گوادر؛ مقامی قیادت اور معاہدے کا احترام کیا جائے!

علی احمد ڈھلوں  منگل 21 دسمبر 2021
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

بحیرہ عرب کے کنارے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر جو موجودہ معاشی دوڑ میں دنیا بالخصوص براعظم ایشیاء میں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے خاصی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔

یہاں گزشتہ ماہ ایک تحریک نے جنم لیا جو دیکھتے ہی دیکھتے دھرنے میں تبدیل ہوگئی اور دھرنا بالآخر 32روز بعد ایک معاہدے کے ساتھ ختم ہوگیا۔ معاہدہ کیا طے پایا، کونسے مطالبات تسلیم ہوئے ،کون سے نہیں، مطالبات تسلیم کرنے میں 32دن کیوں لگے ، اس دوران کس کس سے بات چیت اور روابط ہوئے، اس پر تو بعد میں آتے ہیں مگر سب سے پہلے گوادراور بلوچستان پر نظر ڈالتے ہیں۔

قارئین! بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ یہاں غربت کی شرح 71 فی صد ہے۔ 86 فی صد دیہی آبادی خط ِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ بیروزگاری کی شرح 90 فی صد ہے جب کہ گزشتہ 15 سال سے یومیہ فی کس آمدنی ایک ڈالر یعنی 175 روپے سے بھی کم ہے۔

بنیادی سہولتوں کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبے کے ایک کروڑ 24 لاکھ عوام کے لیے سرکاری اسپتالوں میں کل 7797 بستر (Beds) دستیاب ہیں یعنی 1590 افراد کے لیے اسپتالوں میں صرف ایک بستر دستیاب ہے،جب کہ صوبے بھر میں 947ہائی اسکولز، 97 کالجز اور 8 یونیورسٹیاں ہیں۔

70 فی صد سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔اور اگر وسائل کا مختصر جائزہ لیں تو دنیا کے قدرتی گیس کے ذخائر کا پانچواں حصہ سوئی کے مقام سے نکلتا ہے۔ قومی پیداوار کا 90 فی صد بادام، انگور، چیری اور دیگر ڈرائی فروٹس بلوچستان پیدا کرتا ہے۔

یہاں معدنیات، سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں جن سے ابھی تک فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ بلوچستان میں 25 لاکھ سے زائد نوجوان ہیں لیکن انسانی سرمایہ بے روزگاری اور محرومی کا شکار ہے۔ گزشتہ74 سال میں سول اور غیر سول حکومتوں نے بلوچستان میں پینے کے صاف پانی سمیت کسی مسئلے کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ وفاقی حکومت نے بھی بلوچستان کو حالات کے رحم و کرم پرچھوڑ دیا ہے۔ جب کہ باپ پارٹی کی حکومت بھی گروہی تنازعہ سے باہر نہیں نکل سکی جس کی وجہ سے بلوچستان کے عوام بدترین غربت ، پسماندگی کا شکار ہیں جب کہ چند سو بااثر خاندان اور افراد سرکاری وسائل خود ہڑپ کرجاتے ہیں۔

گوادر کی بات کی جائے تو وہاں کے مقامی افراد کا سب سے بڑا ذریعہ روزگار ماہی گیری ہے، یہی وہ معاملہ ہے جو عوامی احتجاج کا باعث بنا ہے ۔ ایک فوری مسئلہ یہ بھی ہے کہ گوادر اور اس کے قرب وجوار میں واقع گاؤں پسنی، جیوانی اوراس کے اردگرد کے علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں اور ان علاقوں میں دھول اڑ رہی ہے ،جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ یا تو اپنے مال مویشی اونے پونے داموں فروخت کررہے ہیں ، یا پانی کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

گوادر اور اس کے اردگرد کے علاقوں کوپانی کی فراہمی کا واحد ذریعہ اکارہ کور ڈیم ہے لیکن یہ بھی قریب قریب خشک ہوچکاہے ،یہ ڈیم 1990 کے اوائل میں تعمیر کیاگیاتھا لیکن علاقے اور خاص طورپر گوادر کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کی تکمیل میں ناکام رہاہے۔

اس ڈیم میں علاقے کی ضرورت کے مطابق پانی کاذخیرہ نہ ہوسکنے کی ایک اور بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں پانی کے ساتھ آنے والی مٹی کو سال بہ سال صاف کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ پھر یہاں کے عوام صحت، تعلیم، روزگار اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

حالانکہ یہاں پر پاک چائنہ اقتصادی راہداری کی بنیادبننے والا CPECچین کے شہرسنکیانگ سے لے کر گوادر تک 2442کلومیٹر لمبا روڈ ہے جس کی کل لاگت 60بلین امریکی ڈالر ہے جس میں انرجی زون، سڑکوں کا ایک وسیع نیٹ ورک،تعلیمی ادارے،اسپتال اور رہائشی کالونیوں سمیت دیگر کئی اہم پروجیکٹ شامل ہیں مگر ان تمام منصوبوں اور بجٹ کی خطیر رقم ہونے کے باوجود گوادر اور مکران ڈویژن کے مکین بدترین غربت اور پسماندگی کا شکار ہیں، جب اُن کی قوت برداشت نے جواب دے دیا تو بقول شاعر

برداشت کی حدوں سے مرا دل گزر گیا

آندھی اٹھی تو ریت کا ٹیلہ بکھر گیا

الغرض یہاں کے لوگ حکمران اشرافیہ کے ظلم و ستم کے خلاف پھٹ پڑے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ بارڈر ٹریڈ پر روک ٹوک، کمیشن اور ٹوکن کی وصولی ہے، لگتاہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقامی آبادی میں منشیات کی لت لگائی جارہی ہے۔ پھر جبری گمشدگیوں کی پرانی ’’روایات ‘‘ بھی سب کے سامنے تھیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن پر وفاقی اور صوبائی حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی، مگر اب معاہدہ جو طے پایا ہے اُس کے مطابق بلوچستان کی سمندری حدود میں غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور اس کی روک تھام کے لیے محکمہ ماہی گیری اور ماہی گیر مشترکہ پٹرولنگ کریں گے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ ہو چکا ہے۔

’پسنی، ماڑہ اور لسبیلہ کے علاقوں میں آیندہ اگر کوئی ٹرالر پایا گیا تو متعلقہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ماہی گیروں کو سمندر میں جانے کی آزادی ہوگی جب کہ وی آئی پی نقل و حمل کے دوران بلاضرورت عوام الناس کی نقل و حمل کو محدود نہیں کیا جائے گا۔پھر کہا گیا ہے کہ تمام غیر ضروری چیک پوسٹیں ختم کر دی جائیں گی، اس کے علاوہ گوادر میں ایکسپریس وے متاثرین کو دوبارہ سروے کے بعد جلد معاوضہ ادا کیا جائے گا۔معاہدے کے مطابق حق دو تحریک کے کارکنان پر تمام مقدمات فوراً ختم کیے جائیں گے اور حق دو تحریک کے قائد مولانا ہدایت کا نام فورتھ شیڈول سے فوری طور پر خارج کیا جائے گا۔

اب جب کہ ان 32دنوں میں پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ بلوچستان کے غریب عوام حکومتی پالیسیوں سے کس قدر نالاں ہیں؟ اچھا یہ ہوا ہے کہ حکومت کو مطالبات تسلیم کرنے کا خیال آگیا۔ حالانکہ حکومت میں شامل بعض کردار مظاہرین کو بزور طاقت کچلنا چاہتے تھے ۔ آج وقتی طور پر تحریک تھم گئی ہے تو اگر معاہدے کے مطابق کام نہ کیا تو حالات مزید بگڑیں گے ۔ اس لیے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور بلوچستان کے غریب عوام کے لیے سہولیات پیدا کی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔