بیرونی سرمایہ کاری میں کمی، اضافے کی ضرورت

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 20 نومبر 2021
نئے مالی سال کی آمد کے ساتھ ہی معیشت کی بہتری کے بارے میں بہت سی توقعات وابستہ ہیں

نئے مالی سال کی آمد کے ساتھ ہی معیشت کی بہتری کے بارے میں بہت سی توقعات وابستہ ہیں

نئے مالی سال کی آمد کے ساتھ ہی معیشت کی بہتری کے بارے میں بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ نئے مالی سال 2021-22 کا جب بجٹ پیش کیاگیا تھا۔ اس میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کے بارے میں بہت سی توقعات باندھ لی گئی تھیں، لیکن ابھی یکم جولائی کا آغاز ہی ہوا تھا کہ کورونا وبا نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافے کا ریکارڈ قائم کرنا شروع کردیا تھا.

لہٰذا کورونا سے متعلق پابندیوں میں بہت سختیاں نافذ کردی گئیں۔ ان میں کراچی میں اگست کے مہینے میں ہونے والا سخت ترین لاک ڈاؤن اور اس کے ساتھ افغان صورت حال جس میں وہاں کی قبائلی سیاست سے کہیں زیادہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت ابھر کر سامنے آئی۔

افغان سیاست و معیشت سے پاکستان ہمیشہ متاثر ہوتا ہے اور پاکستان میں کئی ماہ سے رونما ہونے والے مختلف سیاسی اور معاشی واقعات کے باعث اب یہ منظر سامنے لارہے ہیں کہ پاکستان کی معیشت اب سیاسی عدم استحکام سے لرز رہی ہے۔ ڈالرکی اڑان کو دیکھتے ہوئے روپے کی شدید بے قدری معیشت سے دیکھی نہیں جارہی، اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری جوکہ پہلے ہی گھٹ رہی تھی ، اب مزید سکڑ کر رہ گئی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق ماہ جولائی تا اکتوبر 2021 یعنی ان 4 ماہ کی بیرونی سرمایہ کاری گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے مقابلے میں 12فیصد کم ہے یعنی ان 4 ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 662.1 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے جب کہ گزشتہ سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران 750.6 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ان میں طویل مدت کی سرمایہ کاری میں سرفہرست ممالک میں نیدر لینڈ، چین و امریکا شامل ہیں۔

گزشتہ عشرے سے غیر ملکی سرمایہ کار اس بات کو مدنظر رکھتا تھا کہ آیا اسے کتنی بجلی، کتنی قیمت پر اورکتنے وقت کے لیے مل سکتی ہے اور کمرشل لحاظ سے اس کے خرچے کا تخمینہ لگایا جاتا ہے پھر عموماً سرمایہ کار اس بات کو مدنظر رکھتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دیکھ کر ہی فیصلہ کرپاتا ہے۔

اس کے بعد گیس بحران کے مسئلے سے آگاہی حاصل کرتا ہے اور دیگر بہت سی باتیں ہوتی ہیں جن میں اہم کرنسی کی مضبوطی کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اب ہم بیرونی سرمایہ کاری کی طرف آتے ہیں تاکہ جائزہ لیا جاسکے کہ پاکستان کی ایسی معیشت جو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ روپے کی سکڑتی ہوئی ویلیو اور ہر شئے کی بڑھتی ہوئی قیمت سے شدید متاثر ہے۔ اس کا فوری نتیجہ یہ نکل آیا کہ 4 ماہ میں صرف 66کروڑ 21لاکھ ڈالرز کی نئی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ آج سے ایک عشرہ قبل پاکستان میں سالانہ8ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوا کرتی تھی۔

اب اس میں کمزور کرنسی سے زیادہ مہنگائی نے کام کر دکھایا ہے کیوں کہ اس وقت مارکیٹ میں جو حالات چل رہے ہیں، اس کے مطابق ہر شئے کی قیمت میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی وہ ٹیم جوکہ پاکستانی حکام سے دبئی میں گفتگو کررہی تھی اور آیندہ کرنے جا رہی ہے اس کے سخت رویے نے بیرونی سرمایہ کاروں کو متذبذب کر رکھا ہے ، بصورت دیگر دنیاکے ہر ملک کو بیرونی سرمایہ کاروں کی تلاش ہوتی ہے حتیٰ کہ حالیہ برسوں میں امریکا اور کئی یورپی یونین کے ملکوں میں بڑی بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے قواعد پر نظر ڈالیں تو اعداد و شمار کے لحاظ سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جب 7یا 8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی تھی اس وقت ملکی شرح افزائش بھی بڑھ رہی تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری اس لیے اس وقت بہت زیادہ پرکشش ہوکر رہ جاتی ہے ، جب مہنگائی کی بڑھتی ہوئی لہر کو قابو پانا آسان نہیں ہوتا۔ اب ملکی سرمایہ کاری کم سطح پر آچکی ہے کیوں کہ اب ہر پاکستانی جس کی آمدنی چاہے کتنی بھی ہو اب پہلے کی طرح وہ بچت نہیں کرسکتا کیوں کہ ہر شخص اپنی آمدن میں سے جو رقم بچالیتا ہے اسے بینک میں جمع کرا دیتا ہے۔

اس طرح مجموعی رقم مختلف طریقوں سے معیشت کے مختلف شعبوں میں استعمال کرلیا جاتا ہے لیکن موجودہ مہنگائی کی لہر نے ملک میں ہر قسم کی سرمایہ کاری کے حجم کو گھٹا کر رکھ دیا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے کئی ممالک سے پاکستان بات کرسکتا ہے ان میں اہم سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات وغیرہ ہیں کیوں کہ کسی ملک کی معاشی ترقی کے لیے بیرونی سرمایہ کاری انتہائی اہم ہے اس کے ذریعے پیداوار ، آمدنی اور روزگار کے لیے ذرایع پیدا ہوتے ہیں۔

پاکستان جس کی درآمدات بڑھ رہی ہے ، اسے درآمدات میں کمی لانے کے لیے ایسی غیر ملکی کمپنیوں کو ترغیب دینا ہوگی تاکہ وہ یہاں آکر سرمایہ لگائیں اور درآمدات کے بدل کی مصنوعات ملک میں ہی تیار کردیں۔ بھارت گزشتہ کئی عشروں سے بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے ہر جتن کو آزما رہا ہے۔ بنگلہ دیش نے یہ معاشی پالیسی اختیار کرلی کہ غیر ملکی صنعتکاروں کو اتنی زیادہ مراعات و سہولیات فراہم کردی جائیں کہ وہ ملک میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان جو کہ ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات اور دیگر کئی شعبوں کا طویل تجربہ رکھتا ہے۔

غیر ملکی صنعتکاروں کو اس جانب مائل کرسکتا ہے جس کے لیے بہتر کاروباری ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔ پاکستان نے ماضی میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے اپنے معاشی منصوبوں میں کئی حکمت عملی اختیار کی تھی جن میں سے کئی انتہائی اہم اس طرح سے ہیں کہ بیرونی اور ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرتے ہوئے ان اہداف پر کام کیا جائے جس سے زرعی خود کفالت حاصل ہونے کے ساتھ زراعت پر مبنی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔