سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 13 جون 2021
’’کیا کبھی ہم پاکستانی بن سکیں گے؟‘‘ جیسے اہم سوال سے وہ اپنا کالم شروع کرتے ہیں۔فوٹو : فائل

’’کیا کبھی ہم پاکستانی بن سکیں گے؟‘‘ جیسے اہم سوال سے وہ اپنا کالم شروع کرتے ہیں۔فوٹو : فائل

ڈپٹی نذیر احمد کو نصاب سے نکالنے کا مذموم مطالبہ۔۔۔!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

جی بالکل۔۔۔ ڈپٹی نذیر احمد کو نصاب سے بے دخل کرنے کا یہ عجیب وغریب مطالبہ 30 مئی 2021ء کو ایک معاصر روزنامے میں ’کسی‘ منصور آفاق نامی کالم نگار کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

’’کیا کبھی ہم پاکستانی بن سکیں گے؟‘‘ جیسے اہم سوال سے وہ اپنا کالم شروع کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ یہ سوال انھوں نے اپنی تاریخ سے کیا، تو ’تاریخ‘ نے انھیں بتایا کہ ’تم سب ڈپٹی نذیر احمد ہو۔‘ اور پھر انھوں نے ڈپٹی نذیر کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو تنقیدی انداز میں مذکور کرتے ہوئے انھیں بہ یک وقت انگریز کا مخالف بھی کہا اور ایجنٹ بھی۔۔۔! اور پھر اپنے کالم کی اختتامی سطور میں ایک بار پھر انھیں ’’انگریز کا ایجنٹ‘‘ قرار دینے کا ارتکاب کیا، لیکن پورے کالم میں سوائے ان کی ذاتی زندگی پر بات کرنے اور انگریز سرکار کی ملازمت کرنے کے، وہ اپنے اِس ’الزام‘ کا کوئی اور ’ثبوت‘ پیش نہ کر سکے۔۔۔

اپنے کالم کے آخری پیرے میں وہ لکھتے ہیں ’’اس وقت اکثریت کا خیال یہی ہے کہ ہمیں ڈپٹی نذیر احمد ہی ہونا چاہیے۔ بین المذاہب ہم آہنگی پر توجہ دینی چاہیے، اپنے مفادات کے لیے یہود و نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے، ان کے ساتھ دوستی رکھنی چاہیے۔ یعنی ہم سب کو ڈپٹی نذیر احمد ہی بننا چاہیے۔ یہی ہر پاکستانی کی معراج ہے، مگر کچھ میرے جیسے سر پھرے بھی ہیں جو سوچتے ہیں، جب تک 200 سالہ دورِِ غلامی میں جو لوگ انگریزوں کے ایجنٹ رہے، انھیں نصاب سے نہیں نکالیں گے، ہماری آنے والی نسلیں پاکستانی نہیں بن سکیں گی۔‘‘

یعنی موصوف کو ڈپٹی نذیر احمد کی تعلیمات اور خدمات میں ’اپنے مفادات کے لیے یہود ونصاری کے نقش قدم پر چلنا‘ ہی دکھائی دیا۔ پھر وہ اپنے کالم کے ملفوف مرکزی خیال کو بے نقاب کرتے ہوئے ڈپٹی نذیر احمد کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دے کر نصاب سے نکالنے کا مطالبہ کر دیتے ہیں، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں ’پاکستانی‘ بن سکیں! یعنی کُل ملا کر بات یہ ہے کہ ’ڈپٹی نذیر احمد انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور ہمارے نصاب میں ان کی موجودگی ہمارے بچوں کے ’پاکستانی‘ بننے میں رکاوٹ ہے۔۔۔!

بھئی، اگر انگریز سے کسی طرح کی مفاہمت، عدم ٹکرائو یا انگریز کی ملازمت کرتے ہوئے اپنی زوال پذیر قوم کی فلاح وبہبود پر مرکوز ہونے کی حکمت عملی ہی ’انگریز کا ایجنٹ‘ ہونا ہے، تو پھر ہماری تاریخ کے اس عجیب وغریب پہلو کا کیا کیجیے گا کہ تحریک پاکستان اٹھانے والی ’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کے بانی سر سید احمد خان سے لے کر ’مصور پاکستان‘ قرار دیے جانے والے علامہ اقبال تک اسی انگریز سے ’سر‘ کا خطاب حاصل کیے ہوئے تھے۔۔۔ کیا ہم صرف اس بنیاد پر اپنی تاریخ اور نصاب سے سرسید اور اقبال جیسے مشاہیر کو جدا کر دیں گے۔۔۔؟ علامہ اقبال کے بارے میں تو یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انھوں نے برطانوی بادشاہ جارج پنجم کے لیے ایک قصیدہ بھی لکھا تھا۔۔۔

پھر یہ بات بھی ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ فاضل کالم نگار صرف ڈپٹی نذیر سے شروع ہو کر انھی پر کیوں ختم ہوگئے، اس میں تو دیگر بہت سی نمایاں شخصیات کو بھی شامل کیا جا جانا چاہیے تھا، جو ان کی

سطحی سوچ کے مطابق ’’انگریز کے ایجنٹ‘‘ اور پاکستانی بننے میں ’’رکاوٹ‘‘ دکھائی دیں گے۔۔۔

نام وَر محقق اور ماہرلسانیات استاد الاساتذہ ڈاکٹر معین الدین عقیل سے ہماری اس حوالے سے گفتگو ہوئی، انھوں نے بھی اِس کالم کو نہایت غیرمناسب قرار دیا اور ڈپٹی نذیر احمد کو ’انگریزوں کا ایجنٹ‘ کہنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ڈپٹی نذیر احمد سرسید احمد خان سے قریب رہے، اور سرسید کی طرح ڈپٹی نذیر احمد کی کوششیں بھی انگریزوں کے دور میں کسی طرح مسلمانوں کو آگے لانے اور ابھارنے سے تعلق رکھتی تھیں، انھوں نے جس طرز عمل کو بھی مسلمانوں کے لیے درست سمجھا اس کی ترویج کی، وہ اپنی کوششوں میں بے حد مخلص تھے۔‘‘

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ڈپٹی نذیر احمد کوئی فرشتے تو نہیں تھے کہ ان پر نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی۔ تو جناب، خاطر جمع رکھیے، ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ بالکل تنقید سے کوئی مستثنا نہیں، لیکن آج کے قحط الرجال میں کسی بھی لکھنے والے کو اس بات کا تو خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے اسلاف کے بارے میں اگر خامہ فرسائی کر رہا ہے، تو کم سے کم ان کے مرتبے اور مقام کو پامال کر کے اپنا قد مزید پست نہ کرے اور وہ یہ نہ بھولے کہ اگر وہ آسمان پر تھوکے گا، تو وہ اس کے منہ پر ہی آئے گا!

یہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ سماج کے علمی اور ادبی کھوکھلے پن کا اظہار ہے۔ آج ہم اتنے کم ظرف ہو چکے ہیں یا شاید ہمارے اندر کا حسد، بغض یا تعصب اتنا ہے کہ ہم اپنی تہذیب وادب کے بڑوں کو اُن کے مرتبے سے گرا کر اپنا قد اونچا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے آج کے دور میں ایسے ’ناول نگار‘ بھی موجود ہیں، جو بڑے دھڑلے سے اردو کے پرانے روزمرہ اور محاورے کو رد کرنے کا اعلان کرتے ہیں کہ اب ایسی اردو نہیں چلے گی، کیوں کہ اس اردو کا جغرافیہ سرحد کے پار رہ گیا ہے۔۔۔! وہ ’خودپسندی‘ کے ’’بہائو‘‘ میں اس قدر بہے چلے جاتے ہیں کہ 1899ء میں لکھے ہوئے اردو کے اولین ناول ’امرائو جانِ ادا‘ کو سِرے سے ناول ہی ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔۔۔ یہ سارے افسوس ناک رویے ہماری دانش وَریہ کی تنگ نظری، کم ظرفی، منافقت اور دُہرے معیار کے مظہر ہیں۔

ہمیں حیرت ہے کہ اردو کے ایک بڑے روزنامے میں اپنی تہذیب وتاریخ کے بزرگوں کے بارے میں ایسے مذمومانہ جذبات پر مبنی اور ایک ہتک آمیز کالم شایع کیسے ہوگیا، جس میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ڈپٹی نذیر احمد نہیں، بلکہ اپنی پچھلی گلی کے کسی ’چچا نذیر‘ کی بات کر رہے ہیں، اور انھیں تختۂ مشق بنا کر اپنے سماج کے تضادات پر بھپتی کس رہے ہیں۔ ایسے مواد کا شایع ہونا مذکورہ اخبار کی ’ادارتی پالیسی‘ پر بھی سوالیہ نشان ہے، جس میں ایک ایسے شخص کو ہی ’انگریز کا ایجنٹ‘ اور ہمارے پاکستانی بننے میں رکاوٹ قرار دے دیا جاتا ہے، جو اس ملک کی نظریاتی بنیاد اور واحد قومی زبان اردو کے ’عناصر خمسہ‘ یعنی پانچ بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے، جس کے قلم نے اردو زبان وادب کو خوب مالا مال کیا ہے۔ {اردو کے ’عناصر خمسہ‘ میں سر سید احمد خان (1817ء– 1898ء)، محمد حسین آزاد (1830ء– 1910ء)، ڈپٹی نذیر احمد (1836ء– 1912ء)، الطاف حسین حالی (1837ء– 1914ء) اور علامہ شبلی نعمانی (1857ء– 1914ء) شامل ہیں۔}

شاید یہ ہمارے بدقسمت سماج کی سزا ہے، کہ جہاں ایک طرف بہت تیزی سے اہل علم وادب اُٹھتے چلے جا رہے ہیں، وہاں 100 سال پہلے گزر جانے والے ایک قدآور بزرگ پر اِس طرح کیچڑ اچھالی جا رہی ہے، کہ جس پر خود اردو زبان اور اردو تہذیب شرمندہ ہے۔۔۔!

۔۔۔

جمشید نسروانجی پابندی سے تلاوت قرآن کرتے تھے!
ضیا الدین احمد برنی

(کراچی کے پہلے میئر جمشید نسروانجی (1886ء تا 1952ء) کو شہر کے محسنین میں شمار کیا جاتا ہے، وہ نومبر 1933ء کو اپنی ذمہ داریوں پر فائز ہوئے، انھوں نے کراچی کے لیے بے شمار تاریخی خدمات انجام دیں۔۔۔ گرومندر کراچی کے قریب واقع مشہور ومعروف سڑک ’جمشید روڈ‘ انھی کے نام پر ہے۔۔۔ اُن کا تعلق کراچی کی پارسی برادری سے تھا۔ یہ اقتباس ضیا الدین احمد برنی کی 1961ء میں شایع ہونے والی کتاب ’عظمت رفتہ‘ سے منتخب کیا گیا ہے۔)

جمشید مہتا نسروانجی کے والد کا کاروبار شراب کا تھا۔ برطانوی حکومت چوں کہ جمشید نسروانجی کی سیاست سے ناخوش تھی، اس لیے اس نے شراب کی غیر ملکی ایجینسیوں کو بند کرا دیا، جس کی وجہ سے انھیں زبردست نقصان اٹھانا پڑا، مگر وہ اپنے بیٹے کے طریقۂ کار سے خوش رہے۔ جمشید نسروانجی بھی مسرور تھے کہ انھیں اس لعنتی کام سے چھٹکارا ملا۔ وہ شراب کو مغربی تہذیب کی ’’برکات‘‘ میں شمار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ وہ ایسے روپے کو بھی نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے، جو اس ’’داغی تجارت‘‘ سے حاصل ہوا ہو۔ وہ دنیا میں اسلام کو شراب بندی کا سب سے زبردست مبلّغ سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے وہ پاکستان میں شراب نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو اندیش ناک قرار دیتے تھے۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہے (مگر یہ حقیقت ہے) کہ جمشید نسروانجی پابندی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور ماہ رمضان میں روزے رکھتے تھے اور اپنے خرچ سے ہر سال چند مسلمانوں کو حج کے لیے بھی بھیجتے تھے۔ جمشید نسروانجی مال دار آدمی تھے، مگر انھیں روپے پیسے سے مطلق محبت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسے خدمت خلق میں خرچ کرتے رہتے تھے۔

ماما پارسی گرلز ہائی اسکول (کراچی) بھی انھی کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا۔ انھوں نے اپنے ہم مذہب پارسیوں میں رقص کے رواج کو کم کرنے کی انتہائی کوشش کی۔ وہ اسے معاشرے کے لیے خطرے کا سگنل قرار دیتے تھے۔ اس نصف صدی میں پارسیوں میں وقتاً فوقتاً جتنی اصلاحی تحریکیں اٹھیں، وہ بڑی حد تک جمشید نسروانجی کی جدوجہد کی رہین منت ہیں۔

۔۔۔

پھر ہمیں کچھ یاد نہیں۔۔۔
نشاط یاسمین خان
بچپن میں منع کیا جاتا تھا کہ قبروں کے کتبے نہیں پڑھنا چاہییں، اب فیس بک کھلتے ہی چار چھے ’’کُتبے‘‘ سامنے آجاتے ہیں۔۔۔ یعنی اس پر کسی نہ کسی کی فاتحہ کی درخواست ضرور درج ہوتی ہے۔ اب آپ کے دور پرے کے کسی رشتے دار کا یوم وفات ہے، تو اس سے آپ کے سیکڑوں ’فیس بک‘ احباب کو کیا دل چسپی۔۔۔؟ لیکن اب اگر آپ نے یہاں ’recited‘ یعنی ’پڑھ لیا‘ نہ لکھا، تو وہ اپ کی اگلی پوسٹ پر لایک بھی نہ کریں گے، ہو سکتا ہے، اپنی فیس بک سے الگ کر دیں یا ’بلاک‘ بھی کر ڈالیں۔

چلیے خیر یہاں تک بھی صحیح ہی ہے، لیکن فجر میں وضو کرتے ہوئے چھینک آگئی، اس کی پوسٹ لگا دی۔۔۔! دوپہر کو ناک بہنا شروع ہوگئی، یہ پوسٹ بھی لگالی، پھر طبیعت مزید بوجھل ہوئی، بخار میں پُھنکنے لگے، مگر پوسٹ لگانا نہیں بھولے۔۔۔ اب رات گئے فیس بک پر ’پسندیدگی‘ اور ’تبصروں‘ کو شمار کر رہے ہیں کہ دوست دشمن کی پہچان کا یہی تو وقت ہے، وہ تو شکر ہوا کہ انھوں نے ناک بہنے اور سُڑ سُڑ کرنے کی تصویر اورویڈیو نہیں لگائی۔

ابھی کچھ دنوں پہلے ایک ’پوسٹ‘ نظر سے گزری۔ انھوں نے اپنے ایکسیڈینٹ کا ’’آنکھوں دیکھا‘‘ اور دل وجان پر گزرا حال بیان کیا تھا، وہ بھی مع تصاویر۔ اور ویڈیو بھی لگا دی۔ وہ اسپتال میں 15 دن رہنے کے بعد گھر واپس آگئے تھے، ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل اور بڑھا ہوا شیو اور بالوں کے ساتھ قابلِ ہمدردی تصویر تک تو چلیے گنجائش تھی، مگر جب کمیرا ان کے پلستر چڑھے ہوئے پائوں تک پہنچا، تو اس وقت ہم چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھا رہے تھے۔۔۔ اُن کا کیمرا اس باریک بینی سے 15 دن پرانے پلستر والے گندے انگوٹھے اور انگلیوں کا عمیق جائزہ پیش کر رہا تھا کہ کب ہمارا بسکٹ ’غرقِ چائے‘ ہوا۔ کب ہمارا کلیجہ منہ کو آیا کب ہمارا موبائل ہاتھ سے گرا۔۔۔ بس صرف ہمیں اتنا یاد ہے، ہم منہ پر ہاتھ رکھے ’بیسن‘ کی سمت بھاگے تھے۔

۔۔۔

دلّی چھُٹنے کا داغ دل پر ہمیشہ رہے گا

شاہد احمد دہلوی
دلّی چھوڑنے کے بیس دن بعد تک کوئی خط دلّی سے نہیں آیا۔ ایک دن اچانک میرے دفتر کے ایک منشی کا خط آیا، تو اتنی خوشی ہوئی کہ جیسے کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو۔ اسی دن میں نے کئی خط دلّی میں اپنے عزیزوں اور دوستوں کو لکھے۔ انتظام بگڑا ہوا تھا۔ اس لیے اکثر خطوط کھوئے جاتے تھے۔ تاہم دلّی کے حالات معلوم ہونے لگے۔ ڈاک کھلنے کے بعد معلوم ہوا کہ کون کون کہاں ہے؟ کئی عزیز جو 21 ستمبر کی ’اسپیشل‘ (ریل گاڑی) سے چلے تھے، مارے گئے اور لاپتا ہیں۔

اس گاڑی میں صرف 200 آدمی زندہ پہنچے تھے۔ ایک دوست جو لاہور پہنچے تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ سارے کپڑے خون میں لت پت تھے اور وہ پاگلوں کی طرح چیختے تھے کہ میں نے مُردوں کا پائو بھر خون چاٹا ہے۔ یہ لاشوں کے نیچے دبے رہ گئے تھے اور پیاس بجھانے کے لیے خون چاٹتے رہے تھے اور ان کی خوں آشامی کی کیفیت سن کر بِہار کی ایک پاگل عورت یاد آتی تھی، جو سب سے یہی کہا کرتی تھی کہ میں نے اپنے سات بچوں کا خون پیا ہے۔

اس کے سات بچے اس کی آنکھوں کے سامنے ذبح کیے گئے اور سب کا خون اسے زبردستی پلایا گیا تھا۔ اس قسم کے سیکڑوں روح فرسا واقعات ہیں، جن کا بیان یہاں بے محل ہوگا۔ ایسے ہی واقعات سے عبرت ہوتی ہے اور ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اتنے بڑے آشوب میں سے زندہ سلامت نکل آئے۔ مالی نقصان کا کیا ہے؟ زندہ رہیں گے، تو بہت کچھ پھر کمالیں گے۔ البتہ دلّی کے چُھٹنے کا داغ دل پر ہمیشہ رہے گا۔ دلّی اب بھی باقی ہے اور وہاں مسلمان بھی بستے ہیں، لیکن اب وہ دلّی کہاں؟ دلّی مرگئی۔۔۔ دلّی زندہ باد!

(کتاب ’دلّی کی بپتا‘ سے اخذ کی گئی چند سطریں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔