کراچی میں عالم دین کی شہادت، فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش

عامر خان  بدھ 14 اکتوبر 2020
کراچی علماء کمیٹی نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ شہید مولانا ڈاکٹر عادل خان  کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔فوٹو : فائل

کراچی علماء کمیٹی نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ شہید مولانا ڈاکٹر عادل خان کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔فوٹو : فائل

 کراچی:  ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے حوالے سے مختلف حلقے جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے اس کی حقیقت کراچی میں اس وقت سامنے آئی ہے جب مسلح ملزمان نے شاہ فیصل کالونی کے علاقے میں معروف عالم جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹرعادل خان کو ان کے ڈرائیور کے ساتھ فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔

واقعے کی اطلاع شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، شہریوں نے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔آرمی چیف، وزیراعظم، وزیراعلیٰ سندھ سمیت دیگر اہم شخصیات نے مولانا عادل کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

مولانا عادل معروف عالم دین مولانا سلیم اللہ خان کے صاحبزادے تھے۔ وہ طویل عرصے ملائیشیاء میں قیام پذیر تھے۔اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ وطن واپس آئے اور جامعہ فاروقیہ فیز 2 حب ریور روڈ کے مہتمم کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھارہے تھے۔ وہ حال ہی میں ملک بھر میں ہونے والے عظمت صحابہ ریلیوں کے روح رواں بھی تھے۔

کراچی علماء کمیٹی نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ شہید مولانا ڈاکٹر عادل خان  کے قاتلوں کو گرفتار کرے ورنہ علما اور اہل مدارس اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ فوری طور پر اگلے راست اقدام پر مجبور ہوں گے، جس میں ملک گیر پہیہ جام ہڑتال، ملک بھر میں شدید احتجاحی مظاہرے، بھرپور جلسے اور پرامن احتجاجی جلوس شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مرا علی شاہ نے پولیس حکام کو فوری طور پر قاتلوں کی گرفتار ی کے احکامات دیئے ہیں۔ادھر  وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے مطالبہ کیا ہے کہ شیخ رشید کو مولانا عادل قتل کیس میں شامل تفتیش کیا جائے۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ شیخ رشید کے بیان کے بعد مولانا عادل پر حملہ ہوا۔ معلوم کیا جائے کہ ان کے پاس کون سے ذرائع سے معلومات آتی ہیں۔

تجزیہ کاروں کاکہنا ہے کہ کافی عرصے سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ملک دشمن عناصر پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش کر رہے ہیں۔اس ضمن میں وزیراعظم عمران خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ بھارت پاکستان میں علما کو نشانہ بنا کر افرا تفری پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت کے پا س یہ  تمام معلومات موجود تھیں تو اس نے علما کرام کی سکیورٹی کے حوالے سے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہیں کیے؟ مولانا عادل کو جب دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تو ان کے ساتھ ایک بھی محافظ موجود نہیں تھا۔

حکومت کی اس  لاپروائی کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا ہے جس کے مستقبل میں خوفناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے اس واقعہ کے بعد وہی روایتی اقدامات سامنے آئے اور شہر میں ڈبل سواری پر پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا، بعد ازاں مختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد اس نوٹی فکیشن کو واپس لے لیا گیا۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ملزمان کا پیچھا کرے اور نہ صرف ملزمان کو گرفتار کرے بلکہ واقعہ کے اصل محرکات کو بھی سامنے لائے۔

ادھر حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ علما کرام کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرے۔ اگر کوئی دشمن ملک پاکستان میں فسادات کی سازش کر رہا ہے تو اس کو ناکام بنانا ہمارے اداروں کی ذمہ داری ہے صرف دشمنوں کی نشاندہی کرکے حکومت اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی ہے۔

سندھ کابینہ نے صدر مملکت کی جانب سے جاری کردہ پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔ صوبائی کابینہ کا کہنا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے عوام کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ جزائرکی زمین قانونی و آئینی اعتبار سے وفاقی حکومت کی ملکیت نہیں، یہ آئی لینڈز سندھ کی ملکیت تھے، ہیں اور رہیں گے، ان کا استعمال آئین و قانون کے مطابق ہوگا۔ان جزائر سے مقامی لوگوں کی بے دخلی کو کسی صورت میں قبول نہیں کریںگے۔

چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس آرڈی ننس کے اجرا پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ جزائر کے معاملے پر سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی ہم آواز ہیں اور ان کی جانب سے بھی صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاج دیکھنے میں آرہا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو سیاست کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔ اگر وفاقی حکومت ان جزائر کی ترقی کے حوالے سے کوئی کام کرنا چاہتی تھی تو صوبائی حکومت کو اس حوالے سے اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔

اس طرح کے معاملات جب سیاسی رنگ اختیار کر جاتے ہیں تو ان پر کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اس کی ایک مثال کالا باغ ڈیم بھی ہے۔ اس آرڈی ننس پر صوبائی حکومت کے تحفظات سامنے آنے کے بعد وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے اور اگر وہ واقعی ان جزائر کی ترقی کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو ان تحفظات کو دور کرتے ہوئے نوٹی فکیشن کو واپس لے اور ایک قابل عمل منصوبہ پیش کرے ۔

حکومت سندھ کی جانب سے مہنگائی کی روک تھام کے حوالے سے کارروائیاں روکے جانے کے باعث کراچی میں مہنگائی کورونا سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے  پھل سبزی، مرغی، گوشت دودھ اجناس من مانے داموں پر فروخت ہو رہی ہیں جبکہ آٹے اور چینی کا بحران بھی سر اٹھا رہا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانا اور عوام کو مقررہ سرکار ی نرخ پر اشیا ضرورت کی فراہمی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

کمشنر کراچی کنٹرولر جنرل آف پرائسز ہیں جو سندھ حکومت کے محکمہ بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسز کی مشاورت سے تازہ دودھ، بکرے، بچھیا، مرغی کا گوشت، کریانہ آئٹمز کی ماہانہ قیمت، سبزی اور پھلوں کی یومیہ قیمتوں پر مشتمل سرکاری نرخ نامہ جاری کرنے اور اس نرخ نامے میں درج قیمتوں پر اشیا کی دستیابی یقینی بنانے کے ذمہ دار ہیں لیکن گزشتہ دو سال سے جہاں کراچی میں صفائی ستھرائی، پانی بجلی کی فراہمی پر وفاق اور صوبہ سندھ کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے اسی طرح مہنگائی کے مسئلے کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ اور ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں سندھ میں آٹے اور چینی کے بحران کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فوڈ سپلائی اور اجناس کی ڈسٹریبیوشن صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی کے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔

پہلے کورونا وبا کے دوران ہونے والے لاک ڈاؤن نے مشکلات پیدا کیں،اس کے بعد بارشوں سے ہونے والی تباہی نے رہی سہی کسر نکال دی اور اب ہوشربا مہنگائی نے ان کا سانس لینا بھی محال کردیا ہے۔جس شہر میں آٹا 75سے 80روپے فی کلو مل رہا ہو وہاں غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاکھ ترقی کا دعویٰ کریں، سیکڑوں ارب کے ترقیاتی پیکجز کا اعلان کریں لیکن ان سے عوام کا پیٹ بھرنے والا نہیں ہے ۔خاص طور پر سندھ حکومت مہنگائی کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور تمام متعلقہ اداروں کو متحرک کرے کہ وہ اپنے فرائض کی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دہی کریں تاکہ عوام کو کچھ تو ریلیف ملے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے تحت 18 اکتوبر کو باغ جناح میں عوامی جلسہ کے لئے عوامی رابطہ مہم کی حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔اپوزیشن جماعتوں کے اس جلسے سے مرکزی قائدین کا خطاب متوقع ہے۔اس ضمن میں پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما سیدہ نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کا قیام عوام کی جانب سے ظالم حکمرانوں کے خلاف طبل جنگ ہے۔ پی ڈی ایم کی 11 جماعتوں کے سربراہان کراچی جلسہ سے خطاب کریں گے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا یہ جلسہ ان کی تحریک کے مستقل کا تعین کرے گا۔اگر پی ڈی ایم کامیاب شو کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس سے حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا تاہم دیکھنا یہ ہے کہ خود اپوزیشن کی تمام جماعتیں کب تک اتحاد کا مظاہرہ کرتی ہیں کیونکہ یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ کچھ جماعتیں اس احتجاجی تحریک کو اپنے قائدین کے مقدمات میں ریلیف کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اگر ان کو کچھ رعایت مل جاتی ہے تو وہ اس احتجاجی تحریک سے پیچھے بھی ہٹ سکتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔