پشاور بس ٹرمینل کی نیلامی پر خیبرپختونخوا حکومت سے جواب طلب

خبر نگار  منگل 15 ستمبر 2020
سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود 2018 کو ٹرمینل بمعہ اسٹینڈ ہی نیلام کردیا گیا، درخوقاست گزار فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود 2018 کو ٹرمینل بمعہ اسٹینڈ ہی نیلام کردیا گیا، درخوقاست گزار فوٹو: فائل

 پشاور:  

ہائیکورٹ نے پشاور بس ٹرمینل کی نیلامی کے خلاف دائر رٹ پٹیشن پر صوبائی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کس قانون کے تحت بس اڈہ نیلام کیا گیا ہے ، کیامحکمہ بلدیات یہ نیلام کرسکتی ہے؟

پشاور ہائی کورٹ نے پشاور بس ٹرمینل کی نیلامی کے خلاف دائر رٹ پٹیشن پر صوبائی حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کس قانون کے تحت بس اڈہ نیلام کیا گیا ہے ، کیامحکمہ بلدیات یہ نیلام کرسکتی ہے؟ایسا کوئی قانون ہو تو عدالت کو پیش کریں۔

چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس ناصرمحفوظ پر مشتمل دورکنی بنچ نے پشاور ہائی کورٹ نے پشاور بس ٹرمینل کی نیلامی کے خلاف دائر رٹ پٹیشن پر سماعت شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل امین الرحمان نے عدالت کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 15 فروری 2018 کو پشاور بس ٹرمینل سے متعلق فیصلہ دیا تھا کہ پارکنگ اسپیس اور ڈیپارچر شیڈول کو نیلام کریں جب کہ سپریم کورٹ نے بھی یہ فیصلہ برقراررکھا تاہم 8 دسمبر 2018 کو پورا ٹرمینل بمعہ اسٹینڈ ہی نیلام کردیا گیا۔

امین الرحمان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ یہ ٹرمینل حکومتی ملکیت ہے اس کے موکل کو الاٹمنٹ کے باوجود ٹھیکہ دار نے نکال دیا کیونکہ ٹھیکہ دار نے کہا ہے کہ اس کی شرائط پر چلنا ہوگا،انہوں نے بتایا کہ اڈے کو نجی افراد کے حوالے کیا گیا ہے، اس موقع پر موجود اے اے جی نے بتایا کہ ٹرمینل کا انتظام اب بھی حکومت کے پاس ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا ٹرمینل نیلام کرنے کا قانون موجود ہے؟ کیا لوکل گورنمنٹ یہ نیلام کرسکتی ہے،فاضل جسٹس نے مزید کہا کہ اگر قانون موجود ہے تو عدالت کو پیش کریں ۔ حکومت اس حوالے سے 17ستمبر تک متعلقہ قانون یا رولز پیش کریں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔