کورنگی میں لوٹ مار کا معاملہ، مزدوروں پر گولیاں چلانیوالے 5 پولیس اہلکار گرفتار

اسٹاف رپورٹر  جمعرات 8 اکتوبر 2020
پولیس نے واقعے کومقابلہ ظاہرکیا جب کہ جناح اسپتال میں جاں بحق و زخمیوں کے رشتے داروں نے بھانڈاپھوڑدیا ۔  فوٹو : فائل

پولیس نے واقعے کومقابلہ ظاہرکیا جب کہ جناح اسپتال میں جاں بحق و زخمیوں کے رشتے داروں نے بھانڈاپھوڑدیا ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: کورنگی مہران ٹاؤن پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے ایک شہری کے جاں بحق ہونے اور2 شہریوں کے زخمی ہونے کے واقعہ مقدمہ درج کرلیا گیا تاہم مقتول کے اہلخانہ نے مقدمے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقدمے میں زیر حراست پولیس اہلکاروں کو نامزد نہیں کیا گیا۔

کوکورنگی صنعتی ایریا تھانے کی حدود مہران ٹاؤن سیکٹر 8 میں بند پر ڈکیتی کی واردات کے بعد موقع پر پہنچنے والے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے دہاڑی دار ایک مزدور40 سالہ عطااللہ جاں بحق اور2 مزدور 35 سالہ خضر اور 23 سالہ یاسر زخمی ہوگئے تھے جنھیں فوری طور پر جناح اسپتال منتقل کردیا گیا۔

پولیس نے واقعے کو فوری طور پر پولیس مقابلہ ظاہرکیا تاہم جناح اسپتال میں پولیس کی کارکردگی کا پول اس وقت کھلا جب جناح اسپتال میں مقتول عطااللہ کے بھائی ثنااللہ نے میڈیا کو اصل حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹنے کے بعد ہم نے خود مددگار 15 پولیس کو کال کی اور ان کے انتظارمیں کھڑے تھے کہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ہم پر ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جب کہ ڈاکوؤں کو فرارہوئے 10 منٹ گزرچکے تھے جس کے نتیجے میں عطا اللہ جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہو گئے۔

واقعے کے بعد اصل حقائق سامنے آنے پر پولیس حکام حرکت میں آگئے اور پولیس نے واقعے میں ملوث 5 پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے کر تھانے منتقل کردیا اوران کے ہتھیار تحویل میں لے لیے۔

بدھ کو کورنگی صنعتی ایریا پولیس نے مقتول عطا اللہ کے اہل خانہ کی جانب سے تھانے میں جمع کرائی جانے والی درخواست پر بھائی نثااللہ کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش  انویسٹی گیشن پولیس کے سپرد کردی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ پولیس کو جائے وقوع سے ایس ایم جی کا ایک خول اور چھوٹے ہتھیاروں کے 2 خول ملے تھے جنھیں پولیس نے تحویل میں لے لیا تھا  زیرحراست پولیس اہلکاروں کے ہتھیاراور جائے وقوع سے ملنے والے خول فارنسک تجزیے کے لیے بھجوادیے ہیں جبکہ واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے ایس پی لانڈھی کی سربراہی ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

کورنگی صنعتی ایریا تھانے کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے مقتول عطااللہ کے بہنوئی تیمورنے مقدمے کے اندراج پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے درخواست پر واقعے کا مقدمہ تو درج کرلیا ہے لیکن مقدمے میں زیرحراست پولیس اہلکاروں کو نامزد نہیں کیا ہے ہمیں نہیں پتہ کتنے اہلکار حراست میں ہیں، تھانے کے لاک اپ میں زیر حراست اہلکار موجود نہیں ہیں، وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی نوٹس لیں اور انصاف فراہم کریں۔

مقتول کے بہنوئی نے بتایا کہ مقتول کا بھائی نثااللہ میت آبائی علاقے ملتان لے کرروانہ ہوگیا ہے جہاں مقتول کی آبائی علاقے میں تدفین کردی جائے گی مقتول عطااللہ 3 بچوں کا باپ اور 4 روز قبل ہی گاؤں سے کراچی آیا تھا۔

پولیس حکام نے ابتدائی انکوائری رپورٹ بھی مکمل کرلی اورپولیس اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی انکوائری رپورٹ میں پولیس اہلکار قصوروار پائے گئے ہیں۔

پولیس پارٹی جب موقع پر پہنچی تو ڈاکو فرار ہوچکے تھے انکوائری رپورٹ میں جائے وقوع سے بھی دوطرفہ فائرنگ کے شواہد نہیں ملے واردات کے وقت شہریوں نے اپنا پرس اور دیگر سامان  جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا ڈاکوؤں کے فرارہوجانے پرشہری جھاڑیوں میں اپنے پرس اور سامان ڈھونڈرہے تھے پولیس پارٹی موقع پرپہنچی اور مزدوروں پر فائرنگ کردی۔

کورنگی صنعتی ایریا پولیس نے شہری کی ہلاکت کے الزام میں زیر حراست 5 پولیس کانسٹیبل رضوان ، رضا ، عامر ، اشتیاق اور جنید کو درج کیے جانے والے مقدمے میں باضابطہ طور پر گرفتار کرکے انویسٹی گیشن پولیس کے حوالے کر دیا۔

مقتول عطااللہ کے بھائی ثنااللہ کی مدعیت میں درج کئے جانے والے مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 اور ڈکیتی کی دفعہ کو شامل کیا گیا ہے، مدعی مقدمہ نے بیان دیا ہے کہ مقتول اور زخمی افراد سے ڈاکوؤوں نے ایک لاکھ روپے نقد اور 5 اسمارٹ موبائل فونز چھینے تھے جو وہ لے کر فرار ہوگئے، مقتول کے بھائی ثنااللہ نے 50 ہزار اور اپنا موبائل فون جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا  مدد گار 15 پر کال کر پولیس کا انتظار کر رہے تھے کہ پولیس اہلکاروں نے ڈاکووں کو پکڑنے کے بجائے ہم  پر ہی فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں میرا بھائی عطااللہ جاں بحق جبکہ قیصر اور خضر حیات ٹانگوں پر گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے۔

مدعی مقدمہ کے مطابق پولیس والوں اور ڈاکوؤں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے کیونکہ جس پولیس سے ہم نے مدد مانگی انھوں نے بجائے ڈاکوؤں کے ہمیں ہی نشانہ بنایا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔