خبر، اداریہ اور متین صاحب

فاروق عادل  پير 29 مارچ 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

عمران خان نے ندیم بابر سے کہا کہ مستعفی ہو جاؤ اور وہ مستعفی ہو گئے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ ایسے واقعات تاریخ میں بہت ہو گزرے ،ہماری تاریخ میں کچھ زیادہ ہی۔ ندیم بابر کی صورت میں یہ واقعہ ایک بار پھر دہرایا جا چکا تو متین صاحب کی یاد کچھ زیادہ شدت کے ساتھ آئی۔وہ نیوز رپورٹنگ کی کلاس تھی جو نیوز لیب میں ہوا کرتی تھی۔ یہ شعبہ ابلاغ عامہ کے بزرگوں اور بانیوں کی ذہنی اپچ تھی کہ خبر نویسی نیز وقائع نگاری (رپورٹنگ) کو انھوں نے سائنس بنا دیا اور طبعی سائنس کی طرح خبر نگاری اور اس کے متعلقات کی تعلیم کے لیے لیبارٹری قائم کی۔ تو اس روز ہم نیوز لیب میں تھے اور وقائع نگاری یعنی رپورٹنگ کے داؤ پیچ سیکھ رہے تھے۔

یہ عین اس روز کا واقعہ ہے جس دن اخبارات میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ کے ایک رکن کی فراغت کی خبر شائع ہوئی۔ معزول وزیر کے بیٹے پر منشیات کی اسمگلنگ کا الزام تھا۔ متین صاحب نے اپنے لیکچر کا آغاز اسی واقعے سے کیا۔ طالب علم خواہ وہ کسی شعبے کا ہو، اس کے مزاج اور الہڑ پنے میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا، اخبار کے مطالعے اور حالات حاضرہ سے واقفیت کے باب میں سب ایک سے ہوتے ہیں لیکن متین صاحب کی کلاس میں آنے والے اس عیاشی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے،اخبار اس تیاری کے ساتھ پڑھنا پڑتا تھا غیر متوقع سوالات کا جواب بھی دینا پڑ سکتا ہے۔

متین صاحب نے وزیر کی معزولی یا استعفے کی خبر کا ذکر کیا اور سوال کیا کہ آپ لوگوں کے خیال میں یہ کتنی بڑی خبر ہے؟ جملہ حاضرین کا بالاتفاق خیال یہی تھا کہ بہت بڑی۔ دوسرے سوال کی نوعیت ذرا پیچیدہ تھی۔ کہنے لگے کہ ایک وزیر پر الزام لگا، اسے ہٹا دیا گیا، صحافی تک یہ خبر پہنچی یا صحافی اس خبر تک پہنچا، خبر شائع ہوگئی، یہ بتائیے کہ کیا یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا؟ اب رائے عامہ منقسم ہو گئی۔ بیشتر لوگوں کا خیال تھا ختم ہو گیا اور کچھ سمجھتے تھے کہ نہیں۔ متین صاحب کی کلاس میں ایسے مواقعے پر ہاں یا ناں، دونوں صورتوں میں مشکل تھی، بتانا پڑتا تھا کہ ہمارے جواب کی منطقی بنیاد کیا ہے۔

یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے نوجوانوں کے کان میں منطق و استدلال جیسے الفاظ پڑ جاتے ہیں، یہ بلائیں دراصل ہیں کیا اور زندگی میں ان کی اہمیت اور استعمال کیا ہے، یہ ہمیں متین صاحب نے سکھایا۔ معمول کے ایک واقعے میں، صحافی عام طور پر جس سے یوں ہی روا روی میں گزر جاتے ہیں اور پھر ایسے واقعات یادداشت کی پٹڑی سے یوں اترتے ہیں، گویا کبھی منصہ شہود پر ہی نہیں آئے لیکن متین صاحب نے اس روز ایک ایسی بات بتائی جس کی ضرورت آج کی صحافت کو ماضی سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔

’ صحافت کا عمومی مزاج تو یہ ہے‘ ، متین صاحب نے کہا کہ خبر یا پریس ریلیز آئی، صحافی نے چند سطریں گھسیٹیں اور اپنے زعم میں اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہو گیا لیکن یہ صحافت نہیں، عزیزان من! وہ مسکراتے ہوئے کہا کرتے، اس روز انھوں نے بتایا کہ رپورٹر کا اصل کام تو اس واقعے کے بعد شروع ہوتا ہے،یعنی یہ کہ اگر کسی فرد کو کسی خاص الزام پر فارغ کیا گیا ہے تو عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں اور یہ بتانا صحافی کی ذمے داری ہے کہ نکالے جانے کے بعد جزا و سزا کے ضمن میں کیا ہوا؟ معاملہ اگر رفت گزشت ہو گیا تو رپورٹر کے کان ایک بار پھر کھڑے ہونے چاہئیں اور اسے یہ جاننا چاہیے کہ اس میں کوئی ملی بھگت تو نہیں؟ کچھ عرصہ ہوتا ہے ہمارے ہاں جب سے تحقیقی صحافت کے نام پرکچھ شروع ہواہے۔

ہمارے بعض رپورٹر ایسی خبروں کو دانتوں سے پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور بال کی کھال اتارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرز عمل کے نتیجے میں گند تو پھیلتا ہے اور پگڑیاں بھی اچھلتی ہیں، حاصل وصول کچھ نہیں ہوتا۔ متین صاحب نے سکھایا کہ رپورٹر کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ وہ پتہ چلائے کہ جس الزام کی بازگشت چہار سو ہے، اس میں کوئی حقیقت بھی ہے کہ نہیں؟ کہیں متاثرہ شخص کسی سازش کا شکار تو نہیں ہو گیا؟

ایک بار عجب واقعہ ہوا، نئے سال کے داخلوں کے موقعے پر طلبہ کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کا معاملہ تھا یا آخری سال کے سینئرز کا الوداعیہ، کسی نے کہہ دیا کہ تقریب کا مزہ تو تب ہو،اگر یہ ہوٹل میں ہو۔ متین صاحب ایسے مواقعے پر خاموشی کے ساتھ بات سنتے رہتے اور ہلکی ہلکی مسکراہٹ ان کے چہرے پر کھیلتی رہتی، سب لوگ اپنی اپنی کہہ چکتے تو وہ بات شروع کرتے اور لگتا کہ اب وہ کوئی ایسی بات کہنے جارہے ہیں، زیر بحث معاملے سے جس کا کوئی تعلق نہیں۔ متین صاحب نے پوچھا کہ کوئی بتا سکتا ہے کہ لفظ یونیورسٹی کا مطلب کیا ہے؟ بات تعلیم و تعلم اور اس سے بڑھ کر اعلیٰ تعلیم تک پہنچی تو متین صاحب نے انکار میں گردن ہلائی اور کہا کہ یہ لفظ یونیورس سے نکلا ہے اور یونیورسٹی کی سطح کے تعلیمی ادارے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی محض تعلیمی ادارے نہیں ہوتے لفظ یونیورس کے عین مطابق ایک چھوٹی سی کائنات ہوتی ہے جہاں علم و ہنر اور تہذیب و معاشرت پرورش پاتی ہے۔ زمانے کے گرم و سرد کی وجہ سے معاشرتی روایات اور تہذیب کمزور ہو جاتی ہے یا بگڑ جاتی ہے تو یہی یونیورسٹیاں معاشرے کو اعتدال پر لاتی ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ تہذیب کا سفر یونیورسٹی سے معاشرے کی طرف ہوتا ہے نا کہ معاشرے سے یونیورسٹی کی طرف۔ اسی لیے یونیورسٹیاں شہروں کے اندر نہیں، ان سے دور بنائی جاتی ہیں تاکہ علائق دنیوی سے محفوظ رہ کر پرورش لوح و قلم کر سکیں۔ تو میرے بچو، ہوٹلوں کو تہذیب ہم نے سکھانی ہے، اُن کی تہذیب یہاں نہیں لانی۔ اس لیے ہمارے وسائل جیسے کیسے بھی ہیں، عمارات اچھی ہیں یا بری، یہ در و دیوار جیسے بھی ہیں، پروگرام یہیں ہوگا، ہوٹل میں نہیں۔

اداریہ کیا ہے؟ اردو صحافت ہی نہیں بلکہ صحافت کی عالمی روایت میں اس کے کئی اسکول ہیں لیکن صحافت کے دل و دماغ کی حیثیت رکھنے والی اس صنف کے بارے میں ان کی رائے منفرد تھی۔ ان کی رائے میں اداریہ ایک ایسی امانت تھی جو خاص اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اداریہ نویس کے سپرد کر رکھی ہے۔ اس سلسلے میں وہ ایک حدیث سنایا کرتے تھے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آپ سے اگر کوئی مشورہ مانگے تو اپنی صلاحیت کے مطابق پوری دیانت داری کے ساتھ ہمیشہ بہترین مشورہ دینا چاہیے، اگر کوئی اس کے منافی طرز عمل اختیار کرتا ہے تو وہ دراصل بد دیانتی اور خیانت کا مرتکب ہوتا ہے۔ اُن کے نزدیک اداریہ نویس ایک امانت دار ہوتا ہے۔

انھوں نے اخبارات اور ہفت روزوں میں کئی دہائیوں تک اداریہ لکھا۔ اداریے کی موجودہ روایت بڑی مختلف ہے،اداریہ نویس کسی بیان یا واقعے کو منتخب کر کے چند مختصر جملوں میں اس کا تجزیہ کر تا ہے یا ایک رائے پیش کر دیتا ہے، بعض اوقات یہ تجزیہ اور رائے بھی نہیں ہوتی، الفاظ کی بازی گری ہوتی ہے جس سے کچھ پلے نہیں پڑتا۔ شاید یہی وجہ ہے اِس دور میں اداریہ اور ادارتی صفحہ سب سے کم پڑھے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس متین صاحب کے اداریے ایک فکری دستاویز کی حیثیت رکھتے تھے جن میں زیر بحث معاملے کے فکری، نظریاتی اور تاریخی پس منظر سے آگاہی کے علاوہ متعلق عہد کی اونچ نیچ بھی واضح ہو جاتی۔

یہی وجہ تھی کہ متین صاحب کا اداریہ خبروں سے بھی زیادہ پڑھا جاتا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے اداریے ہماری قومی زندگی کے ایک ایسے روزنامچے کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی مدد سے گزشتہ نصف صدی کی تاریخ بالکل مختلف بلکہ درست طور پر مرتب کی جاسکتی ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کی موجودہ صدر نشین ڈاکٹر فوزیہ نازبڑی زیرک محقق اور دانشور ہیں۔ اگر وہ ان کے اداریے مرتب کروا کے شائع کرادیں اور ان پر تحقیق کرا دیں تو یہ بڑی خدمت ہوگی۔ شعبہ ابلاغ عامہ تو ان کے شاگردوں پر مشتمل ہے جو بن پڑا وہ ضرور کریں گے لیکن اس سلسلے میں کچھ ذمے داری حکومت پر بھی عاید ہوتی ہے ۔اداریے کے علاوہ تعلیم وتحقیق کے شعبوں میں بھی متین صاحب کی خدمات اتنی شاندار ہیں کہ انھیں ان کے شایان شان سول ایوارڈ ملناچاہیے جس سے ایوارڈ ہی کی عزت میں اضافہ ہوگا۔

گزشتہ سال بھر کے عرصے میں کچھ کورونا کی جان لیوا وبا کے باعث اور کچھ فطرت کے تقاضوں کے تحت ہمارے بہت سے پیارے ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں، گزشتہ دنوں متین صاحب کے بعد ہمارا بہت ہی پیارا دوست سہیل عبد الناصر بھی اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔ سہیل ایک سنجیدہ، محنتی اور ذہین صحافی تھا جس نے بین الاقوامی تعلقات اور دفاعی صحافت میں اپنی ذہانت اور ریاضت سے نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ وہ اپنی بے مثال پیشہ وارانہ جدوجہد، اخلاص اور محبت بھرے اخلاق کی وجہ سے دوستوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ سہیل کی صحافتی خدمات غیر معمولی ہیں، اچھی حکومتیں جانے والوں کو قومی اعزازات عطا کر کے اچھی روایات کو پروان چڑھاتی ہیں، سہیل عبد الناصر ایسے ہر معیار پر پورا اترتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔