راز و نیاز کی حقیقت

فاروق عادل  پير 20 دسمبر 2021
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

کیا صدر ممنون حسین نے اس وقت کے وزیر مملکت برائے مذہبی امور کے کان میں کوئی ایسی بات کہی تھی کہ وہ اس ملک کے آئین کو مانتے ہیں نہ عدالت کو؟

ذرا ٹھہریے، یہ بیان ذرا سخت ہو جائے گا۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ عدالت کے کسی سزا یافتہ مجرم کو بچانے پر کمر بستہ تھے اور راز و نیاز کے لیے انھیں مذکورہ وزیر ہی دست یاب تھے۔ ایسی کوئی سرگرمی ایوان صدر میں ہوئی تو ضرور تھی لیکن یہ سرگرمی کیا تھی؟ اب وقت آگیا ہے کہ اس کی تفصیل بھی قوم کے سامنے آجائے۔

دفتر میں تاخیر ہو جاتی تو میں ڈرائیور کو چھٹی دے دیتا اور چہل قدمی کرتا ہوا گھر پہنچتا۔ ایوان صدر میں آنے جانے کے راستے دو ہیں۔ ایک وہ ہے جس کا ناک نقشہ ہر پاکستانی کے ذہن میں نقش ہے، یعنی قمقموں میں چمکتا ہوا عظیم الشان دروازہ۔ یہ ایک ایسا دروازہ ہے جس کے عین وسط سے گزرتے ہوئے اس کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس ایوان میں آنے جانے یا یہاں کام کرنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی آمد و رفت یہیں سے ہوا کرے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہاں سے گزرنے والے اس در و دیوار کی بزرگی کے ساتھ کہیں اپنی ذات کو بھی شامل کر لیتے اور سمجھتے ہیں کہ اس دروازے کے بڑے قد کاٹھ کے ساتھ خود ان کا اپنا قد بھی شامل ہو گیا ہے۔

اس معروف دروازے کی لفٹ براہ راست چوتھے فلور پر پہنچاتی ہے۔ یہ وہی منزل ہے جہاں صدر مملکت کا دفتر ہے۔ دیگر منزلوں پر جانے کے لیے ایک اور راستہ ہے۔ بائیں جانب ایک چھوٹاسا دروازہ تھا جو گیٹ نمبر دو کہلاتا ہے۔ اس راستے سے آنے والے ایک طویل سرنگ سے گزرتے ہوئے لفٹ تک پہنچتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، دفتر تو ان کا تیسری منزل پر تھا لیکن یہ عوامی راستہ اختیار کرنے کے بجائے آنے جانے کے لیے ہمیشہ بادشاہی راستہ اختیار کرتے۔

یہ شاید اللہ کی خاص مہربانی ہی تھی کہ میں نے جب یہاں اپنی ذمے داریاں سنبھالیں تو ایسے لوگوں سے دوستی بھی ہو گئی جنھوں نے اس قصر سفید کے بہت سے اسرار و رموزمجھے سمجھا دیے۔ یہ ان ہی معلومات کا فیض تھا کہ اس ایوان کے ہر گوشے تک رسائی کی قانونی اجازت رکھنے کے باوجود میں نے اپنی آمد و رفت کے لیے اسی بائیں بازو والے درویشی دروازے کا انتخاب کیا۔

وہ فروری کا کوئی دن تھا جب کام نمٹا کر میں اٹھا اور اسی سرنگ میں بل کھاتا ہوا باہر نکلا تو اس شہر کی خوش گوار خنکی نے میرا خیر مقدم کیا۔ مری کی یخ فضا سے نکل کر اسلام آباد کے سبزہ زاروں میں پہنچنے والے ہوا کے جھونکے اس ایوان کی پہاڑی پر صدیوں سے سر اٹھائے کھڑے چیڑ کے درختوں کو چھوتے ہوئے نیچے اترتے ہیں تو فضا معطر ہو جاتی ہے۔ عمارت سے نکل کر میں نے دو چار لمبے سانس لیے اور گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ راستہ سپریم کورٹ کے ایک کونے کو چھوتا ہوا ہیلی پیڈ تک پہنچتا ہے پھر وہاں سے رہائشی علاقے میں داخل ہو جاتا ہے۔

ایک زمانہ تھا، سپریم کورٹ والی نکڑ پر کچرا کنڈی بنی ہوئی تھی جس سے اٹھنے والی بو یہاں کے معطر ماحول کو آلودہ کر دیتی تھی۔ جانے کیا واقعہ ہوا کہ یہ جگہ سپریم کورٹ کے کسی چیف جسٹس کی نگاہ میں آگئی۔ یوں اس قریۂ خوب سے اس نظر بٹو کے ہٹانے کی نوبت آئی۔ ورنہ صبح و شام یہاں سے گزرتے ہوئے طبیعت منغض ہوتی تھی۔ اُس روز بھی میں اس کوچے کے اچھے برے گوشوں سے ہوتا ہوا گھر پہنچا۔ ابھی اوسان بحال نہیں ہوئے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میرے دوست اور رفیق کار نوید الٰہی تھے۔

ایوان صدر میں کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ حکومت کی تمام وزارتیں ڈائیریکٹر جنرلز میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ دیگر وزارتوں کے علاوہ وزارت مذہبی امور بھی ان ہی کے پاس تھی۔ انھوں نے چھوٹتے ہی بتایا کہ ایک گڑبڑ ہو گئی ہے۔ ’کیسی گڑبڑ نوید بھائی؟‘۔ میں نے کسی قدر پریشانی سے سوال کیا۔ نوید الٰہی ایوان صدر کے نہایت متحرک اور ذمے دار افسروں میں سے ایک تھے۔ وہ کسی معاملے میں پریشان تھے تو اس کا مطلب یہی تھا کہ واقعی کوئی بڑی گڑ بڑ ہو گئی ہے۔ کہنے لگے کہ فون پر نہیں بتائی جا سکتی۔

میں خود آ رہا ہوں۔ پتہ یہ چلا کہ اگلی صبح وزیر مملکت برائے مذہبی امور کی قیادت میں علما اور مشائخ کا ایک وفد صدر ممنون حسین سے ملنے والا ہے۔’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘۔ میں نے نوید صاحب سے کہا۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق اس ملاقات میں یوں کوئی پریشانی نہیں تھی کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ صبح و شام صدر مملکت سے ملتے رہتے ہیں۔ یہ ملاقات تو اس لیے بھی معمول کا حصہ اور کسی پریشانی کا باعث نہ تھی کہ وفد کی قیادت کابینہ کے ایک رکن کر رہے تھے۔’ یہی تو گڑ بڑ ہے‘ نوید صاحب نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد نوید الٰہی نے جو بات بتائی، اس کے بعد واقعی پریشانی شروع ہو گئی۔

یہ وفد ملک کے ایک خاص مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور مشائخ عظام پر مشتمل تھا۔سزائے موت کے ایک قیدی کے ورثا کچھ عرصہ قبل رحم کی درخواست دائر کر چکے تھے۔وفد امکانی طور پر اسی سلسلے میں صدر مملکت سے ملنا چاہتا تھا اور مدعا یہ لگتا تھا کہ وہ رحم کی درخواست منظور کر لیں۔

کابینہ کا کوئی رکن یا ویسے ہی کوئی شہری سربراہ ریاست سے ملنا چاہے تو اس میں ایسی کوئی خرابی نہیں لیکن اس پس منظر میں یہ ملاقات کئی مسائل پیدا کر سکتی تھی۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ وفد میں شامل ایک شخصیت کا نام فورتھ شیڈول میں شامل تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا فرد جو پولیس کو اس درجے مطلوب ہو اوروہ صدر مملکت کو ملنے پہنچ جائے تو اس میں کئی قسم کی قباحتیں ہو سکتی ہیں۔ سارے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ یہی ہوا کہ صدر مملکت کو اس صورتحال سے آگاہ کیا جائے، اس کے بعد وہ جیسا چاہیں، ویسے ہی کر لیا جائے۔

یہ معاملہ اس لیے زیادہ حساسیت اختیار کر گیا کہ ان دنوں ایوان صدر میں کوئی مستقل سیکریٹری نہیں تھے۔ سیکریٹری کی عدم موجودگی میں قائم مقام سیکریٹری ذمے داری انجام دے رہے تھے، لہٰذا ڈائریکٹر جنرل نوید الٰہی نے انھیں صورتحال کے بارے میں بتایا لیکن پھر بھی ملاقات طے کر دی گئی۔

اس لیے ضروری ہو گیا کہ صدر مملکت کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کیا جائے۔صدر صاحب تک جب یہ اطلاع پہنچی تو انھوں نے ہدایت کی کہ کوئی خلاف ضابطہ کام نہ کیا جائے۔صدر مملکت کی اس ہدایت پر فورتھ شیڈول میں نام والے شخص کا نام وفد سے نکال کر وزیر صاحب کو مطلع کیا گیا ۔ اس اطلاع پر وہ مایوس ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اُن کے بغیر ملاقات سود مند نہیں ہوگی۔یوں یہ ملاقات منسوخ کر دی گئی۔

صدر ممنون حسین اور وزیر صاحب کے مابین کیا راز و نیاز ہوئے، ان کا نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ ریکارڈ پر کوئی ایسی بات موجود ہے لیکن پیر صاحب صدر ممنون حسین سے جس وفد کی ملاقات کرانا چاہتے تھے، اس کی تفصیل میں نے یہاں بیان کر دی ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی بزرگ اس سلسلے میں اپنے دعوؤں کا سلسلہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔