میڈیکل کی تعلیم
سندھ کی حکومت بھی وفاق کے نقشِ قدم پر چلے گی تو پھر طلبہ اور مریضوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک تحفہ میڈیکل کی تعلیم کی تباہی ہے۔ موجودہ حکومت کے بعض مفکرین شاید انتظار میں تھے کہ تحریک انصاف کسی طرح اقتدار میں آئے تو ملک میں میڈیکل کالجوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں پر براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کیا جائے۔
یہی وجہ تھی کہ وفاقی حکومت نے میڈیکل کی تعلیم کو عرصہ دراز سے ریگو لیٹ کرنے والے ادارہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے خاتمے کا فیصلہ کیا اور پاکستان میڈیکل کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کے کنٹرولنگ ادارہ کی ترتیب اس طرح کی گئی کہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو شکایات پیدا ہوگئیں۔ڈاکٹروں کی نمایندہ تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) نے پاکستان میڈیکل کونسل کی تشکیل نوکو میڈیکل کی تعلیم اور تعلیمی معیارکے تناظر میں نقصان دہ قرار دیا۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت تعلیم کا شعبہ صوبوں کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ اس میں میڈیکل کی تعلیم بھی شامل ہے۔ پی ایم سی نے گزشتہ سال فیصلہ کیا کہ کمیشن خود پورے ملک کے میڈیکل کالجوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے پروگرام میں داخلہ کا انٹری ٹیسٹ لے گا۔
گزشتہ سال اس امتحان میں مختلف قسم کی کمزوریاں ظاہر ہوئی تھیں مگر پی ایم سی نے وہی تجربہ اس سال بھی دہرایا۔ طالب علم بار بار شکایت کرتے رہے کہ پی ایم ڈی سی کے دور میں امتحان کی فیس چند سو روپے تھی مگر پی ایم سی نے اس میں کئی ہزار کا اضافہ کر دیا۔
یہ امتحانات مقررہ مراکز پر کمپیوٹر کے ذریعہ لیے گئے مگرکئی مراکز پر بجلی چلی گئی اور کوئی متبادل انتظام نہیں تھا۔ اس طرح کئی جگہوں پر انٹرنیٹ بار بار معطل ہوا۔ سندھ کے مختلف شہروں میں امتحان دینے والے طلبہ کہتے ہیں کہ مختلف مراکز پر مختلف دنوں میں امتحانات ہوئے اور کئی مراکز پر آسان پرچہ آیا اور کچھ مراکز پر نصاب سے ہٹ کر سوالات کیے گئے۔ پورے ملک میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی سطح پر پڑھائے جانے والے مضامین کے ابواب میں فرق ہے۔
سندھ اور بلوچستان کے کالجوں میں بنیادی مضامین کے ابواب پڑھائے ہیں جب کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے کالجوں میں پڑھائے جانے والے مضامین میں جدید موضوعات شامل کیے گئے ہیں اور سائنس کے مضامین کی تدریس کے لیے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بہترنظام ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے کالجوں خاص طور پر اندرون سندھ اور اندرون بلوچستان پڑھائے جانے والے مضامین کے ماہرین نے اس اہم مسئلہ کو نظرانداز کیا۔
یہی وجہ تھی کہ پی ایم سی کے انٹری ٹیسٹ کے بعد اندرون سندھ اور بلوچستان کے طلبہ کے احتجاج کی صدائیں گونجنے لگیں۔ بلوچستان کے طلبہ نے بھی کوئٹہ اورکراچی کی سڑکوں پر شدید احتجاج کیا ۔ ان نتائج پر پنجاب اور خیبر پختون خوا کے طلبہ اور ان کے والدین کے اعتراضات ذرایع ابلاغ میں شایع اور نشر ہوئے ، اخبارات میں ان نتائج میں گھپلوں کی نشاندہی ہونے لگی۔
سینیٹ کی تعلیم کی قائمہ کمیٹی نے پی ایم سی کے تمام معاملات پر غورکیا۔ طلبہ کی شکایتوں کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا کہ ان نتائج میں نقائص کی بھرمار ہے۔ اس بناء پر ان نتائج کو منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی۔ اس طرح اعلیٰ عدالتوں نے پی ایم سی کے مختلف عہدیداروں اور افسروں کی اہلیت کا سوال بھی اٹھایا ۔
سرکاری اداروں میں مالیاتی قواعد و ضوابط کی نگرانی کرنے والے ادارہ نیپرا نے فیصلہ دیا ہے کہ ان امتحانات کے لیے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک مخصوص کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا ، یوں پورے ملک میں اس بات پر غیر رسمی طور پر اتفاق پایا گیا کہ پی ایم سی نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس ادارہ کے قیام پر نظرثانی ہونی چاہیے مگر وفاقی حکومت نے اس احتجاج پر توجہ نہ دی۔ ادھر حکومت سندھ نے میڈیکل کی تعلیم کے لیے بنیادی فیصلے کیے۔ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے ان فیصلوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انٹری ٹیسٹ کے پاسنگ مارکس میں کمی کررہی ہے۔
اب ایم بی بی ایس پروگرام میں داخلہ کے لیے کم از کم نمبر 65 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد اور بی ڈی ایس کے لیے 40 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ اگر پی ایم سی سے معاملات طے نہ ہوئے تو پھر سندھ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے قیام کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ کالجوں میں دستیاب نشستوں کے مطابق داخلہ پالیسی بنے گی۔
شہید محترمہ بے نظیر یونیورسٹی لاڑکانہ ایک ویب پورٹل قائم کرے گی جس کے ذریعہ 50 فیصد تک نمبر حاصل کرنے والے طلبہ کا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔ سندھ کے تمام میڈیکل کالجوں اور میڈیکل یونیورسٹیوں میں کل نشستیں 5 ہزار 490 ہیں۔ اس سال پی ایم سی کے انٹری ٹیسٹ میں سندھ سے 68 ہزار 680 طلبہ نے شرکت کی تھی مگر صرف 7 ہزار 797 طلبہ اس امتحان میں اہل قرار پائے تھے۔
اسلام آباد، لاہور ، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں احتجاج کے باوجود وفاقی حکومت اس معاملہ پر کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ابھی تک سینیٹ کی تعلیم کی قائمہ کمیٹی کی اس سفارش پرکہ یہ متنازع امتحانات منسوخ کیے جائیں کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
میڈیکل کی تعلیم کو بچانا ہے تو دوبارہ امتحانات کے انعقاد کی ذمے داری صوبوں کے سپرد ہونی چاہیے۔ پاکستان میڈیکل کمیشن کا بنیادی فرض ہونا چاہیے کہ صوبوں کے میڈیکل کی تعلیم کے اداروں کے معیارکو بلند کرنے کے لیے مشورے کا طریقہ کار اختیار کرے اور صوبوں کو ان مشوروں پر عملدرآمد کے لیے قانونی طور پر پابند کیا جانا چاہیے، مگر یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کے گورننگ بورڈ میں صوبوں کو نمایندگی دی جائے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے وفاق اور صوبے مل کر کام کریں۔
حکومت سندھ کا داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ کے پاسنگ مارکس کم کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بعض قوتیں بار بار یہ الزام لگاتی ہیں کہ سندھ کا تعلیمی معیار پنجاب اور کے پی کے مقابلہ میں پسماندہ ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں کم سے کم داخلہ کا معیار اب بھی 65 فیصد ہے ، اگر سندھ نے یہ معیار کم کیا تو جو طالب علم ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کی ڈگریاں حاصل کریں گے انھیں مستقبل میں خاصی مشکلات پیش آئیں گی۔
وفاقی حکومت نے میڈیکل کی تعلیم کو نقصان پہنچانے کے لیے پالیسی بنائی۔ اب سندھ کی حکومت بھی وفاق کے نقشِ قدم پر چلے گی تو پھر طلبہ اور مریضوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟