ق اور ن میں قربت

مزمل سہروردی  جمعرات 18 نومبر 2021
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

حکومت نے اپنے اتحادیوں کو منا تو لیا ہے لیکن سیاست میں دوستیاں عارضی ہوتی ہیں۔وہ ایک خاص عرصہ تک چلتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے لیے ماحول بنانا شروع کر دیا ہے۔

میری رائے میں دونوں سیاسی جماعتیں ایک مربوط حکمت عملی کے تحت یہ ماحول بنا رہی ہیں۔ حکمران قیادت دونوں جماعتوں کے ساتھ کوئی ایسا تعلق نہیں بنا سکی جس سے وہ یہ محسوس کر سکیں کہ حکومت کے ساتھ اتحاد لمبا چل سکتا ہے۔

تین سال کے اتحاد نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اگلا انتخاب تحریک انصاف کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اپنے رویہ سے یہ ماحول بنا دیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اندر یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ اگلے الیکشن میں ان کی تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے۔

جو عمران خان ٹھیک سے ملنے کے لیے تیار نہیں وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیا کریں گے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ جس طرح ہوئی تھی ق لیگ کو علم ہے، اور شاید اندازہ ہے کہ اگلی بار وہ ماحول اور وہ لوگ موجود نہیں ہونگے اس لیے فیصلے بھی مختلف ہونگے۔ ویسے بھی ق لیگ عمران خان کی کمزور پرفارمنس کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نظر نہیں آرہی ہے۔ اس لیے وہ اپنی اگلی حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں مجھے ان کی موجودہ حمایت بہت عارضی نظر آ رہی ہے۔

دوسری طرف ق لیگ اور ن کے درمیان برف بھی پگھل رہی ہے۔ حال ہی میں چوہدری شجاعت حسین کی طبیعت خراب ہوئی اور وہ اسپتال میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے ن لیگ سے خواجہ سعد رفیق ان کی مزاج پرسی کے لیے اسپتال گئے۔ وہاں خواجہ سعد رفیق کی چوہدری پرویز الہی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ دونوں نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تفصیل سے بات کی۔ یہ خواجہ سعد رفیق اور چوہدری  پرویز الہیٰ کے درمیان پہلی ملاقات نہیں تھی۔ نیب کی لمبی جیل سے رہائی کے بعد بھی خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق چوہدری پرویز الہیٰ سے ملنے گئے تھے۔

ویسے تو خبر یہی تھی کہ خواجہ برادران خواجہ سلمان رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر چوہدری پرویزالہی کا شکریہ ادا کرنے گئے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق نے یہ ملاقات بھی پارٹی صدر میاں شہباز شریف کی اجازت سے کی تھی۔ شہباز شریف نے انھیں چوہدری برادران سے سیاسی تعاون بڑھانے کی بات کرنے کے لیے کہا تھا۔ حالانکہ تب اس کا کوئی امکان نظر بھی نہیں آرہا تھا۔ لیکن سیاست کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ نا ممکن کو ممکن بنانے کا کھیل ہے۔

خواجہ سعد رفیق کی اس ملاقات کے بعد حمزہ شہباز نے بھی رہائی کے بعد چوہدری پرویز الہیٰ سے ملاقات کی، اور پھر ن لیگ کا ایک وفد پنجاب اسمبلی میں چوہدری پرویز الہیٰ سے ملا۔ اب بھی سب سے پہلے خواجہ سعد رفیق چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے گئے، لیکن یہ ملاقات میڈیا سے خفیہ رہی۔ اسے بیک چینل ڈپلومیسی میں ہی رکھا گیا، لیکن اس کے بعد سعد رفیق نے پارٹی سے کہا کہ سب کو ان کی عیادت کرنی چاہیے۔ جس کے بعد شہباز شریف اور پھر میاں نواز شریف نے چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کے لیے فون کیا۔

اور حمزہ شہباز بھی خود عیادت کے لیے گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ کی جانب سے عیادت کے بعد عمران خان نے بھی فون پر عیادت کی۔ لیکن عمران خان اتحادی ہیں انھیں عیادت کے لیے خود آنا چاہیے تھا۔ یہ غلطی عمران خان نے ماضی میں بھی کی تھی اور اب پھر کی ہے۔ شاید حکمران قیادت کو اندازہ نہیں ہے کہ اس کے سیاسی طور پر خطرناک نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔فون توآصف زرداری نے بھی کیا ہے اس لیے عمران خان کا صرف فون کرنا کافی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ق لیگ اور ن لیگ آگے کسی مشترکہ روڈ میپ پر متفق ہو سکتے ہیں۔

کیا اگلے انتخابات میں دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ممکن ہے۔ ویسے بھی جو لوگ مسلم لیگوں کے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔ انھیں سمجھنا ہوگا کوئی بھی اپنی جماعت دوسری جماعت میں ضم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ صرف انتخابی اتحاد ممکن ہے۔ اس لیے میری رائے میں اگلے انتخابات میں ق اور ن کے درمیان انتخابی اتحاد ممکن جب کہ ق اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد ٹوٹتا نظر آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔