سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 6 جون 2021
آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم بلاضرورت ہر جگہ اپنے صحافی ہونے کی شناخت نچاتے پھریں۔۔۔ فوٹو : فائل

آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم بلاضرورت ہر جگہ اپنے صحافی ہونے کی شناخت نچاتے پھریں۔۔۔ فوٹو : فائل

پولیس کا ہے فرض۔۔۔

ہم ہمیشہ دفتر سے نکلتے ہوئے اپنا کارڈ گلے سے اتار کر بستے میں رکھ لیتے ہیں۔ وہ اس لیے کہ ہمیں یہی طریقۂ کار بہتر لگتا ہے، نہ کے یہ کہ گھر سے نکلیں تو کارڈ گلے میں ٹانگ لیں اور پھر گھر لوٹ کر ہی اِسے اتاریں۔۔۔ ہمارے اس عمل کے پیچھے ایک خواہش یہ بھی رہتی ہے کہ گھر سے باہر گلیوں اور سڑکوں پر ہم ایک عام شہری کے طور پر سفر کریں اور دیکھیں کہ کیا صورت حال ہے۔۔۔

آخر ضرورت ہی کیا ہے کہ ہم بلاضرورت ہر جگہ اپنے صحافی ہونے کی شناخت نچاتے پھریں۔۔۔ بالخصوص ’وردی والوں‘ کے حوالے سے تو ہماری بڑی خواہش تھی کہ کبھی ایسا موقع ہو، اور ہمیں معلوم ہو کہ یہ ’وردی والے‘ ایک عام شہری کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر اگر سیدھی انگلی سے گھی نہ نکلے تو پھر ہم انگلی ٹیڑھی کریں!

سو کچھ دن قبل ہماری یہ خواہش بھی پوری ہو ہی گئی۔ یہ ذرا ’لاک ڈائون‘ سے پہلے کراچی کا واقعہ ہے، جب زندگی ذرا معمول کی طرف تھی۔ ہوا یوں کہ رات کے کوئی 12 بجے کے قریب کا وقت تھا۔۔۔ ہم ایک دفتری ساتھی کے عشائیے سے نمٹ کر گھر لوٹ رہے تھے۔۔۔

راستے میں ایک نیم تاریک سڑک پر آتی جاتی گاڑیوں پر ٹارچ مارتے ہوئے ایک پولیس اہل کار نے ہمارے رکشے کو ’تاڑ‘ لیا۔۔۔ اور کنارے پر ہونے کا اشارہ کیا۔۔۔ جیسے ہی رکشا رکا، تو وہ نوجوان پولیس اہل کار قریب آیا اور سوالیہ انداز میں ہمارا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا:
’’کہاں رہتے ہو۔۔۔؟‘‘ ہم نے بتا دیا۔ ہماری گود میں دھرا ہوا بستہ دیکھ کر تفتیشی انداز میں پوچھنے لگا کہ ’’یہ لیڈیذ بیگ ہے۔۔۔؟‘‘ ہم نے اس کے اوپر سے دونوں ہاتھ ہٹا کر بستہ نمایاں کرتے ہوئے کہا ’’دیکھ لیجیے۔‘‘

وہ بولا کہ باہر آئو، ہم رکشے سے اتر آئے، پھر وہ بولا ’’شناختی کارڈ دکھائو۔۔۔!‘‘ ہم نے شناختی کارڈ دکھانے سے پہلے یہ پوچھنے کی جسارت کر لی کہ ’’خیریت ہے۔۔۔؟‘‘

ہمارا مناسب طریقے سے کہا گیا یہ جملہ اس ’وردی والے‘ پر بم بن کر پھٹا اور وہ چلاّ اٹھا ’’تمھیں سمجھ میں نہیں آرہی، کیا کہہ رہا ہوں۔‘‘

اتنے میں دوسرے ذرا بڑی عمر کے اہل کار بھی پاس چلے آئے، ہم نے اس دوران شناختی کارڈ ہی نہیں اپنے دفتر کا کارڈ بھی انھیں دکھا دیا۔۔۔

’دفتری کارڈ‘ نے فوری اثر دکھایا اور اب وہ دیگر اہل کاروں کے سامنے ہم پر شکایتی انداز میں الزامات عائد کرنے لگا کہ میں ان سے نام پوچھ رہا ہوں اور یہ مجھے ’پریس‘ کا کارڈ دکھا رہے ہیں؟ ہم نے ترکی بہ ترکی اس کی تصحیح کی کہ آپ نے نام نہیں پوچھا۔ پھر کہنے لگا کہ آپ کو وردی پر شک ہے؟ ہماری ڈیوٹی ہے، ہمیں کرنا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس اثنا میں پولیس موبائل کے پاس سے ہماری طرف آنے والے دیگر پولیس اہل کار سمجھ گئے کہ ان کی یہاں موجودگی کا کوئی ’فائدہ‘ نہیں، اس لیے وہ اپنے کسی اگلے ’شکار‘ کے لیے واپس اپنی جگہ پر ہو لیے۔ اب اچانک اس نوجوان پولیس اہل کار کی آواز نرم اور معذرت خواہانہ ہوگئی اور وہ باقاعدہ شائستہ انداز میں ہمیں اپنے پچھلے رویے کے عذر دینے لگا، یہ ہماری ڈیوٹی ہے، ہم نے غلط نہیں کیا آپ سے۔ ہم نے کہا یہ طریقہ کار آپ کی ڈیوٹی نہیں ہے!

وہ یہ بھی بولا کہ ’اگر ہم بندوق تان لیتے۔۔۔؟ ’ہم نے پوچھا ’بھئی، کیوں تان لیتے۔۔۔؟ ہم نے ایسا کیا کیا ہے، جو آپ بندوق تان لیتے!‘ بہرحال اس نے ہمیں پھر بہت اچھی طرح سے رخصت کیا۔ بولا، ’ملتے رہیں گے، میں بھی وہیں رہتا ہوں۔‘ پتا چلا کہ ہمارے گھر کے نزدیک واقع ایک محلے میں اس کی رہائش ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ’محلے داری‘ اتنی ہی سمجھ میں آتی ہے، تو ہم نے تو رکشے میں بیٹھے بیٹھے ہی جواب دے دیا تھا کہ ہم کہاں رہتے ہیں۔۔۔ لیکن یہ دراصل ساری کہانی ’طاقت کے توازن‘ کی تھی۔ ایک عام شہری اور کسی صحافی سے رویے کا فرق تھا، جو فقط چند منٹ کے اندر بہت اچھی طرح واضح ہوگیا۔۔۔

ہمیں پتا چل گیا کہ ایک عام اور قانون کے پاس دار شہری کو کراچی کی سڑکوں پر کس طرح کے ہتک آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اگر اس ’وردی والے‘ کے سامنے کوئی صحافی یا بااثر فرد ہو تو کس طرح ان کی زبان درازی کو لگام پڑ جاتی ہے۔۔۔ کیسے لمحے بھر میں منہ کھول کر دھاڑنے والے ’آپ جناب‘ پر اتر آتے ہیں۔۔۔ کس طرح ایک شریف شہری پر اپنی چیخ پکار پر انھیں معذرت کرنا پڑتی ہے اور اپنے دائرے میں رہنا پڑتا ہے۔۔۔ کہنے کو یہ صرف ایک واقعہ ہے، لیکن یہ ہر عام شہری کی کہانی ہے، جو ویران سڑک پر اپنی پولیس کو دیکھ کر تحفظ کے بہ جائے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

۔۔۔

بلوچستان کا اخبار حیدرآباد سے کیوں؟
سارہ یحییٰ، کراچی
قیام پاکستان کے بعد فروری 1948ء میں قائداعظم بحیثیت گورنر جنرل اور نواب زادہ لیاقت علی خان بحیثیت وزیراعظم سبی دربار کے موقع پر تشریف لائے۔ عصرانے کے وقت لیاقت علی، نوابوں، سرداروں اور شاہی جرگہ کے اراکین سے ملتے ہوئے اس میز پر پہنچے جہاں اخبار نویس بیٹھے ہوئے تھے۔ میاں امین الدین اے جی جی بلوچستان اور کرنل اے ایس بی شاہ آپ کے ہمراہ تھے۔ میاں امین الدین نے تعارف کرایا کہ یہ اخبار نویس ہیں۔ لیاقت علی خان نے پوچھا کہ یہاں کتنے اخبار نویس ہیں؟

بتایا چودہ پندرہ ہفتہ وار اخبار ہیں۔
وہ بولے کہ ’اتنے اخبارات ! مجھے تو یہ معلوم ہی نہ تھا۔‘ اور پھر اخبار نویسوں کا تعارف کرایا گیا تو گل محمد ایروی ایڈیٹر ’تعمیر بلوچستان‘ تک بات پہنچی۔ وزیراعظم نے پوچھا کہ آپ کا کون سا اخبار ہے؟
گل محمد ایروی نے بتایا ہفتہ وار ’تعمیر بلوچستان‘ حیدرآباد۔

وزیراعظم نے چونک کر پوچھا۔ اور آپ رہنے والے کہاں کے ہیں۔ انھوں نے کہا ’’ایروی، بلوچستان کا۔‘‘

لیاقت علی خان نے کہا’’عجیب بات ہے۔ بلوچستان کے رہنے والے ہیں اور اخبار حیدرآباد سے شایع کرتے ہیں ۔ قصہ زمین برسرزمین چاہیے۔‘‘
پھر نواب زادہ لیاقت علی خان کے اس ارشاد گرامی کی تعمیل میں گل محمد ایروی اپنا اخبار حیدرآباد سے بلوچستان لائے تھے۔
(صحافت وادی بولان میں، کمال الدین احمد سے اقتباس)

۔۔۔

اگر بھینس ورزش کرتی تو۔۔۔
شفیق الرحمٰن
بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے۔ بھینسوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ وہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بھینس کا وجود بہت سے انسانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ایسے انسانوں کی زندگی میں بھینس کے علاوہ مسرتیں بس گنی گنائی ہوتی ہیں۔ بھینس کا ہم عصر چوپایہ گائے دنیا بھر میں موجود ہے، لیکن بھینس کا فخر صرف ہمیں ہی نصیب ہے۔ تبت میں گائے کے وزن پر سرا گائے ملتی ہے۔ سرا بھینس کہیں نہیں ہوتی۔

جغرافیہ دان کہتے ہیں کہ افریقا میں بھینس سے ملتی جلتی کوئی چیز BISON ہوتی ہے، مگر وہ دودھ نہیں دیتی۔ جغرافیہ دان اتنا نہیں سمجھتے کہ جو چیز دودھ نہ دے بھلا وہ بھینس جیسی کیوں کر ہو سکتی ہے۔

نہیں کہا جا سکتا کہ بھینس اتنی ہی بے وقوف ہے جتنی دکھائی دیتی ہے یا اس سے زیادہ۔ کیا بھینس ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں؟ غالباً نہیں۔ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اتنی اندھی نہیں۔

بھینس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال اور ددھیال دونوں پر جاتے ہیں۔ لہٰذا فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کر سکتے۔

بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے۔ بھینس ہمارے بغیر رہ لے لیکن ہم بھینس کے بغیر ایک دن نہیں رہ سکتے۔ آج کل یہ شکایت عام ہے کہ لوگوں کو کوٹھی ملتی ہے، تو ایسی جس میں گیراج تک نہیں ہوتا جہاں بھینس باندھی جا سکے۔

جس گھر میں بھینس ہو ( اور بھینس کہاں نہیں ہے) وہاں اندرون حویلی سب کے سب بھینس کے چکنے اونٹے ہوئے دودھ کے لمبے لمبے گلاس چڑھاتے ہیں۔ پھر خمار چڑھتا ہے۔ کائنات اور اس کا کھیل بے معنی معلوم ہونے لگتا ہے۔ ایک اور دنیا کے خواب نظر آتے ہیں۔ رہ گئی یہ دنیا، سو یہ دنیا تو مایا ہے مایا!

کئی بھینسیں اتنی بھدی نہیں ہوتیں، مگر کچھ ہوتی ہی ہیں۔ دور سے یہ پتا چلانا مشکل ہو جاتا ہے کہ بھینس ادھر آرہی ہے یا اس طرف جا رہی ہے۔ رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں۔ والا شعر یاد آجاتا ہے۔ بھینس اگر ورزش کرتی اور غذا کا خیال رکھتی تو شاید چھریری ہو سکتی تھی، لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بعض لوگ مکمل احتیاط کرنے پر بھی موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔

بھینس کا مشغلہ جگالی کرنا ہے یا تالاب میں لیٹے رہنا۔ وہ اکثر نیم باز آنکھوں سے افق کو تکتی رہتی ہے۔ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچتی۔ اگر بھینس سوچ سکتی تو رونا کس بات کا تھا۔

ڈارون کی تھیوری کے مطابق صدیوں سے ہر جانور اسی کوشش میں ہے کہ اپنے آپ کو بہتر بنا سکے۔ یہاں تک کہ بندر انسان بن گئے ہیں۔ بھینس نے محض سستی کی وجہ سے اس تگ و دو میں حصہ نہیں لیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ارتقائی دور ختم ہو چکا کیوں کہ انسان بالکل نہیں سدھر رہا۔ بھینس یہ سب نہ جانتی ہے نہ جاننا چاہتی ہے۔ اگر ماہرین اسے نقشوں اور تصویروں کی مدد سے سمجھانا چاہیں تب بھی بے سود ہوگا۔

بھینس کا حافظہ کمزور ہے۔ اسے کل کی بات آج یاد نہیں رہتی۔ اس لحاظ سے وہ انسان سے زیادہ خوش نصیب ہے۔ اگر بھینس کی کمر میں پتھر یا لٹھ آ لگے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھتی۔ ذرا سی کھال ہلا دیتی ہے بس۔ اسے فلسفۂ عدم تشدد کہتے ہیں۔ بھینسے کو بالکل نکما سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہل میں جوتنے کی اسکیم ناکام ثابت ہوئی کیوں کہ وہ دائمی طور پر تھکا ہوا اور ازلی سست ہے۔ اس نے بچپن میں بھینس کا دودھ پیا تھا۔

کبھی کبھی بھینسا چہرے کی جھریوں کو دیکھ کر چونک اٹھتا ہے۔ اور سینگ کٹاکر کٹڑوں میں شامل ہو جاتا ہے، لیکن یہ حرکت کون نہیں کرتا؟ بھینس کے سامنے بین بجائی جائے، تو نتیجہ تسلی بخش نہیں نکلتا۔ بھینس کو بین سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔

۔۔۔

میرے پیارے پپّا۔۔۔
عشبا جمال
یوں تو ہم سب کو ہی اپنے والدین بہت عزیز ہوتے ہیں۔اکثر چھوٹی عمروں میں اْن کی روک ٹوک اور ہماری نا سمجھی کی عمر کا آپس میں ٹاکرا ہوتا ہے تو نا سمجھ دلوں میں باتیں رہ جاتی ہیں اْس وقت ہمیں احساس ہوتا ہی نہیں کے گویا و ہستی جو کے غصّے اور رعب کا پہاڑ ہے وہ تو اندر سے نرم دل، نازک اور احساس رکھنے والا ہے، اس ہستی کو ہم باپ کا نام دیتے ہیں۔

جب میں چھوٹی تھی، تو وہ ابّا جنھیں میں پیار سے پَپا کہتی ہوں، وہ ہمارے لیے ’ماں‘ بن گئے، کیوں کہ زندگی نے کچھ اپنا وہ تلخ رنگ دکھایا جو شاید کوئی اور مرد دیکھتا تو ہمت چھوڑ دیتا، لیکن انھوں نے اپنی ہمت ٹوٹنے نہ دی، پھر وہ سب کے لیے ہی پپا ہوگئے، اور وہ نام سے کم اور پپّا نام سے زیادہ پہنچانے جانے لگے۔

پَپا کو دیکھیے، تو کبھی احساس ہوا کہ ہمارے لیے کتنی قربانیاں دے گئے، ہم صرف نعمتیں گن رہے تھے، ہم نے کبھی اُن کی پہاڑ جیسی پریشانیوں کی طرف کبھی دیکھا ہی نہیں۔ زندگی میں کچھ ایسا وقت پڑا کے ہم بہ یک وقت سب چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔ پھر بھی ہم خود تو بڑے ٹھاٹ سے ویگن میں اسکول جاتے، لیکن وہ بسوں کے دھکّے کھاتے۔۔۔

وہ بڑی رعب دار شخصیت کے مالک ہیں، لیکن ساتھ بیٹھو تو کوئی چٹکلہ یا کوئی قصہ سنا کر بے تحاشا ہنساتے ہیں، میں نے انھیں ہمیشہ لڑتے ہوئے، ہارتے جیتتے اور گر کر دوبارہ سنبھلتے ہوئے دیکھا۔

وہ اپنی معلومات کے باعث کسی چلتی پھرتی ہوئی کتاب جیسے ہیں، گانا بجانا اور اسپورٹس سے لے کر تقریحی مقابلوں تک کا شوق رکھتے ہیں، لیکن میں نے ان کو یہ سب اپنے بچوں کی خاطر چھوڑتے ہوئے دیکھا، ان کی توجہ صرف بس دن رات محنت کرنے اور ہمارا حوصلہ بڑھانے میں صرف ہوتی۔

مجھے اوّل انعام ملنے پر بھیڑ میں زور زور سے ہنستے ہوئے اور خوش ہوتے ہوئے، بچوں کی طرح تالیاں بجاتے ہوئے دیکھا۔۔۔ جب زندگی میں پہلی دفعہ روتے ہوئے دیکھا، تو یقین نہیں آیا کے ایسا کیسے ممکن ہے یہ آدمی تو ہمیشہ آنسو پونچھنے والوں میں رہا آج کیسے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ میں آج خود لوگوں سے ملتی ہوں جب لوگوں کو پڑھتی ہوں، تو احساس ہوتا ہے باپ جیسا دل ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ لوگ باتیں تو بہت بڑی بڑی کرلیتے ہیں، لیکن دلوں میں بْہت کم لوگوں کے گنجائش ہوتی ہے۔

میرے پپّا شاید الگ ہیں سب سے۔۔۔ سب خوبیاں خدا نے اِن میں ڈال دی ہوں جیسے۔ میں آج جو کچھ ہوں، صرف اپنے پپّا کی بدولت ہوں، بچپن سے ان کو یہی کہتے سنا کہ میں چاہتا ہوں کے اس ملک کو تین پڑھے لکھے شہری دے دوں اور انھوں نے ہم تینوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ بنا دیا۔

وہ بھولے بھالے آدمی ہیں۔ بچپن میں جب کوئی ’کالم‘ پڑھتی تھی، جس میں سب اپنے پیاروں کے نام کچھ نہ کچھ لکھتے تھے، تو مجھے بڑا اچھا لگتا تھا۔ اس ہی وجہ سے میں نے بھی ہمّت کی اور نم آنکھوں کے ساتھ اپنے پپّا کے بارے میں کچھ بیان کر ڈالا، لیکن ابھی لکھنے کو بہت کچھ ہے شاید یہ صفحہ کم پڑھ جائے؎

مجھے رکھا چھاؤں میں اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں

آخر میں بس یہ کہنا چاہوں گی۔ شکریہ اُن خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے، جو ایک وقتی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں، شکریہ، ہمیں ہنسانے کے لیے۔۔۔ شکریہ، بار بار جتانے کے لیے کہ آپ مجھ سے کتنی محبّت کرتے ہیں۔۔۔ شکریہ، ہر اُس درد کو چھپانے کے لیے اور ہر وہ جنگ اکیلے لڑنے کے لیے کہ کہیں ہم اس جنگ کا حصّہ بن کر گھائل نہ ہو جائیں۔۔۔ شکریہ، ہمیشہ حفاظت کرنے کے لیے۔

میرے الفاظ شاید انصاف نہ کر سکیں اور کسی ننّھے بچّے کے ادھورے الفاظ کی طرح میرے یہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی آپ تک پہنچ جائیں۔ میں دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ سب اولادوں پر اُن کے باپ کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھے اور پپّا جیسے بہت سے لوگ، جو ایسی خاموش جنگیں لڑ رہے ہیں اللہ تعالیٰ ڈھیروں آسانیاں پیدا کرے، آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔