٹیاں، از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیوڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭ خواص الاشیاء: تین جلد بشمول سبزیوں اور پھلو ں کے خواص، گھریلو اشیاء کے خواص از حکیم محمد عبداللہ۔ لاہور (استفادہ ازنجی کتب خانہ ہمشیرہ ہومیو ڈاکٹر فرحت صدیقی)

٭بنگلہ زبان پر اردو زبان کا اثر، از پروفیسر ڈاکٹر ام سلمیٰ (مرحومہ)۔ شعبہ فارسی و اردو، جامعہ ڈھاکا، بنگلہ دیش: یاد بود ہفتاد وپنجمین سال بخش فارسی و اردو (پچھہتر ویں سال گرہ پر یادگاری مجلہ، حصہ فارسی و اردو: 1996)

٭گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ مع تقابلی لغت، از ڈاکٹر عظمیٰ سلیم۔ ناشر: اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017

٭ نجی گفتگو بَروھاٹس ایپ( WhatsApp): شہاب الدین شہاب ؔ(انگریزی و سندھی پر عبور نیز فارسی ، عربی ودیگر زبانوں سے شدھ بدھ کے حا مل اردو شاعر، براڈکاسٹر، صحافی: کراچی)، اشرف میواتی (اردو کے میواتی شاعر، معلمِ تاریخ: مُوہوں،

ہریانہ۔ ہندوستان)، مصطفی دل کش (اردو اور بھوج پوری کے شاعر۔ ہندوستان)، قاضی اعجاز محورؔ (پنجابی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: گوجرانوالہ)، عبداللطیف ندیم (سابق رفیق کار، متوطن گجرات، پنجاب۔ مقیم کراچی)، ہومیوڈاکٹر محمد ظفر (اردوشاعروادیب، مقیم ِ قصبہ ترشولی، نیپال)، ثاقب ہارونی (اردو شاعر، ادیب اور براڈکاسٹر، مقیم ِنیپال)، ڈاکٹر علی کمیل قِزِل باش (فارسی میں پی ایچ ڈی، اردوشاعر)، افضل مراد (براہوئی اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: کوئٹہ)، اظہار اللہ اظہارؔ (پشتو اور اردو کے صاحب دیوان شاعر: پشاور)، شہزادنیاز (سرائیکی اور اردو کے شاعر، جاپانی زبان سے واقف: متوطن بہاول پور، مقیم کراچی)، حسنین ساحر(اردو، پوٹھوہاری اور فارسی کے محقق وشاعر: بھارا کہو، اسلام آباد)، ظہیرظرف ؔ(اردواوربلوچی کے شاعر، مترجم)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔