امید بہار رکھنا

حرا احمد  جمعرات 18 جنوری 2024
محنت سے جی نہ چرائیے، ثابت قدم رہیے۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ (فوٹو: فائل)

محنت سے جی نہ چرائیے، ثابت قدم رہیے۔ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ (فوٹو: فائل)

آج کل دنیا کا کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو پریشان نظر نہیں آتا۔ کوئی معاشی حالات کی وجہ سے غمزدہ ہے تو کوئی بیماری کی وجہ سے، کوئی اچھے رشتے نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہے تو کوئی تعلیم کی وجہ سے۔ انسان امید اور ناامیدی کے درمیان لٹکتا رہتا ہے۔

سب سے بڑھ کر ہماری منفی سوچ ہم پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے، جس کی وجہ سے ہم زندگی سے ناامید ہو بیٹھے ہیں۔ الغرض پوری زندگی کا نظام درہم برہم نظر آتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امید کا دیا بجھ جاتا ہے اور ناامیدی آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے۔ ایسے میں امید ہی زندگی ہے۔ یہ امید کہ ہم ایک بار پھر صحت مند ہوں گے۔ یہ امید کہ کارخانوں، فیکٹریوں اور بازاروں کی رونقیں ایک بار پھر بحال ہوں گی۔ ہمارے اسکول اور تعلیمی ادارے ایک بار پھر تعلیم کی روشنی سے آباد ہوں گے۔ یہ امید کہ زندگی کا پہیہ ایک بار پھر گھومے گا۔ یہ امید کہ مایوسیوں کے بادل بہت جلد چھٹ جائیں گے۔ یہ امید کہ بے چین انسانیت کو ایک بار پھر قرار آئے گا۔ یہ امید کہ ہم زندگی کو ایک بار پھر پھلتا پھولتا اور خوشیوں سے ہرا بھرا دیکھیں گے۔

اللہ کے در سے امید ہی انسان کو مایوسی کے اندھیروں میں سے نکال کر اجالے میں داخل کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ناامید ہونے والا انسان مرنے سے پہلے ہی اپنی زندگی ختم کرلیتا ہے۔ زندگی میں اگر امید کا دامن چھوڑ دیا جائے تو جینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ اس لیے دوسروں سے امید لگانے کے بجائے ہمیشہ اس پاک ذات سے امید لگانی چاہئے جو انسان کی امید کو یقین میں بدلنے پر قادر ہے۔ جو انسان اللہ سے اچھی امید رکھتا ہے وہ اپنے اچھے مقصد میں کامیاب بھی ہوتا ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ تم مجھ سے جیسا گمان کرو گے مجھے ویسا ہی پاؤ گے۔
تکلیفیں، آزمائشیں، مشکلات، پریشانیاں یہ سب زندگی کا حصہ ہیں۔ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا کیونکہ مایوسی کفر ہے۔

اللہ پاک کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ’’بلاشبہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ (القرآن، سورہ الم نشرح، آیت نمر 5-6)

جس طرح ہماری زمین سورج کے گرد کھومتی ہے، اسی طرح زمین میں رہنے والے بھی گردش کرتے رہتے ہیں۔ حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے، بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی بھی ناامیدی کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں۔ صرف حال پر نظر رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کو نہ جانچیں۔ ہمیشہ بہتری کی امید رکھیے۔ اپنے حال سے خوش رہیے۔ کیونکہ جو اپنے حال سے خوش رہتا ہے اللہ اس کا مستقبل بھی خوبصورت بنادیتا ہے۔ ایک بنجر زمین بھی اللہ کے حکم سے زرخیز ہوجاتی ہے۔ وہ صحرا میں بھی نخلستان اگا سکتا ہے۔ اس لیے امید اور یقین کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ہر اندھیری رات کے بعد اجالا ضرور ہوتا ہے۔ تو کیا بات ہے کہ ہمارے اوپر ناامیدی اس حد تک غالب آجاتی ہے کہ ہم مستقبل کے اندیشوں میں گھر کر اپنے حال کو بھی بھول جاتے ہیں۔ جو اپنے حال میں خوش نہیں رہتا وہ کبھی بھی اپنے مستقبل کو کامیاب نہیں بنا سکتا، کیونکہ جو پل آپ جی رہے ہیں انھیں آنے والے کل کی فکر میں گنوانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ آپ مستقبل کی فکر میں کھوئے ہوئے لمحوں کو دوبارہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اس لیے اپنی آج کی زندگی کو خوبصورت بنائیے۔

ہمیں چاہیے کہ محنت سے کبھی جی نہ چرائیں، ثابت قدم رہیں۔ اپنی قوت ارادی کو بیدار رکھیں، کیونکہ اپنی قوت ارادی کو ہمیشہ برقرار اور بیدار رکھنے والے لوگ ہی ناممکن کو ممکن کر دکھانے والے ہوتے ہیں۔ قوت ارادی ایک غیر معمولی طور فعال اور موثر قوت ہے، اس کے سہارے ہم جو چاہیں، جب چاہیں اور جتنا چاہیں، حاصل کرسکتے ہیں۔ مشکلات سے چھٹکارا پانے اور مشکل سے مشکل کام کو کر گزرنے میں یہ طاقت اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ ناامید کبھی نہ ہوں۔ بھرپور محنت کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیجئے، کیونکہ نتیجہ دینے والی ذات اللہ کی ہے۔

اگر آپ کسی پریشانی یا مشکل میں مبتلا ہیں تو توکل، صبر اور دعا سے کام لیجئے۔ صبر اور دعا دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی ناامیدی کے اثرات کو زائل کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات کو مستقبل کا ضامن بالکل نہ سمجھیے۔ کیونکہ تاریکی ہمیشہ روشنی میں بدل جاتی ہے۔ اس لیے وقتی پریشانی سے نہ گھبرائیے۔ جس نے زندگی جیسی نعمت عطا کی ہے، وہ زندگی میں راستے بھی بنا دیتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

حرا احمد

حرا احمد

مصنفہ نوجوان بلاگر اور افسانہ نگار ہیں۔ لکھنے اور پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ عوامی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹرسائنس میں فارغ التحصیل ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔