موروثی سیاست اور شخصیت پرستی میں برائی کیا ہے

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 20 دسمبر 2021
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

دنیا بھر میں سیاست کے میدان میں شخصیت پرستی یا لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں سے متاثر ہونااوراُسے منتخب کرتے رہنا کوئی قابل اعتراض نہیں سمجھاجاتا۔

لیڈر اورقائد اُسی شخص کو کہاجاتاہے جس کے اندر قائدانہ خوبیاں اور صلاحیتیں اس قدر نمایاں ہوتی ہیں کہ ملک کی اکثریت اُسے اپنا لیڈر تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔آج ہم کیوں اپنے سیاسی حالات سے اتنے مایوس اورمتفکر ہیں کیونکہ ہمیں اپنی رہنمائی کے لیے کوئی لیڈر نہیں مل رہا۔ معاشی حالات تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔

مہنگائی اوربے روزگاری کی وجہ سے قوم خودکشیوں کی طرف مائل ہورہی ہے ،کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ لوگ کسی ایسے لیڈر کی تلاش میں سرگرداں ہیں جس کی قیادت میں وہ اپنے اورملکی حالات کو بدل سکیں۔ وہ بے چین او ر مضطرب تو ضرور ہیں لیکن انھیں کوئی ایساشخص نہیں مل رہاجس کے پیچھے وہ چل کرکوئی انقلاب برپا کرسکیں۔

ہم جب قائد اعظم محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ دراصل یہ اعتراف بھی کررہے ہوتے ہیں کہ قوموں کو اپنی کامیابی اورکامرانی کے لیے اورمنزل مقصود تک پہنچنے کے لیے کسی نہ کسی شخص کو اپنا لیڈر تسلیم کرناہوتاہے۔ نیلسن منڈیلا، ماؤزے تنگ ، چواین لائی ، مہاتما گاندھی اور اندراگاندھی کو لوگ کیوں اپنالیڈر مانتے ہیں۔

دیکھاجائے تو اُن سب کے اندر بظاہر کوئی جسمانی یاظاہری خوبصورتی نہیںتھی، نا وہ اچھا بول سکتے تھے اورنہ کوئی غیر معمولی تقریر کرسکتے تھے لیکن لوگوں نے انھیں اپنالیڈر مانا ۔ لیڈر ہونے کے لیے خوبصورت اوراسمارٹ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ لیڈر وہ ہوتاہے جسے اپنی قوم کی امنگوں کا مکمل ادراک اوراحساس ہوتاہے اورجو انھیں ان کی مشکلوں اور مصائب سے باہر نکال سکے،جو ملک وقوم کو رہتی دنیا میں ایک باعزت مقام دلاسکے ، انھیں محتاجی اورغلامی کی دلدل سے نکال کرایک خود داراورخود مختار قوم بناسکے۔

ہمارے یہاں کچھ لوگ اور تجزیہ نگارجو دنیا کی سیاسی تاریخ سے نابلد اورناواقف ہوتے ہیں جب الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھ کر اپنی ذہانت اورقابلیت کاپرچار کررہے ہوتے ہیں تووہ شخصیت پرستی اورموروثی سیاست کے خلاف دل کھول کراپنی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں۔ اُن کی نظر میں بیٹے یابیٹی کو اپنے والدین سے ملنے والا سیاسی ورثہ ملک وقوم کے لیے مضر اور نقصان دہ ہوتا ہے۔

ان کے نزدیک خاندانی سیاست ایک قابل تعزیر جرم ہے ۔اُن کے خیال میں سیاست کبھی بھی ایک خاندان کاپیشہ اورمشغلہ نہیںہوناچاہیے۔ وہ اپنے خیالات اورنظریہ کے حق میں یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ پارٹی کے اندر کوئی دوسرا عام شخص پارٹی چیئرمین اورصدر کے عہدے کے لیے کیوں قبول نہیں ہوتا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی کی ساری مقبولیت اورعوامی پذیرائی کاانحصار صرف اُس ایک شخص کا مرہون منت ہے جس نے یہ پارٹی بنائی ہوتی ہے۔

وہ یااُس کے خاندان کاکوئی شخص منظرعام سے ہٹادیاجائے تو پارٹی کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑسکتاہے۔ آج اگر پیپلزپارٹی سے بھٹوخاندان کے فرد کو ہٹاکرکسی دوسرے شخص کو اُس کاسربراہ مقررکر دیا جائے تو کیا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پارٹی اُس طرح قائم ودائم رہ سکے گی جیسی وہ آج ہے، یہی بات ہم مسلم لیگ نون کے لیے بھی کہہ سکتے ہیں، جس شخص نے یہ پارٹی بنائی ہے عوام الناس نے اُسے دیکھ کرپارٹی کو یہ پذیرائی بخشی ہے،وہی اگر منظر سے غائب ہوجائے تو پھر توپارٹی کا ہرشخص اپنے آپ کو قیادت کاحقدارسمجھنے لگے گا۔ عوام کے ووٹوں کاانحصار بھی پارٹی کے چیئرمین اوربانی سے جڑاہوتاہے خود اس کے ممبران اوردیگر ارکان کی الیکشن میں کامیابی کادارمدار بھی اُس سے وابستگی پرمنحصر ہوتاہے۔

وہ اگر الیکشن میں پہلی بار کامیاب ہوتے ہیں توبھی اُس پارٹی اوراُس کی قیادت سے وابستگی، اس کے ٹکٹ اورنشان کے بل بوتے پر۔یہ اوربات ہے کہ بعد ازاں وہ اپنی کارکردگی اورقابلیت کی وجہ سے عوام میں اتنے مقبول ہوچکے ہوتے ہیں کہ شاید ضرورت پڑنے پر پارٹی کی قیادت کی ذمے داری بھی سنبھال سکیں۔ جیسے ہم نے شاہد خاقان عباسی کو 2017 ء میں دیکھاتھا۔ بلاشبہ انھوں نے اپنے اس مختصر سے دور حکومت میں یہ ثابت کردکھایا کہ وہ قوم کی قیادت کے لیے ایک درست متبادل کے طور پر آزمائے جاسکتے ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عوام الناس کی محبت اور چاہت پارٹی بنانے والے سے جڑی ہوتی ہے،وہ جب تک زندہ ہے یہ محبت ختم نہیں کی جاسکتی ہے۔

یہی بات ہم عمران خان کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں، وہ اگر پارٹی کی سربراہی سے کنارہ کش ہوجائیں توپارٹی کاشیرازہ ہی بکھرجائے گا،پھر ہرشخص ہی خود کوپارٹی کی صدارت کے لیے اہل اورحقدار جاننے لگے گا۔ہم اسی لیے کہتے ہیں کہ شخصیت پرستی کوئی بری یاقابل اعتراض چیز نہیں ہوتی۔ اسی طرح موروثی سیاست بھی کوئی خلاف جمہوریت نہیں ہوتی۔ عوام جس کو چاہیں اورجب تک چاہیں اُس کاحق ہے کہ وہ اُنکی قیادت کرتا رہے۔جماعت اسلامی ہمارے یہاں ایک بااصول جمہوری پارٹی سمجھی جاتی ہے ۔

وہاں کسی ایک خاندان کی حکمرانی اورراج بھی نہیں ہے ،وہاں باقاعدہ الیکشن سے امیر کاانتخاب ہوتاہے ، لیکن یہی بات خود اس کے لیے مضر صحت بھی ثابت ہوتی رہی ہے۔وہاں کسی ایک شخص کو اتنا موقعہ ہی نہیں ملتاکہ وہ قوم کے سامنے خود کو واقعی ایک لیڈر اور مسیحا ثابت کرسکے۔ملک کے اندر اُس پارٹی کوپسند کرنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن کیاوجہ ہے کہ قوم اُسے حق حکمرانی دینے میں ہچکچاہٹ کاشکار رہتی ہے۔عوامی پذیرائی کے کچھ اصول اورمعیارات مقرر ہیں۔

جماعت اسلامی اُن اصولوں پر شاید پورا نہیں اترتی، وہ اپنے ایک مخصوص خول میں رہتے ہوئے سیاست کرناچاہتی ہے جو اس کی ناکامی کامتواتر باعث بن رہی ہے۔اُس کے پاس بھی پیپلزپارٹی کی طرح ایک اچھی خاصی اسٹریٹ پاور بھی ہے لیکن سوچا جائے کہ کیاوجہ ہے کہ عام انتخابات میں لوگ اُسے دو تین سیٹوں سے زیادہ کامیاب ہونے نہیں دیتے۔

یہ ہماری قوم کی طرف سے اس کے خلاف کیاعدم اعتماد کااظہارنہیںہے،جماعت اسلامی ایک بہت پرانی سیاسی پارٹی ہے ۔ اس کے بہت بعد بننے والی سیاسی جماعتیں عوامی پذیرائی کے بڑے جھنڈے گاڑ چکی ہیں لیکن جماعت آج بھی اس مقام پرکھڑی ہے جہاں وہ 1970 کے انتخابات میں کھڑی تھی۔

ہماری رائے اسی لیے بھی شخصیت پرستی کے حق میں ہے، لیڈر میں اگر قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں توپھر اسے حکمرانی کا حق دینا قوم پرواجب ہو جاتا ہے، جو پارٹی عوام کے اندر اپنے لیڈر کی وجہ سے مشہور ومقبول ہوتو اُسے بھی اس کے نام سے جڑااورچلتارہنا چاہیے۔ عوام ووٹ ہی اس ایک نام کی وجہ سے دیتے ہیں تو پھر اس نام کو مٹاکرپارٹی کے وجود کو خطرے میں ڈال دینا کونسی عقل مندی ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹونے بھی یہ ثابت کردکھایاتھاکہ وہ قوم کی قیادت کرنے کی واقعی اہل اورقابل ہیں، اسی طرح آج اگر مریم نواز شریف اپنے والد کی وراثت کو آگے بڑھانے اورپروان چڑھانے میں اپنے بھائیوں کے مقابلے میں زیادہ اہل اور قابل دکھائی دیتی ہیں تواس میں حرج ہی کیاہے۔ لیڈربننایاقائدانہ صلاحیتوں کا ظاہر ہونا قدرت کی طرف سے انسان میں پیدائشی ہواکرتاہے،وہ زبردستی بنایا یا پیدا نہیں کیا جا سکتا ہے، ورنہ حسن نواز اور حسین نواز بھلا کیوں پیچھے رہتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔