منہ دکھائی میں دلہن کو کچھ نہیں دیا، امیر مقام

فدا محمد عدیل  جمعرات 2 جنوری 2014
وزیراعظم کے مشیر اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر انجینیئر امیر مقام کی کتاب زیست کے چند اوراق۔  فوٹو : فائل

وزیراعظم کے مشیر اور مسلم لیگ(ن) کے مرکزی سینئر نائب صدر انجینیئر امیر مقام کی کتاب زیست کے چند اوراق۔ فوٹو : فائل

مخالفین کو پتہ چل سکا اور نہ ان کے دوست جانتے ہیں کہ انجینئر امیرمقام نے وہ گیدڑ سنگھی کہاں چھپا رکھی ہے جس کے ذریعے وہ آگے ہی آگے بڑھ رہے ہیں اور پیچھے مڑکر کر دیکھنے کی فرصت ہی نہیں پارہے؟

امیر مقام خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے وہ متحرک سیاست دان ہیں جن کو شدید آندھی، طوفان، بارش، سیلاب، حتیٰ کہ خودکش حملے بھی عوام سے دور نہ کرسکے۔کہتے ہیں سیاست دان کے لیے عوام سے رشتہ توڑنا گناہ ہے۔ امیر مقام پر ہونے والے پانچ خطرناک قاتلانہ حملوں کی شدت دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ مخالفین کو مشکلات میں ڈال کر خود خطرات میں گھرا ایک شخص کیسے دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پس منظر میں جانے کا نام نہیں لے رہا؟ ایک وقت تھا جب ملاکنڈ کے منتخب ارکان اسمبلی اپنے حلقوں میں نہیں جاسکتے تھے، یہ ہی ایک جنونی تھا جو جان ہتھیلی پر رکھ کر نہ صرف لوگوں کی غمی خوشی میں شریک ہوتا رہا بل کہ کڑے وقتوں میں بڑے بڑے جلسے بھی اکھٹے کرلیتا تھا۔ مخالفین امیرمقام سے شدید ترین نفرت کرتے ہیں مگر یہ عجیب بات ہے کہ یہی مخالفین امیرمقام کی صلاحیتوں کے معترف بھی ہیں، عوام سے قریبی رشتہ رکھنے اور جواب میں عوام کی بے پناہ محبت حاصل کرنے کی ان کی صلاحیت ہی مخالفین کی نفرت کی بنیادی وجہ ہے۔ امیرمقام کا سیاسی سفر انتہائی مختصر ہے مگر ان کا موجودہ مقام دیکھ کر لگتا ہے کہ اس شخص نے کئی دہائیاں لگا کر موجودہ مقام حاصل کیا ہوگا۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ ان کے اپنے جسمانی قد سے بھی خاصا دراز ہے، ’’لمبے ہاتھوں‘‘ کے مالک امیرمقام کا دل بڑا اور ہاتھ کھلا بھی ہے۔

وہ درست مقام پر توانائیاں صرف کرنے کا ہنر جانتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا کون سا کارکن دودھ پینے والا مجنوں ہے اور کون کام کا ہے لیکن جب وہ ملتے ہیں تو چاپلوس کو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ امیرمقام اس کی اصل و نسل کی خبر رکھتا ہے۔ امیرمقام بلا کے صابر واقع ہوئے ہیں، لوہے کے گرم ہونے کا انتظار بڑے تحمل سے کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان سے مشاورت بھی کرتے ہیں، ان کا یہ گُر خاصا کارگر ثابت ہوا ہے، ایک بار مشورہ کرکے وہ اپنے کارکن کو اعتماد کے اُس آسمان پر پہنچادیتے ہیں، جہاں سے اس کو سوائے امیرمقام کے کوئی اور نظر ہی نہیں آتا۔ خود فون ریسیو کرنے والے سیاست دان ہیں، ہر کارکن سے مسکرا کر ملتے ہیں، ہر ایک کو نام سے جانتے ہیں، ان کے دکھ سکھ سے واقفیت رکھتے ہیں اور اس میں شریک ہوتے ہیں۔

انجینئر امیرمقام 25 جولائی 1966 کو شانگلہ میں پیدا ہوئے، دس بھائیوں اور پانچ بہنوں میں ان کا نمبر دوسرا ہے، تین بھائی ڈاکٹر ہیں، ایک فوج میں میجر ہیں، ایک بھائی گل بوستان، یونین ناظم رہے، چھوٹے بھائی ڈاکٹر عباد اﷲ ڈسٹرکٹ ناظم شانگلہ رہے، آج کل رکن قومی اسمبلی ہیں۔ امیر مقام کے والد گاؤں کی سیاست میں حصہ لیتے رہے، لوگوں کے تنازعات حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ امیر مقام نے ابتدائی تعلیم شانگلہ میں حاصل کی، قلم دوات اور تختی انہیں آج بھی یاد ہے، وہ بڑے رومال میں کتابیں باندھ کر اسکول جاتے تھے، پرائمری اسکول ان کے گھر سے ڈیڑھ کلومیٹر دور تھا، چھٹی سے دسویں تک روزانہ پانچ کلومیٹر طے کرنا ان کا معمول رہا ہے۔ پورن ہائی اسکول شانگلہ سے میٹرک کیا، جہاںزیب کالج سوات میں گزرا زمانہ ان کوآج بھی یاد ہے۔

1989 میں انجینیئرنگ یونی ورسٹی پشاور سے انجینئرنگ کی۔ ان کے گاؤں میں گراؤنڈ نہیں تھا، اس کے باوجود وہ مختلف کھیلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں، والی بال کے اچھے کھلاڑی تھے، بچپن میں اخروٹوں سے ’’بلورے‘‘ کھیلے۔ شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں البتہ موسیقی کے دلدادہ ہیں، لتا ، رفیع اور مکیش کے گیت شوق سے سنتے ہیں، پشتو میں خیال محمد اور گلنار بیگم کی آواز کے رسیا ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے۔ سیاست کی وجہ سے گھر کو وقت کم ہی دے پاتے ہیں، جس پر اہلِ خاندان خصوصاً بیوی بچے ان سے شاکی رہتے ہیں اور غالباً اسی باعث گھر کے افراد سے ان کا رویہ دوستانہ نہیں ہے، فاصلے اس قدر ہیں کہ بس اب چلتی کا نام گاڑی ہے۔ ان کو سردی کا موسم زیادہ پسند ہے۔ بچپن میں بہت لڑاکے اور ضدی تھے، وہ لڑائیاں اور شرارتیں ان کو آج بھی یاد ہیں۔ جوانی میں سینما جانا معمول تھا، زیادہ تر پشتو فلمیں دیکھیں، بدر منیر پسندیدہ ہیرو ہیں، ندیم کی اداکاری نے بھی ان کو متاثر کیا، دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے مداح بھی ہیں، تاہم کہتے ہیں 1985 کے بعد کوئی فلم نہیں دیکھی۔

امیر مقام کو پیدائشی عوامی خدمت گار کہا جا سکتا ہے، اپنے والد صاحب کی دیکھا دیکھی وہ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ بچپن میں والدین سے بہت مار کھائی اور ان سے زیادہ اساتذہ سے، ہاتھوں پر بید کی ضربیں آج بھی یاد کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہرگز ذہین طالب علم نہیں تھے البتہ محنت پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے زندگی کے ہر امتحان میں فرسٹ ڈویژن لی۔ محبت کے بارے میں ان کے خیالات رانجھا اور مجنوں سے مختلف نہیں، آپ بھی محبت کو زندگی سمجھتے ہیں۔ ابھی دوسری ہی جماعت میں تھے کہ منگنی ہو گئی اور ایف ایس سی میں تھے کہ شادی ہو گئی، شادی سے پہلے اہلیہ کو نہیں دیکھا تھا۔ منہ دکھائی میں امیر مقام جیسے امیر کبیر دولہا نے اپنی بیگم کو کوئی تحفہ نہیں دیا۔ کہتے ہیں کہ ’’گاؤں میں اس کا تصور ہی نہ تھا‘‘۔ بیگم کے ایثار سے بہت متاثر ہیں، حج اور عمرہ کے لیے دونوں ساتھ جاتے ہیں۔ بیگم خالص گھریلو خاتون ہیں۔

امیر مقام ذاتی استعمال کی چیزیں خود خریدتے ہیں، ان کے پوتے پوتیاں جب ان کے گرد جمع ہوتے ہیں تو بالوں کو رنگنے والے امیر مقام کو یقین ہی نہیں آتا کہ وہ دادا بن چکے ہیں۔ پوتے پوتیاں دادا کہ کر پکارتی ہیں تو ان کو عجیب لگتا ہے۔ جوانی میں کبوتر اور خرگوش کا خوب شکار کیا، اچھے نشانہ باز تھے اور اب بھی ہر قسم کا اسلحہ چلانا جانتے ہیں۔ ہدف کو زد پر لینا اقن سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ سیاحت ان کا شوق ہے، آسٹریلیاسب سے زیادہ پسند ہے، پاکستان میں شانگلہ، ملاکنڈ اور پشاور زیادہ پسند ہیں۔ کھانے میں مکئی کی روٹی، ساگ اور لسی پسند ہے، توری، کدو شوق سے کھاتے ہیں۔ زمانۂ طالب علمی سدے ہر قسم کی سبزی پکانا جانتے ہیں، ہاسٹل میں گھر سے دیسی گھی لا کر دوستوں کو چاول بنا کر کھلاتے اور خوش ہوتے تھے۔ امیرمقام یہ نہیں بتا سکتے کہ وہ فارغ اوقات میں کیا کرتے ہیں، کہتے ہیں ’’کبھی فارغ وقت ملے تو جاننے کی کوشش کروں گا‘‘۔

میاں شہباز شریف ہیں ان کے پسندیدہ سیاست دان ہیں۔ کہتے ہیں ’’سیاست میں جھوٹ کی کافی گنجائش ہوتی ہے‘‘۔ جیل کبھی نہیں گئے ہاں! وزٹ کے لیے متعدد بار جیل جانے کا موقع ملا، حلقے کے قیدیوں سے بھی ملتے رہتے ہیں۔ ملکی حالات سے قطعاً مطمئن نہیں ہیں۔ جھوٹ وہ چیز ہے جو ان کے غصے کا سبب بنتی ہے، غصے کا اظہار ماحول کے مطابق کرتے ہیں، جہاں بولنے کا موقع ملا غصے کا اظہار کیا مگر خاموشی سے بھی اپنے غصے کا بھرپور اظہار کرنے پر ملکہ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں کی جنبش اور چہرے کے تاثر سے بتا دیتے ہیں کہ وہ غصے میں ہیں، بے زار ہیں یا خوش ہیں؟ خود لطیفے نہیں سناتے دوسروں کے شوق سے سنتے ہیں اور دل کھول کر ہنستے بھی ہیں۔ ستاروں، علم نجوم اور ہاتھ کی لکیروں پر یقین نہیں رکھتے اور ایسا یقین رکھنے والوں کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔

امیر مقام کو اپنے اعمال سے بہت ڈر لگتا ہے، تنہا ہوتے ہیں تو ملک میں امن و امان کی صورت حال پر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ادب اور کتاب کے کلچر کو اچھا تو سمجھتے ہیں لیکن خود ان اچھے مشاغل سے خاصے دور ہیں۔ کرپشن اور غیر ذمہ دارانہ رویے کو قومی پس ماندگی کی اصل وجہ سمجھتے ہیں۔ امیر مقام کی اب تک کی زندگی کی ہر خواہش پوری ہوئی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اب صوبے کے عوام کی بھرپور خدمت کریں، یہ ان کی بڑی خواہش ہے کہ ان کو ایسا موقع ملے کہ ان کا صوبہ کسی کا بھی دست نگر نہ رہے اور یہاں کا ہر باسی خوش و خرم زندگی بسر کرے۔

بچپن میں کسی مخصوص شعبے کو جوائن کرنے کا کبھی نہیں سوچا تھا، بچپن سے ہی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے، ہاسٹل کے واحد سٹوڈنٹ تھے جن کے مہمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ساتھیوں کو تعلیمی بورڈ، یونی ورسٹی، اسپتال، تھانہ، کچہری کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو سب سے پہلے ان کو پکارا جاتا تھا۔ اب تک بیس سے زیادہ مرتبہ خون کا عطیہ دے چکے ہیں۔ اپنے وزن سے پریشان رہتے ہیں، جہاں جہاں ان کی رہائش گاہیں ہیں وہاں ورزش کی مشینیں لگارکھی ہیں مگر یہ مشینیں بھی اکثر امیر مقام کے دیدار کو ترستی ہی رہتی ہیں۔

غیر شعوری طور پرخارزار سیاست میں قدم رکھا۔ 2001 میں یونین کونسل بینگالئی، شانگلہ کی نظامت کے لیے کاغذات نام زدگی جمع کرائے، ان کی قسمت میں چوں کہ بھرپور قسم کی انٹری تھی اس لیے ان کے مقابل کوئی نہ آیا، اس کے بعد چل سو چل، پلٹ کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ رہی۔ 2002 میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کی ٹھانی تو چار جماعتوں کی غیر مشروط حمایت ملی۔

یہ پارٹی کی وابستگی سے بالاتر ہو کر الیکشن لڑنا چاہتے تھے مگر ان کے قریبی عزیز پیر محمد خان شہید نے ان کو جماعت اسلامی میں شمولیت پر مجبور کردیا۔ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تو، مگر جب ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پیر محمد خان کے ساتھ نارواسلوک شروع کیا تو اس پر شانگلہ کے عوام نے کافی توہین محسوس کی تو انہوں نے مشاورت کے بعد ق لیگ کا ساتھ دیا اور بہت جلد اپنی صلاحیتوں سے جنرل پرویز مشرف کو متاثر کیا، چوہدری شجاعت حسین نے ان کو مسلم لیگ (ق) کا صوبائی صدر بنا دیا، مشرف کو آج بھی اپنا اچھا دوست سمجھتے ہیں، کہتے ہیں ’’میں نے پرویز مشرف کو اور انہوں نے مجھے عزت دی، میں نے ہمیشہ ان کو مخلصانہ مشورے دیے، بھرپور دور گزارنے کے بعد میں نے ان کو سیاست میں آنے سے منع کیا تھا، میں، چٹھہ اور قصوری نے ان کو سمجھانے میں چار دن لگائے مگر مفاد پرستوں کے نرغے میں آئے پرویز مشرف کے سر پر سیاست میں حصہ لینے کا بھوت سوار تھا سو انہوں نے وہی کیا کہ جو ان کے مفاد پرست دوست چاہتے تھے، پرویز مشرف کو ان کے دوستوں نے بندگلی میں چھوڑ دیا‘‘۔

امیر مقام چوں کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے نہیں تھے، انہوں نے آگے بڑھنا تھا اور اپنے پیچھے آنے والے لشکروں کو ایک مقام تک پہنچانا تھا اس لیے انہوں نے یہاں بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور آگے ہی بڑھتے رہے مگر امیر مقام چوں کہ احسان فراموش نہیں ہیں اس لیے آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پرویز مشرف کی تحفے میں دی گئی پستول آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے۔ طویل مشاورت کے بعد انہوں نے انتہائی سوچ سمجھ کے ساتھ مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار کی۔ جاننے والے کہتے ہیں کہ ابتدائی ملاقاتوں میں نواز شریف نے امیر مقام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’آپ مجھے اس لیے پسند ہیں کہ ایک تو آپ نے پورے خلوص کے ساتھ پرویز مشرف کا ساتھ دیا، دوسرا میری خواہش ہے کہ آپ میرے قافلے کا حصہ بن جائیں کیوں کہ آپ مجھ سے بے وفائی کرنے والوں کی قطار میں کبھی کھڑے نہیں ہوئے‘‘۔

مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے خیبر پختون خوا میں امیرمقام جیسے متحرک آدمی کی سیاست دیکھی تو ان کو بھی خواہش ہوئی کہ امیرمقام مسلم لیگ(ن) کا حصہ بنیں، مسلم لیگ(ن) کے اجلاسوں میں کارکنوں کی جانب سے باقاعدہ یہ مطالبہ قائدین سے کیا جاتا تھا کہ امیرمقام کو کسی طریقے سے لایا جائے۔ اس دن شادمانی نواز شریف کے چہرے سے چھلک رہی تھی جس دن انجینیئر امیر مقام سینکڑوں ہیوی ویٹ ساتھیوں کے ساتھ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہوئے۔ امیر مقام کو محنت پر بھروسہ رکھتے ہیں اس لیے انہوں نے شانگلہ سے اپنی نشست پر چھوٹے بھائی ڈاکٹر عباد اللہ کو کھڑا کیا اور خود سوات سے ایک قومی اور دو صوبائی نشستوں پر قسمت آزمائی کی مگر انہیں کام یابی نہ مل سکی البتہ ان کے بھائی کام یاب رہے۔

امیر مقام کو ٹکٹوں کی تقسیم کے موقع پر کھل کر کھیلنے کا موقع نہ مل سکا اور ان کے تگڑے ساتھی ن لیگ کا ٹکٹ حاصل نہ کرسکے، سونامی کی لہروں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ(ن) کو ٹکٹوں کی تقسیم کا عنصر بھی خیبر پختون خوا میں مطلوبہ نتائج نہ دے سکا البتہ اتنا ہوا کہ امیر مقام گروپ کی شمولیت سے مسلم لیگ(ن) کو ان حلقوں پر بھی دو دو تین تین امیدوار میسر آگئے جہاں موجودہ برسراقتدار جماعت الیکشن، بالخصوص ضمنی الیکشن لڑنے کے لیے امیدواروں کے لیے ترستی رہی۔ اب کہتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوگا اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اسی پلیٹ فارم سے باقی ماندہ زندگی میں عوام کے لیے کچھ کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔