حکومت اور تحریک انصاف کی اندرونی ناراضگیاں دور کرنے کی ضرورت

رضوان آصف  بدھ 23 دسمبر 2020
تحریک انصاف کی تنظیم ہمیشہ سے اختلافات اور دھڑے بندی کا شکار رہی ہے اوراس نے اپنی حکومت کو کمزور کیا ہے۔ فوٹو: فائل

تحریک انصاف کی تنظیم ہمیشہ سے اختلافات اور دھڑے بندی کا شکار رہی ہے اوراس نے اپنی حکومت کو کمزور کیا ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور: مینار پاکستان جلسہ کے بعد اپوزیشن کی تحریک میں آنے والی سست روی حکومت کیلئے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی حکومتی اور تنظیمی کمزوریوں کو دور کر کے اپوزیشن کے ساتھ مقابلہ کے نئے ’’راونڈ‘‘ کیلئے خود کو تیار کرے۔

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جاری سیاسی معرکہ کا مرکز پنجاب ہے اور وزیر اعظم عمران خان کو سب سے زیادہ مسائل بھی پنجاب حکومت اور تحریک انصاف پنجاب کے حوالے سے ہی درپیش ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک خود وزیرا عظم کو بھی ہے کہ پنجاب میں سب اچھا نہیں ہے،باخبر حلقوں کے دعوے کے مطابق تحریک انصاف کے اندر ایک مضبوط ’’پریشر گروپ‘‘ تشکیل پا چکا ہے جس میں اراکین قومی و پنجا ب اسمبلی کی موثر تعداد شامل ہے جبکہ بعض با خبر حلقے یہ دعوی کر رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے سینیٹ الیکشن میں’’شو آف ہینڈ‘‘کا طریقہ استعمال کرنے کی کوشش کے پس منظر میں حکومتی خوف و پریشانی کا سبب اپوزیشن نہیں بلکہ چند اپنوں کی ممکنہ بغاوت ہے۔

دوسری جانب حکومت کے بعض وزیر اور مشیراپنے ذاتی عناد کی وجہ سے وزیر اعظم کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جہانگیر ترین سینیٹ الیکشن میں حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں تاہم ابھی تک وزیرا عظم اپنے وزیروں اور مشیروں کے اس ’’جال‘‘ میں نہیں پھنسے۔ کیونکہ آج بھی ان کا مضبوط یقین ہے کہ جہانگیر ترین ان کی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا اور ان کے اس یقین کی بنیاد یہ ہے کہ گزشتہ نو یا دس ماہ کے دوران وزیر اعظم کے قریبی حلقے میں شامل چند افراد نے جس طرح سے جہانگیر ترین کی مخالفت کی اور ان کا میڈیا ٹرائل کروایا اس کے باوجود جہانگیر ترین نے اپنے قائد اور دوست عمران خان اور اس کی حکومت کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا۔

یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ریاست کے طاقتور حلقوں کو موجودہ حکومت سے شکایات ہیں لیکن وہ کسی بھی صورت میں کرپشن کیسز میں ملوث سیاسی قائدین کو دوبارہ اقتدار کا موقع نہیں دینا چاہتے ۔تحریک انصاف کی تنظیم ہمیشہ سے اختلافات اور دھڑے بندی کا شکار رہی ہے اوراس نے اپنی حکومت کو کمزور کیا ہے۔ 2011 ء سے لیکر2018 ء تک جن رہنماوں نے عمران خان کو وزیر اعظم کے منصب تک پہنچانے کے لئے دن رات محنت کی ان کی بڑی تعداد آج اپنی حکومت کے ہوتے ہوئے بھی محروم اور نظر انداز ہے یا پھر انہیں کسی غیر اہم اور غیر فعال قسم کا عہدہ دیکر ٹرخا دیا گیا ہے جبکہ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونے والے پُرکشش حکومتی عہدے ہائی جیک کر چکے ہیں اور اس وقت دیہاڑیاں بھی لگا رہے ہیں ۔

وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں درست معلومات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں اور بعض افراد بڑی ہوشیاری سے اپنا داو لگانے کی کوشش کرتے ہیں اگر کامیاب ہو گئے تو ٹھیک ورنہ اپنے کئے کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال کر انہیں قربان کروا دیا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال لاہور سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے ملک اسد کھوکھر کا معاملہ ہے جنہیں ایک ناکردہ گناہ کے الزام میں ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ملک اسد کھوکھر پر الزام عائد کیا گیا کہ رنگ روڈ پراجیکٹ کے حوالے سے ذاتی عزائم کی تکمیل کیلئے انہوں نے آصف بلال لودھی کو کمشنر لاہور لگوایا تھا لیکن کئی ایجنسیوں کی تحقیقات کے بعد یہ الزام غلط ثابت ہو چکا ہے۔

اصل واقعہ یہ ہے کہ کمشنر لاہور کے عہدے پر تعیناتی کیلئے موجودہ کمشنر لاہور ذوالفقار گھمن کئی ماہ قبل بھی امیدوار تھے اور ان کیلئے طاقتور سفارش بھی موجود تھی۔ پنجاب حکومت نے کمشنر لاہور کے عہدے پر تعیناتی کیلئے جو نام ایوان وزیر اعظم کو بھیجے ان میں آصف بلال لودھی کا نام شامل نہیں تھا لیکن ایوان وزیر اعظم کے ایک اہم بیوروکریٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب کو فون کر کے کہا کہ آصف بلال لودھی کو کمشنر لاہور تعینات کیا جائے۔ چیف سیکرٹری نے سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب کو کہا کہ وہ وزیر اعلی سردار عثمان بزدار سے اس بارے خود دریافت کر لیں۔

ڈاکٹر شعیب نے وزیر اعلی سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایوان وزیر اعظم جو کہتا ہے وہ کر لیں جس پر سیکرٹری سروسز نے چیف سیکرٹری کو وزیر اعلی سے گفتگو کے بارے میں بتایا اور چیف سیکرٹری کی ہدایت پر ہی آصف بلال لودھی کو کمشنر لاہور تعینات کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا ،اس میں ملک اسد کھوکھر کا کردار صرف اتنا ہے کہ جب چیف سیکرٹری نے سیکرٹری سروسز کو نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا کہا تب ملک اسد کھوکھر سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب کے دفتر میں موجود تھے اور انہوں نے پوسٹنگ کا معلوم ہونے پر فون کر کے آصف بلال لودھی کو کمشنر تعیناتی پر مبارکباد دی تھی۔

اس تعیناتی کے بعد ایک مخصوص لابی نے وزیرا عظم کو اس بارے میں بتایا تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ اسی ناراضگی کے سبب انہوں نے اپنے طے شدہ دورہ لاہور کی تاریخ سے چند روز قبل لاہور کا ہنگامی دورہ کیا اور جب انہوں نے وزیر اعلی سے اس تعیناتی بارے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس بارے کوئی سمری نہیں بھیجی گئی۔ قصہ مختصر، کہ ایوان وزیر اعظم کے بیوروکریٹس اور وزیر اعلی نے تمام ملبہ سیکرٹری سروسز پر ڈال دیا اور وزیر اعظم کے حکم پر سیکرٹری سروسز ڈاکٹر شعیب اور کمشنر لاہور کو صوبہ بدر کردیا گیا ،اس موقع پر بعض مخالفین نے اس معاملہ میں وزیر اعظم کے سامنے ملک اسد کھوکھر کا نام بھی لیا جس کی خبر ملنے پر ملک اسد کھوکھر نے شفاف تحقیقات کیلئے استعفی دے دیا۔

وزیر اعظم کی جانب سے تمام ایجنسیوں سے تحقیقا ت میں ملک اسد کھوکھر کلیئر ہو چکے ہیں لیکن اس واقعہ نے اسد کھوکھر اور وزیر اعلی کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ لاہور کی سیاست میں ملک اسد کوکھر کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ ان کا ووٹ بنک چار قومی حلقوں این اے131 ، این اے133 ، این اے134 اور این اے 136 میں پھیلا ہوا ہے ۔ اسی طرح لاہور کی سیاست کا ایک معروف نام اعجاز ڈیال ہے جسے خود وزیرا عظم عمران خان بہت پسند کرتے ہیں لیکن تحریک انصاف کی اندرونی کشمکش کی وجہ سے انہیں حکومت کے کسی منصوبے یا محکمے میں شامل نہیں ہو نے دیا گیا۔

اعجاز ڈیال پارٹی رہنماوں کے ساتھ اپنے تحفظات کے باوجود اپنے حلقے میں متحرک ہیں اور عوامی مسائل حل کرا رہے ہیں۔ سازشی لابی کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ ڈھائی برس کے دوران سردار عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان خلیج ختم نہیں ہونے دی اور عام تاثر یہ ہے کہ اس کی زیادہ ذمہ داری سردار عثمان بزدار پر عائد ہوتی ہے۔

عبدالعلیم خان الیکشن جیتنے کے بعد وزارت اعلی کے اُمیدوار کے طور پر سنجیدہ و متحرک تھے لیکن جب عمران خان نے سردار صاحب کو منتخب کر لیا تو علیم خان نے اس دوڑ سے خود کو الگ کر لیا۔ سازشی عناصر یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ اگر علیم خان کو پنجاب حکومت میں زیادہ اہمیت دی گئی تو عثمان بزدار کمزو ر ہوجائیں گے۔

یہ سازشی تھیوری قابل عمل نہیں کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ جب تک عمران خان وزیر اعظم ہے تب تک عثمان بزدار وزیر اعلی پنجاب ہے لہذا وزیر اعلی کو بھی اپنی مضبوطی پر یقین کرتے ہوئے وزیر اعظم کی ثالثی پر بھی بھروسہ کرنا چاہے جس کے تحت عمران خان نے علیم خان اور عثمان بزدار کو اپنے سامنے بٹھا کر دونوں کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کے ساتھ آگے چلنے کی ہدایت کی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔